کالمز

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت فیصلہ کن موڑ پر

گلگت بلتستان میں تاریخ کے سب سے اہم ایشو پرانتہائی زور شور سے بحث جاری ہے۔ خطے کی آئینی حیثیت کا معاملہ اگرچہ گزشتہ 68سالوں سے زیر بحث ہے،مگر ابتدائی تین دہائیوں میں اس پر توجہ نہیں دی گئی، تاہم 1970ء کے بعد مختلف مواقع پر یہ ایشو انتہائی اہم رہا اورذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں خطے میں سیاسی اصلاحات کیں جس کا نتیجہ آج گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ،گلگت بلتستان کونسل اور2009ء کے اصلاحاتی پیکیج کی شکل میں ہے۔ اگرچہ موجودہ پوزشن تک پہنچنے کے لئے مختلف ادوارمیں مختلف اصلاحات کی گئی اور اس کے نتیجے میںوقت کے ساتھ بہتری آتی رہی ہے ۔
خطے میں2015ء کے انتخابات میں مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں اور تنظیموں نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو اپنے انتخابی منشور کا اہم حصہ بناکرعوام سے رجوع کیا۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی عوام سے یہ وعدہ کیاکہ وہ آئینی مسئلہ کو حل کرے گی ۔وفاق میں مسلم لیگ (ن) حکومت ہونے کی وجہ سے اس کے مئوقف کو اہمیت دینا فطری بات تھی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خطے کے عوام تنازع کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان کی آئینی اور قانونی حیثیت کے عدم تعین کے باعث مایوسی کا شکار ہیں اور مختلف اوقات میں اس ضمن میں احتجاج بھی ہوا ۔ وزیر اعظم نوازشریف نے الیکشن سے قبل خطے کے دورے میںآئینی معاملے کے حوالے سے آئینی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا،تاہم بعد ازاں آزاد کشمیر کی قیادت کے انتہائی غیر سنجیدہ اورسخت مئوقف کے باعث مسلم لیگ (ن) کی قیادت پس و پیش سے کام لیتی رہی، مگر گلگت بلتستان کے عوام کی شدید خواہش اور مطالبے پروفاقی حکومت مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میںآئینی کمیٹی قائم پر مجبور ہوگئی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس 12نومبر کو اسلام آباد میں ہوا۔ یہ اجلاس بنیادی طور پر تعارفی تھا تاہم اجلاس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ خطے کے مستقبل کے تعین کے حوالے سے کسی بھی فیصلے سے قبل اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز پر غور کیا جائے گا ۔اس ضمن میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے 20 نومبرکو(کل) گلگت میں آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے جس میں مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی نمائندوں کو مدعو کیاگیاہے ۔
لیگی دعووں کے مطابق کانفرنس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلایا گیاہے جس میں خطے کے مستقبل کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے اس پر ردعمل بھی سامنے آرہاہے ،پیپلزپارٹی کے صوبائی رہنماء امجد حسین ایڈوکیٹ نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیاہے کہ ان کی جماعت وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی صدارت میں ہونے والی کسی کانفرنس میں شریک نہیں ہوگی کیونکہ وزیراعلیٰ متنازعہ شخصیت ہیں۔ امجد حسین ایڈوکیٹ کا یہ جواز انتہائی کمزور اور گلگت شہر کی مقامی سیاسی و انتخابی مخاصمت کا عکاس ہے ۔جب قوموں کے مستقبل یا ان کے مفادات بات آتی ہے تو پھر جذبات اور وقتی فیصلوں کی بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے کی آرا اور تجاویزپر سنجیدگی سے غور کریں اور مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایا افراد سے مشاورت کے بعدتاریخی حقائق کی روشنی میں تجاویز مرتب کریں ،کیونکہ بد قسمتی سے ماضی میں آئینی حیثیت کے تعین کیلئے جذبات اور مخصوص مفادات کو مدنظر رکھکر مئوقف اختیار کئے گئے ہیں ۔جو لوگ خطے کے مستقبل کو پاکستان کے مستقبل صوبے یا آزاد کشمیر سے جوڑنے کے موقف پر قائم ہیں ان کی بات پر دلائل ،تاریخی و زمینی حقائق اور عالمی حالات کے مطابق غور کرنے کی ضرورت ہے۔کچھ حلقوں کی جانب سے خود مختاری کی بات کی جارہی ہے اس پر غور کیا جاسکتاہے تاہم اس وقت ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی ایسا حل پیش کریں جو خطے میں مزید تصادم ، انتشار اور محرومی کا باعث بنے۔
تاریخی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھاجائے تو گلگت بلتستان کے مستقبل کا تعین کے لئے تنازع کشمیر کے حل تک عارضی اور جزوقتی فارمولوں پر غور کیاجاسکتاہے ،جس میںموجودہ حکمی (انتظامی) اصلاحاتی پیکیج میں بہتری لاکر اس کوعارضی طور پر آئینی تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم دنیا سے کٹ سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیر سے اپنے تاریخی اور آئینی تعلق کو ختم کرسکتے ہیںاور خطے کو پاکستان کا کلی طور پر آئینی صوبہ بنانا بھی ممکن نہیں ہے ،ایسے حالات میں جذبات کی بجائے ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ تاریخ میں پہلی بار گلگت بلتستان میںصوبائی حکومت نے اس سنجیدہ معاملے پر مختلف سیاسی مذہبی اور سماجی قوتوں کو ایک جگہ جمع کرکے متفقہ مئوقف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اس میں اس بات کو ضرور مدنظر رکھا جائے کہ تمام مذہبی ، علاقائی ، جغرافیائی ، قبائلی ، لسانی اور دیگر اکائیوں کو بھر پور نمائندگی ہو۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں کے حتمی فیصلے آل پارٹیز کانفرنسوں میں نہیں ہوتے ہیں لیکن مسائل کے حل میں اس طرح کی کانفرنسیں معاون ومدد گارضرور ثابت ہوتی ہیں۔
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا معاملہ انتہائی اہم اور حساس ہے اگر کہیں پر بھی زرا سی کوتاہی ہوئی تو اس کے نتائج ایک خوف انتشار کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے حالیہ دنوںبعض منتخب نمائندوں نے انتہائی غیر سنجیدہ بیانات کے ذریعے معاملے خراب کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ کوشش کی ہے ،غالباً ان غیر سنجیدہ بیانات کے بنیادی مقاصد اپنی سیاسی ہمدردی کو بحال رکھنا اور مخصوص سوچ کی ترجمانی کرنا ہے۔ لیکن سنجیدہ فورمز میں اس کی طرح کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا مشکلات کا سبب بنتاہے۔ گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے بعض شخصیات اور اداروں نے کافی حد تک ہوم ورک کیاہے ،بالخصوص آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی اور گلگت بلتستان کی معروف شخصیت افضل علی شگری نے کافی حدتک ڈرافت تیار کیاہے اسی طرح معروف قوم پرست رہنماء اور رکن اسمبلی نواز خان ناجی ، معروف سماجی وسیاسی رہنما عنایت اللہ شمالی اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا عطاء اللہ شہاب سمیت مختلف شخصیات نے نہ صرف اس پر کام کیا ہے بلکہ حالات پر ان کی گہری نظر ہے اس لیے ان کو بھی اعتمادمیں لینے کی ضرورت ہے ۔
خطے کے مستقبل کے تعین کیلئے فوری اور کوئی جذباتی فیصلہ کرنے کے بجائے انتہائی سوچ بچار سے کام لیناہوگا اور آل پارٹیز کانفرنس میں شامل سیاسی ومذہبی قیادت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی تجاویز جذباتی تقاریر کی بجائے تحریری ڈرافٹ کی شکل میں پیش کریں ، جس کو باقاعدہ ایک تحریری مسودے کی شکل دے کر مختلف اسٹیک ہولڈرز کو فراہم کی جائیںجو اس پر غور کریں اور باریک بینی سے جائزہ لیں۔ جہاں تک آل پارٹیز کانفرنسوںکی تاریخ کا تعلق ہے ،یہ تلخ حقیقت ہے کہ شرکاء شعلہ بیانی پر تو توجہ دیتے ہیں لیکن تحریری مسودات پیش کرنے سے گریز اں رہتے ہیں ،اس لئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور کانفرنس کے میزبانوں کو چاہیے کہ وہ تمام شرکاء کو اس بات کاپابند بنائیں کہ اپنی تجاویز تحریری طور پر پیش کریں، اس کے لئے کانفرنس کے بعد مناسب وقت بھی دیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے مستقبل کے تعین کا معاملہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا نہیں بلکہ یہ ایک قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے اس میں ہمیں خطے کی تاریخی اور قانونی پوزیشن ،مسئلہ کشمیرکے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں ،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے مفادات کو مدنظررکھ کر ایسا حل تلاش کرناہوگا جو تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے قابل قبول ہو۔
جہاں تک تجاویز کا تعلق ہے اس میں تمام فریقین کو مخصوص جذبات کی ترجمانی کرنے کی بجائے حقیقی پوزیشن کو مدنظر رکھنا ہوگا تاریخی حقائق کے مطابق تمام فریق کو ایسا حل تجویز کرنا ہوگا جو مستقبل میں کسی انتشار اور محرومی کا باعث نہ بنے۔ ماضی میں خطے کے نام کے حوالے سے بھی انتہائی شدید اختلافات تھے لیکن 2005میں قائم ہونے والی اسمبلی نے انتہائی سنجیدہ کوشش کرکے اس معاملے کو مستقبل بنیادوں پر حل کردیا، اچھی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے میں بھی موجودہ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن(غالباًکمیٹی کے سربراہ تھے ) کا کردار اہم رہاجو اس وقت نادرن ایریاز قانون ساز اسمبلی میں اہم رکن کے طور پر موجود تھے۔
موجودہ اسمبلی کی حالیہ کچھ قرادادیں انتہائی جذباتی اور وقتی معلوم ہوتی ہیں اس لیے عوامی نمائندوں کو چاہے کہ وہ ایوان کے اندر اور باہر ایسے بیانات سے گریز کریں جو خطے میں تفریق میں اضافے کا باعث بنیں ۔تما م فریق کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ ہم سب نے یہی ایک ساتھ رہنا ہے اس لیے کسی خاص مکتبہ فکر ، علاقے اور سوچ کی ترجمانی کرنے کی بجائے خطے کے عوام کی تاریخی اور حقیقی تناظر میں ترجمانی کرنے کی جائے،کیونکہ یہ فیصلہ کن موڑ ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button