تعلیم
اقراء ایوارڈ -13 سالوں کے دوران چترال میں 26لاکھ روپے کے سکالر شپ
چترال (بشیر حسین آزاد) اقرا ء ایوارڈ گزشتہ 13سالوں سے دیا جا رہا ہے۔ یہ خیبر پختونخواہ کے ایک ضلع میں دیا جا تا ہے۔ 13سالوں میں نہ کسی دوسرے ضلع میں یہ پروگرام شروع ہوا۔ نہ اس ضلع میں کسی نے آگے بڑھ کر اس سے بڑا سکالر شپ یا انعام دیا۔ چونکہ اقراء ایوارڈ میٹرک کے طلبہ اور طالبات کے لئے ہے۔ اس وجہ سے ایف اے ؍ ایف ایس سی کے طلبہ و طالبات اس طرح کی کسی حوصلہ افزائی سے محروم ہیں۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم آنے کے بعد ضلعی حکومتوں کو اختیارات ملے ہوتے ہیں۔ کم از کم اخباری بیانات اور تقریروں سے اس طرح کا تاثر ملتا ہے۔ اگر اگلے دو سالوں میں ضلعی حکومتوں کو کسی نہ کسی حوالے سے اختیارات مل گئے تو ضلعی حکومتیں طلبہ و طالبات کی اس طرح حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں۔ اور یہ بات چترال کے ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے اقراء ایوارڈ کی تیرھویں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔
تقریب کی صدارت ڈسٹرکٹ آفیسر، ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن احسان الحق نے کی۔ دیگر مقررین میں شاہی مسجد چترال کے خطیب مولانا خلیق الزمان، تحصیل ناظم چترال مولانا محمد الیاس، تحصیل ناظم مستوج مولانا محمد یوسف اور ہائی سکول کوشٹ کے ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے نئی نسل کی حوصلہ افزائی کے لئے ضلعی حکومتوں اور مخیراصحاب کو آگے بڑھ کر کام کرنے کی دعوت دی۔ اور قاری فیض اللہ چترالی کی طرف سے اقراء ایوارڈ کے سلسلے کو مسلسل تیرہ سال جاری رکھنے کو بے حد سراہا۔ انہوں نے امتحانی نظام کو بہتر بنانے اور چترال کے سکولوں اور کالجوں کو پشاور بورڈ سے الگ کرکے چترال کا علیحدہ امتحانی بورڈ بنانے کی تجویز پیش کی۔ تاکہ 20طلبہ و طالبات کو میٹرک میں اور 20طلباء و طالبات کو ایف ؍ ایف ایس سی میں ٹاپ ٹونٹی کے سکالر شپ مل سکیں۔ یہ سکالرشپ قیام پاکستان سے اب تک چترال کے طلبہ وطالبات کو نہیں ملے۔ چترال کے ضلع بننے سے پہلے طلبہ و طالبات کو میرٹ سکالر شپ بھی ملتے تھے۔ ڈسٹی چیوٹ سکالر شپ بھی ملتے تھے۔ یہ سکالر شپ 1969تک وفاقی حکومت دیتی تھی۔ ضلع بننے کے بعد دونوں سکالر شپ بند کر دئے گئے۔ ضلع بننے سے پہلے ہر سال منتخب طلبہ کو پورے ملک کا مطالعاتی دورہ کروایا جاتا تھا۔ وفاقی حکومت اس کا انتظام کرتی تھی۔ ضلع بننے کے بعد یہ سلسلہ بھی جاری نہ رہ سکا۔ اس کمی کو 2003میں چترل کے ممتاز عالم دین اور مخیر شخصیت قاری فیض اللہ چترالی نے اقراء نشان اور اقراء ایوارڈ کے نام سے طلبہ اور طالبات کی حوصلہ افزائی کا سلسہ شروع کر کے بطریق احسن پورا کیا۔ قاری فیض اللہ چترالی کے دست راست مولانا خلیق الزمان خطیب شاہی مسجد نے اس موقع پر اپنی تقریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ علمائے دیوبند کے پیرو کار قاری فیض اللہ چترالی نے 13سال پہلے عصری علوم، جدید تعلیم اور سکولوں کی سرپرستی نیز سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اقراء ایوارڈ کے نام سے 40ہزار روپے، 30ہزار روپے ، 20ہزار روپے اور 10ہزار روپے کے دو دو نقد انعامات کا سلسلہ جاری کر کے ثابت کیا ہے کہ علمائے حق جدید تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ اس کے حامی اور سرپرست ہیں۔ یہ اقدام دین اسلام اور علمائے دین کے خلاف ہونے والے پروپگینڈے کا جواب ہے اور ایسا جواب ہے جسکی مثال ملنا مشکل ہے۔ تقریب میں سرکاری سکولوں کی درجہ بندی میں میٹرک سالانہ امتحان 2015میں اول انعام گورنمنٹ ہائی سکول کوشٹ کے طالب علم ضیاء الرحمن اور دوسرا انعام اسی سکول کے طالب علم محمد ایوب کو ملا۔ دونوں نے بالترتیب 930اور 926نمبر حاصل کئے ۔ تیسرا انعام20ہزار روپے گورنمنٹ ہائی سکول استارُو کی طالبہ روبینہ مریم کو دیا گیا۔ پرائیویٹ زمرے میں دی لینگ لینڈ سکول کی دو طالبات عابدہ شیریں اور عریج اعجاز نے 981نمبر لیکر برابر پوزیشن حاصل کی۔ پہلا انعام دونوں میں برابر تقسیم کیا گیا۔ دوسرا انعام 30ہزار روپے حرا سکول ایون کی طالبہ سلطانیہ بی بی کو دیا گیا۔ جبکہ تیسرا انعام 20ہزار روپے فرنٹیئر کور پبلک سکول کے طالب علم ذیشان الیاس کو ملا۔ حوصلہ افزائی کا خصوصی انعام لینگ لینڈ سکول کے کالاش طالب علم شکیل خان اور سینٹینل ماڈل ہائی سکول چترال کے طالب علم ساجد احمد کو دیا گیا۔ نیز شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل سے ایم اے عربی میں اول پوزیشن لینے والے طالب علم مفتی شریف اللہ کو قاری فیض اللہ چترالی کی طرف سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ کہتے ہیں "دئے سے دیا جلتا ہے ” اگر یہ بات درست ہے تو دوسروں کو بھی قاری فیض اللہ چترال کی تقلید کرنی چاہیئے۔ جنہوں نے 13سالوں میں26لاکھ روپے تقسیم کئے۔