کالمز

’’تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر!‘‘

Tehzeebیہ غالباََ یکم نومبر 1947ء سے پہلے کی بات ہے گلگت ایجنسی کے عوام کو صحت کے حوالے سے سہولیات فراہم کرنے والے واحد شفا خانے اور موجودہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال گلگت میں دانت کی تکلیف کی وجہ سے بے حال ایک مریض کو داخل کیا گیا ۔ لیکن بد قسمتی سے چوکیدار اپنی ڈیوٹی سے غائب تھا ۔ایک انگریز ڈاکٹر نے ناک سکیڑتے ہوئے عینک کو جنبش دے کر کافی سوچ و بچارکے بعد معاملے کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے تالا توڑنے کا فیصلہ کیا ۔علاج معالجے کے بعد مریض ڈاکٹر کو ڈھیر ساری دعائیں دیتا ہو ا رخصت ہوا ۔تھوڑی دیر بعد چوکیدار بھی نمودار ہوا ۔ڈاکٹر نے متعلقہ چوکیدارکو فوراََ معطل کرنے اور ہسپتال کے دروازے کے نقصان کو بھی چوکیدارسے وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا۔
کسی بھی ریاست میں عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جب بندر کے ہاتھ میں استرا تھما دیا جائے یا نا اہل حکمرانوں یا آفیسران کے ہاتھ کسی معاشرے یا ادارے کی باگ دوڑ سونپی جائے تو ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔گلگت ایجنسی کے تاریخ کی اوراق کو اٹھا کر دیکھا جائے تو 1895کے اس وقت کے پولٹیکل ایجنٹ جارج سکاٹ رابرٹ سن (George Scott Robertson)کے لگائے ہوئے پودے یعنی (DHQ Hospital)کی موجودہ خستہ حالت پر نظر ثانی کی جائے تو دھن کے پہاڑوں پر تخت سجائے بیٹھے کھوکھلے دعوے کرنے والے نااہل حکمرانوں کے مکروہ چہرے بے نقاب ہو جاتے ہیں ۔ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال گلگت کی ناکارہ مشینری ‘دوائیوں سے خالی سٹور ‘غلاظت اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار بیت الخلاء کے سامان‘جراثیم زدہ آلات اور غیر تربیت یافتہ اور انسانی جانوں سے کھیلتے نا تجربہ کار پیرامیڈکل سٹاف کو دیکھ کر لگتا ہے کہ رابرٹ سن کی روح بھی عالمِ ارواح میں تڑپ رہی ہو اورہمارے حکمرانوں اور چارہ گروں کی بے حسی پر خون کے آنسو بہا رہی ہو۔

ڈاکٹر حضرات کسی بھی معاشرے میں مسیحائی کا کام سر انجام دیتے ہیں لیکن جب یہی مسیحا اپنے مقدس پیشے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے زر پرستی کو شعار بنائیں تو موت کے فرشتے بننے میں بھی دیر نہیں لگتی اور نہایت بد قسمتی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی زر پرستی کی لت ڈی ایچ کیو ہسپتال اور سٹی ہسپتال کشروٹ کے کچھ ڈاکٹرز کی گردشِ خون میں سرایت کر گئی ہے اور ہر ڈاکٹر کے شفا خانے میں مریضوں سے کہیں زیادہ ملکی و غیر ملکی دواساز کمپنیوں کے ایجنٹس کا رش لگا رہتا ہے اور ڈاکٹرز قیمتی تحائف اور کمیشن کے چکر میں اندھے ہو جاتے ہیں اور کئی مختلف امراض کے کئی مریضوں کو ایک ہی دوا ساز کمپنی کی تیار کردہ اینٹی بائیوٹیک (Antibiotic) دوا تجویز کرتے ہیں جبکہ اینٹی بائیوٹیک کے غیر ضروری استعمال سے نابلد مریض مجبوراََ دوا خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز کی جانب سے سرکاری ہسپتال سے پرائیوٹ کلینک کو زیادہ وقت دینے کی شکایات بھی عام ہیں جس کی وجہ سے مریض مجبوراََکلینک کا رخ کرتے ہیں اور چارہ سازوں کی چارہ سازی کے ہاتھ لٹ جاتے ہیں۔

مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

کسی بھی مہذب اور باشعور سماج میں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کو عوامی خدمت اور قومی مفاد کے میزان میں تولتے ہوئے پیشے کا انتخاب کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی سمت بہتی ہے اور پاکستان میں بد قسمتی سے میرٹ کی پامالی ‘ کیرئیر کونسلنگ کے فقدان اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ غلط پیشے کا انتخاب کرتے ہیں جس کی وجہ سے تجارتی صلاحیتوں کا مالک فرد ڈاکٹر بن جاتا ہے تو ڈاکٹر تاجر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ ٹھیکدارصحافی بن جاتے ہیں تو صحافی ٹھیکدار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ملاّعالمِ دین بن جاتے ہیں تو عالم ملّا۔۔۔۔۔۔۔۔‘ سیاستدان جج بن جاتے ہیں تو جج سیاستدان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی صورتحال اورفرسودہ نظام میں انصاف کا قتلِ عام نہ ہو یا ادارے تباہ و برباد نہ ہوں تو اور کیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 

بقول پروین شاکر

اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہلِ کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا

اس کے ساتھ ساتھ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ اس قوم میں سوک سینس (Civic Sence)کا فقدان پایا جاتاہے اور جس معاشرے کے لوگ بیت الخلاء کے استعمال کے آداب سے نا واقف ہوں یا کوڑا کرکٹ کو گھر کے دروازے سے باہر پھینکنے یا ندی نالوں میں بہانے کا رواج عام ہو تو اس سماج کو مہذب اور تعلیم یافتہ کہلانے کا ہی کوئی حق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایک مہذب اور تعلیم یافتہ قوم بننے میں ناکام کیوں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اور اداروں کی باگ دوڑ ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کے ہاتھوں ہونے کے باوجود تباہی کے دہانے پر کھڑے کیوں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا فرسودہ نظامِ تعلیم رائج ہے کہ جس میں حصولِ تعلیم کا مقصد انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے یا روادار افراد پیدا کرنے کے بجائے چند کتابوں کو رٹ رٹا کر نا جائز طریقوں کے ذریعے امتحان میں کامیاب ہوجانا اورملازمت کے قابل ہوکر سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ بنانا ہے اسی وجہ سے آج ملک کے بڑے بڑے اداروں کوتباہ وبرباد کرنے میں نام نہاد تعلیم یافتہ بیوروکریٹس کا ہاتھ شامل ہے اور ہر ادارے سے وابستہ تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر عہدیدار اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ادارے کو گدھ کی طرح نوچ رہا ہے 

حضرت جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے 

یہ حرامی ہیں غریبوں کے رقیب
ہیں ملازم سب کے سب سرکاریاں

جوں جوں مہذب اور تعلیم یافتہ ممالک اور قومیں ترقی کر رہی ہیں بدقسمتی سے ہم مسلسل پستی کی تاریک راہوں کی جانب گامزن ہیں اور پاکستان کے بڑے بڑے ادارے مسلسل تباہ ہورہے ہیں۔سرکاری سکولوں کی خستہ حالت سب کے سامنے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!شفا خانے بھی عوام کو صحت کے حوالے سے سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اور عدالتوں کی عمارات پر برائے نام عدل و انصاف کے میزان سجائے گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میںیہ ادارے مزید غریبِ شہر کے لیے وبالِ جان بن جائیں کیونکہ جب تک اس ملک میں انارکی قائم ہے اور جب تک اقتدار امیرِ شہر کے ہاتھوں میں ہے اسی طرح غریبِ شہر کا استحصال اور زندگی تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔پاکستان کے غریب عوام اور محنت کش طبقے کو نا اہل حکمرانوں کے سیاسی اعلانوں پر کان دھرنے کے بجائے غریب دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button