کالمز

داس کھریم استور میں گندم کا بحران

وادی داس کھریم ضلع استو ر کا ایک خوبصورت ترین علاقہ ہے جو قدرتی حسین سے مالا مال ہے ، یہ علاقہ بارا گاؤں پر مشتمل ہے ۔جس میں کھریم ، کھریم داری ، ککن پائین ، ککن بالا، داس پائین ،داس بالا ، پلنیاٹ،چک ، درلہ، لمبا چشمہ، شیر قولی اور چیلم داس سر فہرست ہیں۔انتہائی ٹھنڈا علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کھیتی باڑی مئی کے مہینے میں شروع کی جاتی ہے اور نومبر تک تمام کام کاج مکمل کئے جاتے ہیں کیوں نکہ نومبر مہینے کے بعد یہاں کسی بھی وقت برف باری ہوسکتی ہے ۔دسمبر اور جنوری کے مہینے میں سخت برف باری کی وجہ سے یہاں کی روڑ کئی دنوں تک بن بھی رہتی ہے لیکن دفاعی روڑ ہونے کی وجہ سے پاک آرمی کے جوان اسے کھلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر بعض گاؤں ایسے بھی ہیں جہاں کاراستہ تین سے چار مہینے بھی بن رہنے کی وجہ سے وہاں کے لوگ گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے دوسرے اضلاع کی طرح یہاں کے باشندے بھی جس دن سے گندم سبسڈی شروع ہوئی اُس دن کے بعد سے لیکر آج تک اس زرعی خطے کے لوگوں نے زراعت کو خبر باد کہہ کر وفاق سے ملنے والے گندم پرمنحصر کر ناشروع کیا کیونکہ اقوام متحدہ کی قوانین کے مطابق متازعہ حیثیت کی وجہ سے ان علاقوں کے باشندوں کیلئے اشیاء خوردنوش مارکیٹ سے کم نرخ پر فراہمی انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے13اگست 1948کی قراردادکے مطابق جموں کشمیر اورگلگت بلتستان کوخوراک کی ترسیل کے سلسلے میں سبسڈی دینے کی منظوری ہوئی جس کے تحت سرحد کے آر پار دشوارگذارعلاقوں میں ترسیل پر آنے والے اخراجات انتظامیہ برداشت کرے گی اس کی ابتداء 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کیا ۔ لیکن بدقسمتی وفاق نے مرحلہ واراس رعایت پرسے اپنا ہاتھ کھینچنا شروع کیا یوں 100کلوکی گندم کی بوری 850سے بڑھ کر1650روپے تک پہنچ گئی۔ اسی طرح آٹے کاچالیس کلوکا تھیلاجب 430سے بڑھ کر750تک پہنچا تو اس سبسڈی کے خاتمے کا اثر براہ راست عام آدمی تک بھی دکھائی دیا۔ یہی وجہ تھی سابق حکومت کے دور میں گندم کی بڑھتی قیمتوں نے اپنا رنگ دکھایا اور احتجاجی مظاہرے ،ریلیاں اوردھرنے شروع ہوئے ، جس کے نتیجے میں عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیااس کمیٹی میں تاجر،شہری،طلباء سول سوسائٹی کے لوگ شریک ہوئے عوامی سطح پر احتجاج زورپکڑتاگیا جس کے بعد اُس وقت وفاق اورمقامی حکومت نے باہمی مشورے سے 2013کے اختتام پر اس سبسڈی کا کچھ حصہ پھر بحال کرکے100 کلو کی گندم کی بوری کی قیمت 1650سے نیچے لاکر1100پر فکسڈ کردی گئی۔بدقسمتی سے اُس وقت کسی کے ذہین میں نہیں آیا کہ گندم کی منصافانہ تقسیم کے حوالے سے بھی کوئی قواعد اور ضوابط طے کرنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ مہدی شاہ دور میں جس نے جہاں موقع ملا گندم کرپشن کے ذریعے مال بنایا، محکمہ سول سپلائی کے ذمہ دران کی کرپشن کا ذکر کریں تو یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں وزیر خوارک سے لیکر ایک سپلائی عہدہ دار تک گندم کی کرپشن میں ملوث رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں گندم کی سپلائی نہ ہونے کے سبب عوام کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔

آج کے کالم میں ہم ان علاقوں میں گندم کے قلت کا ذکر کریں گے جو ایک بار پھر سیاسی طور پر اگلے پانچ سال کیلئے لاورث ہوچکے ہیں۔ضلع استور کا حلقہ 1کا یہ علاقہ سیاسی حوالے سے تو خاص اہمیت کا حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے اس علاقے میں صورت حال یہ ہے کہ الیکشن کے وقت تو کچھ عمائدین اور سیاسی نام نہاد لیڈران اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے خاندانی ، مذہبی اور علاقائی تعصبات کو بنیاد بنا کر غریب عوام سے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔پھر پانچ سالوں کے لیے نظروں سے بوجل ہوجاتے ہے ۔افسوس اس وقت ہمارے ہاں کسی کو پراہ ہی نہیں کہ محلے کے سکول میں بچوں کو بچھانے کیلئے ٹاٹ موجود ہے کہ نہیں،خبر ہی نہیں کہ محلے کا ڈسپنسر اپنے فرائض انجام رہا کہ نہیں،یہ بھی نہیں پتا کہ معاشرہ اور نئی نسل کس راہ پرچل نکلے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے اس علاقے میں مفاد پرستی معاشرے کا اہم جزو بن چُکی ہے۔اس طرح وادی داس کھریم میں گندم کی عدم فراہمی کا مسئلہ عرصے دراز سے تھا لیکن اس سال یہ مسئلہ سنگین صورت حال اختیار کیا ہوا ہے ۔کیوں نکہ ٹھکیدار اور انتظامہ کی ملی بھگت اور نااہلی کی وجہ سے بروقت گندم سٹاک نہیں کرنے کی وجہ سے عوام کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ برفباری تک وہاں گندم نہیں لایا گیا ۔

آخرمیں جب بحران شروع ہوااوریہاں کے لوگوں کا ایک وفد نے ڈپٹی کمشنر استور سے ملاقات کی اور اپنے مسائل سے آگاہ کیا تو ٹھکیدارصاحب نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے چندآٹے کے تھیلے چیلم اور داس میں تقسیم کیا ہیں وہ بھی انتہائی مہنگے داموں میں۔ عوام کا کہنا ہے کہ 40کلو آٹے کا تھیلہ داس پائین میں 630 جبکہ 4kmدور چیلم میں 680 کا دیا گیا ہے جبکہ استور عیدگاہ مرکزی ڈپو میں 40کلوآٹے کا تھیلہ 620 کا دیا جاتا ہے ۔ خیر یہ کوئی نئی بات نہیں یہ استور کے بہت سے ڈپوں میں منشی کی ملی بھگت سے ہر بوری کے اوپر 30-20 روپے کھایا جاتا ہے ۔ماضی میں اس ڈپو کے نام پر خوب کرپشن ہوئی اور گندم بلیک مارکیٹ میں فروخت کرکے سرکاری خزانے میں پیسے جمع نہیں کرائے گئے ۔لیکن اس کا ذمہ دار عوام تو نہیں عوام بروقت ادائیگی کرکے ہی گندم خریدتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔اسی طرح ٹھکیدار اور انتظامہ نے جو اپنی نااہلی چھپانے کے لیے چند آٹے کے تھیلے تقسیم کئے ہیں وہ صرف ایک مہینے کا راشن ہے اسکے بعد بحران پھر شروع ہونے ولا ہے ۔ پھر کیا ہوگا ؟ میں اوپر بھی عرض کر چکا ہو کہ بہت سے ایسے گاؤں ہے جو مین روڑ ائریا سے کافی دور ہے جہاں برفباری کے بعدراستہ بن ہوجاتا ہے۔حکومت وقت کو سوچنا چائے وہاں کی غریب لوگ ان مسائل میں اپنا گزاربسر کیسے کرینگے ۔اب ہم عوامی منتخب نمائندے کی بات کریں تو جناب کو اس علاقے کی کوئی پرواہ نہیں وہ آج کل گلگت میں وزیر اعلیٰ حفیظ صاحب کے ساتھ فوٹوسیشن میں مصروف ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔لہذا وزیر اعلیٰ اور وزیر خوراک کو چاہئے کہ گندم کرپشن میں ملوث مافیا گروپوں کے خلاف ایکشن لیں اور عوام کو بروقت گندم کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button