کالمز

چلے ،چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔۔۔۱

دنیا بھر کی باشعور قومیں قومی آزادی کا دن جوش اور ولولے کے ساتھ مناتی ہے،اور کیوں نہ منائیں، یہ وہ دن ہوتا ہے جو تاریخ میں عظیم اور بے مثال قربانیاں دینے کے بعد حاصل کیا جاتا ہے، دنیا بھر کی قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان قوموں کو آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کے نہیں دیا بلکہ ان عظیم قوموں نے ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کے بعد کئی انسانی جانیں قربان کرکے ، عصمتیں لٹا کر، غدارو زندیق کہلاکر،اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے آزادی حاصل کی ہیں، یہ آزادی برائے نام آزادی نہیں ہوتی بلکہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اس ملک میں رہنے والے عوام کی زندگیا ں سدھر جاتی ہیں، امیر اور غریب کا فرق مٹ جاتا ہے ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوجاتا ہے، ملک میں جنگل کا قانون ختم ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو جاتا ہے، غریب کو وہ تمام حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جو اس ملک کے امیر کو حاصل ہیں، امن و آشتی کا راج ہوتا ہے، رنگ ، نسل ، زبان جیسی تعصبات مٹ جاتے ہیں، قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اس آزاد معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین و حضرات تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگاری کے مارے خودکشیاں کرنے پر مجبور نہیں ہوجاتے، اس آزاد معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے والوں کو ان کے حقوق میسر آتے ہیں، اس آزادی کے نتیجے میں میرٹ کی بالادستی یقینی ہوجاتی ہے اور دن دہاڑے نوکریاں نہیں بیچی جاتی، اس آزاد معاشرے میں پرانسانی حقوق کا تحفظ ہوجاتا ہے، اس آزاد معاشرے میں طبقاتی نظام تعلم کے بجائے تعلیم سب کے لیے یکساں ہوجاتا ہے، غریب کے بچے فیسیں ادا نہ کرنے کے باعث مدرسوں اور گورنمنٹ سکولوں میں جبکہ ایلیٹ کلاس کے بچے بیکن ہاؤس جیسے تعلیمی اداروں میں داخل نہیں کرائے جاتے، اس آزاد معاشرے میں لوئر کلاس ، مڈل کلاس اور اپر کلاس میں فرق مٹ جاتا ہے، اگر جس ملک میں آزادی حاصل کرنے کے باوجود انسانی ، سیاسی ، جمہوری، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی حقوق میسر نہ ہو، اس ملک کے انسانوں کو آزادی کی خوشیاں منانے کا حق نہیں پہنچتا بلکہ ان کو چاہئے کہ وہ اس دن برائے نام آزادی کی خوشیاں غلام ملک میں منانے ، شایان شان تقریبات منعقد کرنے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے کے بجائے اس دن غور و فکر کرنی چاہئے کہ آیاں وہ آزاد ہیں کہ نہیں۔
کہا جاتا ہے ماضی میں قراقرم ، ہما لیہ اور ہندوکش کے سنگم میں تین عظیم ریاستیں آباد تھیں، سب سے پہلی ریاست کا نام بروشال بتایا جاتا ہے جو عنقریب ایک سو سال پر محیط رہی، اس دور میں ایک خاتون حکمران بھی ہو گزری ہے جس کا نام دادی جواری تھا، اس کے دور میں ریاست میں بہت زیادہ ترقی ہوئی، اس کے بعد بروشال ریاست زوال پذیر ہوگئی اور اس کے بعد دردستا ن کا دور شروع ہوگیا اور درد لوگوں نے حکومت کی، اور تیسری عظیم ریاست کا نام بلورستان بتایا جاتا ہے، مجموعی طور پر یہ تین عظیم ریاستیں اس خطے کے عوام کی عظمت کی نشانیاں ہیں، یہ اس وقت کی بات تھی جب پاکستان ، بھارت اور چائنہ جیسے نومولود ملکوں کا وجود ہی نہیں تھا، نہ جانے وہ کونسے محرکات تھے جن کی وجہ سے یہ شاندار ریاستوں کو زوال پذیر ہونا پڑا اور خطہ برصغیر کے ڈوگرہ اور سکھوں کی غلامی میں چلا گیا۔ 14اگست 1947کو پاکستان آزاد ہوگیا لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے کسی بھی حکمران نے اس خطے کے مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کے بارے میں نہیں سوچا لیکن یکم نومبر 1947یعنی پاکستان کی آزادی کے تقریبا دو ماہ بعد گلگت بلتستان کے عوام نے کرنل حسن خان، شاہ رئیس خان، بابر خان، صوبیدار صفی اللہ ، شاہ خان اور دیگر کی سربراہی میں بغیرکسی بیرونی امداد کے بے لوث قربانیوں کے نتییجے میں آزادی حاصل کی اور آزاد ریاست جمہوریہ گلگت کا بنیاد رکھا۔ یکم نومبر کی انقلاب کی قیادت کرنے والوں کی عزم و بہادری کی کوئی ثانی نہیں تھا البتہ سیاسی نابالغی اور بے شعوری کے نتیجے میں یہ ریاست صرف 16دنوں پر مشتمل رہی اور اسلامی جنونیت کے باعث پاکستان سے مدد طلب کی گئی جس کے نتیجے میں 16نومبر کو پاکستانی حکمرانوں نے مدد کے نام پر پاکستان کے کسی تحصیل کے ایک نائب تحصیلدار سردار عالم کو پولیٹیکل ایجنٹ بنا کر بھیجا اور یوں ایک آزاد ریاست پر شب خون مار کر اس کو indirectlyپاکستان کے تحصیل کا درجہ دیا گیا اور پہلی ریاست کے صدر اور فوج کے سربراہ پاکستان کی سرکاری نوکری کرنے لگے بقول شاعر
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنی ہوئی ہیں داستانیں
قارئین کرام:
خودمختار یاست کو کھوئے ہوئے آج 68سال ہوگئے ، ہماری قوم عجیب کشمکش میں مبتلا ہے، ہر سال یکم نومبرکو جشن آزادی کے طور پر شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے اور 14 اگست اس سے بھی شایانِ طریقے سے قومی و سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ ہماری قومی آزادی پر 16نومبر 1947کو خون مارا گیا اور ہم سکھوں اور ڈوگروں کی غلامی سے نکل کر برائے نام مسلمانوں کی غلامی کے شکار ہو گئے، یہ خطہ جو سکھوں اور ڈوگروں کے دور میں ایک آئینی صوبے کے طور پر کرہ ارض پر وجود پذیر تھا ، اس کو آزادی اور اسلام کے نام پر تحصیل میں تبدیل کردیا گیا ، ہم ڈوگروں کی غلامی سے نکل کر آزادی کا خواب دیکھنے کے بعد سردار عالم کے غلامی میں چلے گئے، یہ سلسلہ چلتا رہا اور مختلف ادوار میں کبھی پولیٹیکل ایجنٹ کے نام سے، کبھی وزیر امور کشمیر کے نام پر ، کبھی چیف سکرٹری کے نام پر اور کبھی گورنر کے نام پر بیرونی قابضین نے اس خطے کے عوام کو غلامی کے شکنجے میں پھنسا کر رکھ دیا اور ہماری قدرتی وسائل کو علی بابا چالیس چوروں کی طرح بے دردی سے لوٹتے رہے، ہمارے جسموں کے ساتھ ساتھ ہماری شعور کو بھی ایسے قبضہ کردیا کہ ہم یہ سوچنے سے بھی قاصر ہیں کہ آزادی کس بھلا کو کہا جاتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہم اس سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں بھی گردن میں غلامی کا طوق لئے آزادی کا جشن مناتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے اور دنیا کی مہذب قومیں ہماری اس بے حسی کا مذاق اڑاتی ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں۔
گردن میں غلامی کا رسن طوق سجا کر
آزادی کے ہم جشن منانے چلے آئے
کتنی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہم غلامی کے شکنجے میں ایک سال میں دو دفعہ آزادی کا جشن مناتے ہیں،
بقول فیض اللہ فراقؔ
کس کس کو دکھاتے ہیں یہ آزادی کی خوشیاں
اور کس کو سناتے ہیں یہ آزادی کی خوشیاں
ایک بار بھی آزاد نہیں ہو سکے لیکن
دو بار مناتے ہیں یہ آزادی کی خوشیاں

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اس وقت بدترین غلامی کے شکار ہیں، یہ خطہ دنیا کی آخری کالونی کا منظر پیش کررہا ہے کیونکہ یہاں سیاسی حقوق باپید ہیں، گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے نام سے ایک نام نہاد سیاسی ادارے کی وجود نے اس خطے کے عوام کو دھوکے میں ڈال دیا ہے، اس نام نہاد اسمبلی کے پاس عوام کے لیے قانون سازی کرنے کے اختیارات نہیں بلکہ نام نہاد ممبران اور وزراء سوائے کلو ٹ بنانے اور نوکریاں بیچنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے، عوام کے خون چوسنے والے ان نام نہاد ممبران کی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار کا مقصد سوائے اپنے اقتدار کو طول دینے اور عوام کامال لوٹنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس خطے کے اند ر عدالتیں آزاد نہیں اور انصا ف کے ادارے خود ہی انصاف کا بھیک مانگتی ہے۔ اس خطے کے اندر عوامی حقوق کے لیے جہدوجہد کرنے والے سیاسی ورکرز آزاد نہیں، سچ بولنے والوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے جس کے واضح مثال ترقی پسند رہنما کامریڈ بابا جان اور قراقرم نیشنل مومنٹ کے رہنما افتخار حسین ہے جو متاثرین عطاآباد کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کے پاداش میں گاہکوچ جیل میں ایک عرصے سے قید ہے، دوسری مثال غذر سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما طاہر علی طاہر جو عومی حقوق کے لئے جدوجہد کی پاداش میں عرصہ دراز سے گاہکوچ جیل میں قید ہے، اس کے علاہ غلامی کی تیسری سب سے بڑی مثال بالاورستان نیشنل فرنٹ کے مرکزی رہنما صفدر علی (اور BNFکے 5ورکرز) اور بلور تھنکر فورم کے رہنما اور جنگ آزادی کے ہیرو کرنل حسن خان کے فرزند کرنل (ر) نادر حسن خان ہے جو پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے خلاف یادداشت پیش کرنے کے جرم میں گلگت جیل میں پابند سلاسل ہے اور ایسے ہی سیاسی قائدین جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔
اس خطے میں بولنے اور سچ لکھنے کی آزادی حاصل نہیں اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اور اخبارات کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اخبارات بند کرائے جاتے ہیں، اس خطے کے عوام کو وہ حقوق حاصل نہیں جو پنجاب یا سندھ کے کسی گونگے یا بہرے کو میسر ہیں۔ ایسے میں ڈوھول کے تھاپ پہ ناچتے ہوئے آزادی مبارک کا ورد کرنا سوائے ذہنی غلامی کے اور کیا ہے، بقول فیض احمد فیض
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button