کالمز

چیف سیکرٹری کے نام ایک عوامی خط

Sher Ali Anjum یوں تو ہمارے خطے کے تمام سرکاری،نجی اور دینی اداروں میں کرپشن کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں یایہ کہیں تو غلط نہ ہوگاکہ مکمل اسلامی معاشرہ ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود کرپشن کے بغیر معاشرتی تعریف مکمل نہیں۔انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے اہل علاقہ کی اصرار پرسرکاری اور نجی اداروں میں ہونے والے کرپشن کے حوالے سے کچھ تلخ حقائق پرنٹ میڈیا کی وساطت سے محترم چیف سیکرٹری صاحب کی توجہ مرکوز کرانا چاہوں گا کیونکہ گزشتہ عشروں سے غاسنگ،منٹھوکھا کھرمنگ بلتستان اور ملحقہ علاقوں میں تمام سرکاری پراجیکٹس کرپشن کاشکار ہو رہے ہیں۔

اگر ہم گفتگو غاسنگ سے شروع کریں تو غاسنگ نالہ روڈ کی تعمیر، ریپیرینگ اور ایکسٹینشن کیلئے کئی بار فنڈز جاری ہونے کے باوجود یہ سڑک آج خچر کیلئے بھی قابل استعمال نہیں۔ اسی طرح آخونپہ غاسنگ میں دریائے سندھ کی وجہ سے زمینی کٹاو کو روکنے کیلئے گزشتہ دہائیوں سے آج تک سر کاری پیسوں کا بے دریغ استعمال کرنے کے باوجود عوامی املاک آج بھی محفوظ نہیں البتہ چند مخصوص لوگوں کے دن بدل گئے لیکن کسی سرکاری ادارے کی طرف سے انکوائری وغیرہ نہیں کرایا گیا جس کے سبب یہاں نام نہاد کرپٹ عناصر کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔آگے چل کر اگر ہم منٹھوکھا کی بات کریں تو یہاں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں یہاں بھی سرکاری اور نجی اداروں ترقیاتی فنڈز کو کچھ لوگ ثواب اور عبادت سمجھ کر ہڑپ کرتے ہوئے معاشرتی نظم نسق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی خوب کرتے رہے ہیں لیکن معاشرہ آج ایسے ہی علمبرداروں کی وجہ سے اس حد تک انتشارکا شکار ہے جسے لفظوں میں بیاں بھی نہیں کیا جاسکتا

۔یہاں پر گزشتہ دہائیوں سے سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر عوامی حقوق پر خوب ڈاکے ڈال کر معاشرے کا جو حال کیا ہے وہ اُسے معاشرے کا کوئی دردمند شخص ہی بہتر سمجھ سکتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی پڑھا لکھا طبقہ اس حوالے سے آگاہ نظر نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ منٹھوکھا لنک روڈ مکمل تو کرلیا گیا مگر آج بھی یہ لنک روڈ آج بھی عوامی بیحسی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسی طرح حسین زمبہ(پُل) اور ملحقہ سڑک کی تعمیر کے نام پر کچھ لوگ لاکھوں روپیہ ہڑپ کرچُکے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں بدقسمتی کی بات بھی ہے کہ حالیہ سیلاب کے دوران جب چیف سیکرٹری صاحب نے اس علاقے کا دورہ کیا اور کچھ مقامی لوگوں نے اس مسلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تو ڈپٹی کمشنر سکردو نے عوامی شکایت کو ٹالنے کیلئے رپورٹ تیار کرکے تحقیقات کرنے کی یقین دہائی کرائی لیکن تاحال اس حوالے کس کوئی پیش رفت ہونے کی کوئی خبر نہیں۔بلکل اسی طرح منٹھوکھا نالہ روڈ کی مرمت کے نام پر کچھ لوگ سڑک پر ریت بچھا کر لاکھوں روپے ہڑپ کرگئے لیکن عوامی لاشعوری اور میڈیا سے دوری کے سبب اس طرح کے مسائل اور کرپشن کہانیاں حکومتی نظر سے اوجھل رہتے ہیں جس سے کرپٹ عناصر فائدہ اُٹھا کر سرکاری خزانے کو جعلی ترقیاتی کام کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔آگے چل کے اگر ہم منٹھوکھا ہایئڈل پاور کی بات کریں تو یہاں بھی گزشتہ دائیوں سے کوہل کی تعمیر اور ترمیم کے نام کرپشن کا بازار گرم رہے ہیں مگر اب چونکہ دو میگاواٹ بجلی گھر پر کام جاریہے اور یہاں بھی عوامی اُمنگوں پر ایک بار پھر پانے پھیرنے کی تیاریاں مکمل ہوچُکی ہے کیونکہ یہ ہائیڈل پاور سٹیشن ایک طرح سے سکردو سٹی کی ضروریات کوپورا کرنے کیلئے بنایا جارہا ہے لیکناس بجلی گھر سے ٹاون ایریا کی رائلٹی کے حوالے سے محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی مکمل خاموشی لمحہ فکریہ ہے لہذا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں یہاں کے عوام کو کسی بھی قسم کی لودشیڈینگ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔اس بجلی گھر کی تعمیر کے حوالے سے یہ بھی خدشہ کیا جارہا ہے کہ اس پروجیکٹ کیلئے سرکاری طور پر نامزدکنٹریکٹر نے اپنے آپ کو تمام تر ذمہ داریوں نے آذاد کرکے ذیادہ تر کام مقامی ناتجربہ کار کرپٹ سب کنٹریکٹرز کی سپرد کی ہے یعنی اس بجلی گھر کو بھی آنے والے سالوں میں آمدنی کا ذریعہ بنانے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے ۔لہذا برقیات کے ذمہ داران کو چاہئے کہ اس حوالے سے تحقیق کریں کیونکہ اس بجلی گھر کی تعمیرکیلئے استعمال ہونے والے کسی بھی اشیاء کی معیار پر کسی بھی قسم کی سودا بازی عوام کو منظور نہیں۔

اسی طرح سیلاب متاثرین کی بات کریں تو یہاں کے باسی آج بھی نقصانات کی ازالے کیلئے حکومتی عہدیداروں کی راہ تک رہے ہیں لہذا متاثرین کیلئے جلداز جلد معاوضہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔اب اگر ہم سیاحت کے حوالے بات کریں تو منٹھوکھا آبشار کی مقبولیت کا کوئی جواب نہیں لیکن یہاں آنے والے سیاحوں اور انتظامی کے حوالے سے شکایتوں کی ایک لمبی فہرست ہے مگر مقامی پولیس ،محکمہ سیاحت اورمحکمہ ہیلتھ نے اس حوالے سے آنکھیں بند کی ہوئی ہے۔ سیاحت کے نام پر مقامی اور غیر مقامی اوباشوں کی غیر اخلاقی حرکات کی وجہ سے علاقے کے ماں بہنوں بیٹیوں کیلئے اکثر اوقات راہ چلنا مشکل ہونے کی شکایتیں عام ہوچکی ہے مگر متعلقہ اداروں اور معاشرتی ذمہ داران کی خاموشی کئی سوالات جنم دے رہے ہیں ۔اسی طرح پانی انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے کہتے ہیں کہ اب اگر کوئی عالمی جنگ چھڑ گئی تو پانی کی خاطر ہونگے لیکن بدقسمتی سے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے حفظان صحت کے عین اصولوں کے مطابق موجود قدرتی ندیوں اور آبشاروں کے پانی کو خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تمام مسائل اور پریشانیاں عوام محسوس کرتے ہوئے بھی معاشرتی مجبوریوں کی وجہ سے سلے لبوں کو کھولنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس وقت منٹھوکھا ندی کا پانی ہر گزرتے دن کے ساتھ یہاں کے عوام کیلئے مضر صحت بنتی جارہی ہے یہاں ہر عمر کے افراد میں عجیب و غریب قسم کی بیماریاں روز بروزپھیلتی جارہی ہے مگر افسوس ہمارے اندر اتنی جرات نہیں کہ ہم اس سے متعلق وجوہات کی روک تھام کیلئے کوئی حکمت عملی وضع کریں۔ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ منٹھوکھا آبشار کے نیچے سے بہنے والے قدرتی چشمے سے بذریعہ پائپ لائن عوام کو صاف شفاف پانی فراہم کیا جاسکتا تھا لیکن ہمارے ہاں کچھ نام نہاد لوگ مستقبل کی ضروریات کو دیکھے بغیر ماضی کے اصول کو لیکر سیاست چمکا رہے ہوتے ہیں جنکا اصل مقصد اجتماعی مفاد سے بڑھ کر انفرادی حیثیت کو تسلیم کرانا ہے لہذا اس چشمے کی پانی کو عوام الناس پونچانے کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

مذید اگر بیان کریں تو اس علاقے کا ایک اور اہم مسلہ گندم کی سپلائی کا ہے اس وقت منٹھوکھا گندم سپلائی ڈپو میں سرکاری اعداد شمار کے مطابق عوامی ضرورت سے ذیادہ گندم کی دستیابی بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ ڈپو گزشتہ ایک سال سے خالی پڑا ہے عوام کو ہر بار گندم کی حصول کیلئے گھنٹوں لائن میں لگ کر مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے مگر اس اہم ایشو پر کوئی بولنے والا نہیں کیونکہ اس ڈپو سے محکمہ خوراک کے ذمہ داران نے ماضی میں خوب کرپشن کی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ سٹاک دکھا کر خالی ڈپو عوام کیلئے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں لہذا متعلقہ ادارے اور ذمہ داران سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کرکے اس اہم عوامی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔اب اگر ہم پی ڈبلیو ڈی کی بات کریں یہ بدنام زمانہ محکمہ اپنے کرپشن اور بدعنوانی کے لحاظ سے اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقے میں اس محکمے سے جڑے تمام پراجیکٹ آج تک کرپشن کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ نیب نے بھی سرزمین بے آئین کی طرف رخ کیا ہے لہذا ہم مطالبے کرتے ہیں کہ اس علاقے میں گزشتہ بیس سالوں کے درمیان منظور ہونے تمام سرکاری پراجیکٹ کی مکمل چھان بین کریں تاکہ مستقبل میں یہاں کے عوام کو کرپشن کے اس نظام سے چھٹکارہ مل سکے بات یہاں ختم نہیں ہوتی اس وقت ہمارے علاقے میں کئی ایسے بوگس سرکاری ملازمین کی بھی اطلاع ہیں جو باقاعدہ طور پر ہر مہینے سرکار سے تنخواہ کی مد میں کثیر رقم وصول کر رہے ہیں لیکن اپنے فرائض کی انجام دہی کے بجائے علاقائی سیاست یعنی معاشرے میں انتشار پھیلانے کیلئے بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔لہذا یہاں کے سول سوسائٹی جناب چیف سیکرٹری صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ ان تمام مسائل کی طرف توجہ فرما کرکرپٹ عناصرکو کڑی سزا دیکر عوام کو شکریہ کا موقع دیں۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button