کالمز

گلگت بلتستان کی عدالتی کارکردگی پر ایک نظر

صبح صبح اخبارات کا پلندہ کھولتے ہی بعض مقامی روزناموں کے اپرہاف پر نمایاں خبر پر نظرپڑی‘ جس میں کہاگیا تھا کہ گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ( یعنی سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان) میں نئے تعینات ہونے والے چیف جج جناب جسٹس رانا محمد شمیم نے نہایت قلیل عرصے میں41مختلف نوعیت کے مقدمات نمٹادئیے۔ ان مقدمات میں چار ازخود نوٹس،چھ فوجداری جبکہ باقی ماندہ مقدمات سول نوعیت کے تھے۔اسی طرح کی ایک اور خبر چندروز قبل بھی نظروں سے گزری تھی جس کے مطابق چیف کورٹ اور ماتحت عدالتوں نے چھ ماہ کے عرصے میں4200مقدمات نمٹادئیے۔ جس کی مفصل رپورٹ محترم راجہ شاہ سلطان مقپون روزنامہ کے ٹو میں پہلے ہی شائع کرچکے ہیں۔ جبکہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج جناب راجہ شہباز خان کی طرف سے مختلف مقدمات پر دیئے جانے والے فیصلے اس کے علاوہ ہیں‘ جن میں جیو اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن وساتھی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف دائر مقدمات پر فیصلہ سنائے جانے سے علاقائی و قومی سطح پر راجہ صاحب کا تو خوب چرچا ہوا۔

گلگت بلتستان کی عدالتی کاروائیوں میں لائی جانے والی اس تیزرفتاری سے جہاں عدالتوں کی کارکردگی عوام کے سامنے عیاں ہورہی ہے‘ وہی پر عوام کو بھی ان عدالتوں سے سستا اور فوری انصاف کی امید نظر آنے لگی ہے۔ کیونکہ آج کے اس دور میں معاشرتی ناہمواریوں اور حکومتی ناانصافیوں کے خلاف انصاف کے حصول کے لئے عوام جن اداروں کی طرف آس لگائے ہوتے ہیں ان میں میڈیا اور عدلیہ سرفہرست ہیں۔ میڈیا کا کام صرف عوام کے ساتھ ہونے والی ان ناانصافیوں کو اخبارات یا ٹی وی چینلز کے تواسط سے حکام بالا تک پہنچانا ہوتا ہے‘چاہے اس پر کوئی نوٹس لے یا نہ لے۔ جب میڈیا کی خبروں پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے تو لوگوں کو اگلا اقدام کے طورپر عدالتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ‘چاہے وہ ماتحت عدالتیں ہوں یا اعلیٰ۔ عدالتوں میں اگر قومی خدمت کا جذبہ اور غریبوں کی دکھ درد کا احساس رکھنے والے افراد موجود ہوں تو عوام کے مسائل کا حل نکلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی‘لیکن بس کام چلتا رہے والے فارمولے کے قائل لوگ ہوں تو سائلین کے مسائل حل ہونے میں عشرے بھی لگ سکتے ہیں۔

بات یہاں صرف عوام کا ہمدردیا سنگدل ہونے کا نہیں بلکہ ان سہولیات کا بھی ہے جن کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو سستا اور فوری انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں ججوں اور ماتحت عملہ کی کمی دورکرنا بھی شامل ہے‘مگر ہماری عدالتوں میں اس چیز کا فقدان نظر آتا ہے‘جس کا زکر راجہ شاہ سلطان مقپون صاحب کی رپورٹ میں پہلے ہی کیا جاچکا ہے کہ چیف کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں اس وقت سٹاف کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق چلاس ،خپلو اور ہنزہ نگر میں اس وقت دو کی بجائے صرف ایک ایک سول جج اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ گلگت کی ماتحت عدالت میں بھی پانچ کی جگہ تین جج تعینات ہیں۔ اس کے باوجود چیف کورٹ اور ماتحت عدالتوں کی اس قدر شاندار کارکردگی یقیناًقابل تعریف ہے۔ 

ماضی میں عدلتی کاروائیوں سے متعلق بہت کم ہی معلومات مل جاتی تھی کہ فلاں عدالت نے فلاں کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔۔وغیرہ۔۔وغیرہ۔۔خاص طور پر سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد ارشد خان کا تین سالہ دور تو اس قدر خاموشی کے ساتھ گزرا‘جس میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا کہ رانا صاحب نے قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالا دستی کی خاطر کیا کچھ کیا۔ اس عرصے میں نہ تو کسی اہم مسلئے پر کوئی سوموٹو ایکشن لینے کی خبر سننے میں آئی نہ ہی کسیزیرالتوء مقدمے کی سماعت سے متعلق اگاہی حاصل ہوئی۔ اس کی نسبت جسٹس نواز عباسی کا دور خاص متحرک گزرا‘ جس دوران انہوں نے عوامی اہمیت کے حامل متعدد منصوبوں پر کام کی سست روی پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے عوام کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا جبکہ سینکڑوں زیر التواء مقدمات بھی احسن طریقے سے نمٹانے کی اطلاعات ملتی رہیں۔اب جسٹس رانا محمد شمیم صاحب کے سپریم اپیلیٹ کورٹ کے چیف جج کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ کی فعالیت شروع ہوئی ۔امید یہ کی جاسکتی ہے کہ جسٹس رانا محمد شمیم عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمات نمٹانے کے ساتھ ساتھ علاقے میں عوامی اہمیت کے ترقیاتی منصوبوں پر کام میں سست روی اور انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق ایشوز پر بھی ازخود نوٹس لیکر عوام کو انصاف دلانے اور علاقے کی ابتر صورتحال کو بہتری کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کریں گے‘ کیونکہ یہ کام ایک اچھی منصف کی خصوصیت میں شمار ہوتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button