تہذیب حسین برچہ
روڑ کے دونوں جانب ایستادہ نیم کے درخت صبحِ کاذب کی روشنی میں ایک خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ہوٹلوں میں مسافروں کے لیے ناشتے کے انتظامات کیے جا رہے تھے لیکن شاہراہ پر ٹریفک کی روانی نہ ہونے برابر تھی۔ عاجزؔ سے رابطہ کرکے راولپنڈی پہنچنے کا مژدہ سنا دیالیکن احباب کی سواری کی حسن ابدال پہنچنے کی خبر اور رات کسی ہوٹل میں بسیرا کر لینے کے مشورے پر راقم کی طبیعت میں گھبراہٹ ہویدا تھی ۔ساتھ والی نشست پر بیٹھا سہیل عاجزؔ سے ہونے والی گفتگوسن رہا تھا انہوں نے ہوٹل میں رات بسر کرنے کی بجائے ہاسٹل ساتھ جانے اور تھکاوٹ کافورکرکے دوستوں کے ساتھ قافلے میں شامل ہونے پر اصرار کیا۔راقم نے تھوڑی سوچ وبچار کے بعد حامی بھر لی۔ہماری گاڑی صبح ۳۰:۴ بجے کے قریب پیر ودھائی بس سٹینڈ پہنچی ۔گاڑی سے اتر کر سامان کی گٹھڑی کو سنبھالا اور راولپنڈی میڈکل کالج ہاسٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ہاسٹل کے مرکزی دروازے پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات دیکھ کر سہیل نے بھی تعجب کا اظہا ر کیا استفسار کرنے پر جانکاری ہوئی کہ APS پشاور کے دلخراش واقعے کے سبب ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔سہیل احمد نے ہاسٹل کے مرکزی دروازے پر راقم کی شناخت طلب کرنے پر کالج کے نئے سٹوڈنٹ ہونے کا برملا اظہار کرنے کی تجویز دی۔راقم نے اپنے دل کو تسلّی دی اور اپنے آپ سے کہا کہ پیشہ ورانہ زندگی میں تو ڈاکٹر بننے سے قاصر ر ہے لیکن آج ایک دن کے سہی ڈاکٹر بننے میں کوئی قباحت نہیں۔چوکیدار کے اصرار پر سہیل نے اپنا سٹوڈنٹ کارڈدکھایا اور راقم کی جانب اشارہ کرنے پر بطور نیو سٹوڈنٹ شناخت ظاہر کر دی۔چوکیدار نے مزید کسی پوچھ گچھ کے گیٹ کھول دیا۔سہیل احمد اور راقم خوشی بہ خوشی RMC میں داخل ہوئے اور وسیع میدان پر محیط صحن عبور کرکے ہاسٹل پہنچے۔ طویل سفر کے بعد نہایت تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے لٰہذا جلد آرام کرنا ہی مقصود تھا۔
صبح ۳۰:۸بجے کے قریب آنکھ کھلی۔راقم نے کمرے باہر نکل کر راولپنڈی میڈکل کالج کے فراخ صحن پر نظر دوڑائی۔دور تک پھیلے وسیع میدان میں مستقبل کے مسیحاؤں کے جھر مٹ نظر آرہے تھے۔سب سے پہلے بالترتیب حسنؔ ،عاجزؔ ،نصیرؔ اور دکھی ؔ صاحب کے نمبرات ڈائل کیے لیکن بدقسمتی سے سب بند جارہے تھے۔لٰہذا مزید آرام کرنے کو فوقیت دی ۔۳۰:۱۱ بجے کے قریب دکھیؔ صاحب کے کال کی شور پر دوبارہ بیدار ہوا۔دکھیؔ صاحب کی آواز میں گھبراہٹ ہویدا تھی اور جائے آرام دریافت کر رہے تھے جبکہ ساتھ جلد یوتھ ہاسٹل اسلام آباد پہنچنے کا حکم بھی صادر کر رہے تھے۔ جمشید خان دکھیؔ گلگت بلتسان کے نہایت خوش فکر غزل گو ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حاذ گلگت کے نوجوانوں کے واسطے ایک مشفق ناصح بھی ہیں۔راقم نے جلد از جلد تیاری مکمل کی اور اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا ۔اسلام آباد پہنچ کر عاجزؔ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ نوجوان شعراء آبپارہ مارکیٹ میں کچھ ضروری سامان کی خریداری کے لئے نکلے ہیں ۔راقم نے مین آبپارہ چوک میں ٹیکسی کو خیر باد کہا اور احباب کی تلاش شروع کر دی تھوڑی سی کوشش کے بعد دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوگئی۔خریداری سے فراغت کے بعداپنے قیام گاہ یعنی یوتھ ہاسٹل کی جانب روانہ ہوئے تمام احباب اپنے کمروں سے باہر دھوپ تاپ رہے تھے۔سینئر شعراء نے دیر کرنے کی عادت پر تھوڑی سی سرزنش کی لیکن کچھ بہانوں کے بعد قائل ہوگئے۔عزیز دوست اشتیاق احمد یاد کے ساتھ کمرہ میسر آیا۔اشتیاق احمد یا دؔ خوش شکل اور خوش لباس شخصیت کے ملک ہیں اور نوجوانی کی دہلیز عبور کرنے کے باوجود نوجوان کہلانا پسند کرتے ہیں۔
شام کے ۰۰:۴ بجے تھے۔سورج غروب ہونے کو تھا جبکہ فضا میں ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں اور ہلکی دھوپ کا امتزاج تھا۔شوخِ آوارگی کے متلاشی دوستوں نے بازار کی یاترا کا پروگرام بنایا۔اسلام آباد شہر کے گلی کوچوں میں چہل پہل تھی اور مصروف شاہراہوں پر گاڑیوں کا رش بہت زیادہ تھا۔بلیو ایریا میں دوستوں نے چائے نوشی کا پروگرام مرتب کیا۔جہاں سے فراغت کے بعدرات گئے تک Gاور Fسکیٹرز کی گلیوں کی خاک چھاں چکے تھے۔آخر کار میلوڈی فورڑ پارک کا رخ کیا ۔میلوڑی فوڈ پارک اسلام آباد شہر میں لذیذ کھانوں کاایک مرکز ہے جہاں رات گئے تک کھانوں کے شوقین افراد کا رش لگا رہتا ہے اور ایک سحر انگیز ماحول طاری رہتا ہے۔کھانے کے بعد دوستوں نے چند گز کا فاصلہ پیدل طے کرنے کا ارادہ کیا اور لال مسجد سے متصل روڑ سے ہوتے ہوئے یوتھ ہاسٹل پہنچے اسی دوران عبدالحفیظ شاکرؔ ،غلام عباس نسیم اور نظیم دیا ؔ کے مابین مزاح سے بھرپور مکالموں کا تبادلہ ہوا جس کے سبب نوجوان شعراء ایک طویل عرصے بعد کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور ہوئے ۔یاد رہے کہ تینوں احباب گلگت بلتستان میں سٹیج کے نامورفنکار اور صداکار رہے ہیں اور انہوں نے ریڈیو پاکستان سمیت سٹیج ولوکل ڈراموں میں فنکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔رات گئے یوتھ ہاسٹل میں دکھیؔ اور سلیمی صاحب کے کمرے میں محفل جمی جہاں یادِ رفتہ کی یادیں توکبھی یادگار مشاعروں کے تذکرے ۔ بلاشبہ ایک یادگار نشست تھی۔
صبح ۳۰:۹ بجے کے قریب آنکھ کھلی ۔راقم نے کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو دیاؔ صاحب طارقؔ اور عاصیؔ صاحب کے کمرے کے دروازے پر براجماں تھے اور ناشتے کے لئے جانے کے لئے مسلسل دستک دے رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد تمام احباب تیار تھے اور آبپارہ مارکیٹ کی جانب روانہ ہوئے۔یوتھ ہاسٹل کے استقبالیہ پر راجہ ریاض سے ملاقات ہوئی جو پاکستان یوتھ ہاسٹل ایسوسی ایشن کے جنر ل منیجر ہیں۔راجہ صاحب نہایت فراخ دلی سے ملے اور گلگت بلتستان کے خطے کو یاد کرتے ہوئے اشکبار ہوئے چونکہ موصوف کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور ایک عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں لیکن ان کے دل کی دھڑکن آج بھی گلگت بلتستان والوں کے ساتھ دھڑکتی ہے۔
آبپارہ مارکیٹ میں لوگوں کی کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی اور رنگ برنگی گاڑیاں بازار کی رونق میں مزید اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ شور کا بھی موجب بن رہی تھیں۔ناشتے کے دوران آبپارہ چوک سے متصل ہوٹل سے بازار کا نظارہ نہایت دلفریب تھا۔ناشتے کے بعد بازار میں آوارہ گردی کے دوران گلگت بلتستان کے سینئر صحافی محبوب خیام سے ہوئی جو ان دنوں روزنامہ جناح سے منسلک تھے۔شعر اء نے چونکہ بری امام سرکارکے مزار پر حاضری کا پراگرام بنایا تھا۔ لٰہذا بری امام کی جانب روانہ ہوئے۔بری امام سرکار کا مزار آج بھی جاہ وجلال سے جلوہ افروزہے ۔بری امام سرکار کا روضہ مغل بادشاہ اورنگزیب نے خالص چاندی کے استعمال سے تعمیر کرایا تھاجو حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی کے عقیدت مندوں میں سے ایک تھے۔بری امام سرکار۱۰۲۶ء ہجری کو چکوال میں پیدا ہوئے جہاں سے ان کے والد محترم سید محمود شاہ کے خاندان نے چکوال سے باغان گاؤں موجودہ آبپارہ اسلام آباد ہجرت کی تھی ۔اس دور میں آبپارہ بے برگ وبار زمین کا ٹکڑا تھا۔جہاں انہوں نے گلہ بانی کا پیشہ اپنایااور بری امام سرکار ریوڑ چرانے میں والد کاہاتھ بٹاتے تھے لیکن ۱۲ سال کی عمر میں گھر کو خیر باد کہا اور نور پور شاہان کا رخ کیا۔نور پور شاہان کو شروع شروع میں چور پور شاہان کے نام سے یاد کیا جاتا تھاچونکہ یہ علاقہ چور،ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد کا مسکن ہوا کرتا تھا ۔لیکن بری امام سرکار کی تبلیغ کے سبب مشر ف بہ اسلام ہوئے اور سراط المستقیم کا راستہ اپنایا۔بری امام سرکار کی مزار پر حاضری کے بعد شعراء نے ہاسٹل کا رخ کیا۔بلاشبہ بری امام سرکار کی مزار پر حاضری کے بعد ایک دلی سکون کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔
شام کا سمے تھا ۔فضا میں ایک مخملی سی تازگی تھی ۔تمام شعراء یوتھ ہاسٹل میں اپنے اپنے کمروں میں موجود تھے ۔تھوڑی دیر بعد دیامر کے نامور سماجی کارکن اور دیامر رائٹرز فورم کے صدر عنایت اللہ شمالی کی تشریف آوری ہوئی۔دکھیؔ اورسلیمی صاحب کے کمرے میں محفل جمی جبکہ تمام شعراء شمالیؔ صاحب کو مبارکباد بھی دے رہے تھے چونکہ موصوف اُن دنوں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی عبوری کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات بنے تھے ۔شمالیؔ صاحب کے ساتھ طویل گفتگو ہوئی اوررات ۰۰:۸ بجے رخصت ہوئے۔ اصولوں اورقاعدوں کے بت شعراء و ادباء کی راہوں میں حائل کیے جائیں یہ تو زیادتی کے مترادف ہے لیکن یوتھ ہاسٹل اسلام آباد میں یہی کچھ احباب کے ساتھ بھی ہوا۔کیونکہ رات گئے میلوڈی فورڈ پارک سے جب واپسی ہوئی تو ہاسٹل کے مرکزی دروازے کو بند پاکر سب ششدر رہ گئے۔یوتھ ہا سٹل ایسو سی ایشن کا نیٹ ورک چونکہ ملکی سطح پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں کا رخ کرنے والے افرادمیں اکثر سٹوڈنٹس ہوتے ہیں اور ہاسٹل کا مرکزی دروازہ رات ۰۰:۱۲ بجے بند کیا جاتا ہے لیکن شعراء آوارہ گردی کی عادت کی وجہ سے یہا ں رات گئے واپس آتے جس کی وجہ سے کئی بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
صبحِ کاذب کی روشنی کمرے کے جھروکوں سے اندر جھانک رہی تھی۔لیکن رات کی بے خوابی کے سبب آنکھوں میں نیند کا غلبہ تھا ۔کمرے سے باہر نکلا تو مطلع صاف تھا اور ہلکی ہوا کے جھونکے گالوں کو چھو کر گزرتے تھے۔ چونکہ آج اسلام آباد شہر اور اس کے گردِ نواح کی یاترا کا پروگرام بنایا گیا تھا لٰہذاتھو ڑی دیر بعد مارگلہ ہلز کی جانب روانہ ہوئے۔گاڑی مسافت طے کر رہی تھی جبکہ رفقاء کی گفتگو گاڑی کے اندر بجتے میوزک کی لَے میں خلل کا باعث بن رہی تھی۔مارگلہ ہلز کے جنگلات اپنے اندر ایک طلسمی کشش رکھتے ہیں جبکہ بلند وبالا درخت قدرتی حسن کو مزید چار چاند لگاتے ہیں۔گاڑی راستے کے خطرناک موڑ کو عبور کرتے ہوئے بلندی کی جانب گامزن تھی۔تقریباََ آدھے گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد پیر سوہاوہ پہنچے۔پیر سوہاوہ اسلام آباد شہر سے ۱۷ کلو میٹر کی دوری پر مارگلہ کی پہاڑیوں کی بلندی پر واقع ایک سیاحتی مقام ہے۔یہاں کئی نامور ہوٹلز بھی موجود ہیں جو ہمہ وقت سیاحوں کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔شعراء بھی تقریباََ آدھا گھنٹہ رُکے اور چائے نوشی اور سگریٹ نوشی کے بعد دامنِ کوہ کی جانب روانہ ہوئے۔دامنِ کوہ سطح سمندر سے۲۴۰۰ فٹ اور اسلام آباد شہر سے ۵۰۰ فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔۲۰۰۷ء میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس مقام کو پارک کی شکل دی ہے جس میں ہوٹل ،پارکنگ اور دیگر سہولیات مہیا کی گئی ہیں اوریہاں پر پان کی ایک عمدہ دکان بھی ہے۔دامنِ کوہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے پورے اسلام آباد شہر کے نظارے میں نگاہ مقید ہوکر رہ جاتی ہے جبکہ کبھی کبھی دھند میں گھِری بلند و بالا عمارات اور فیصل مسجد ایک دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔شعراء ٹولیوں کی شکل میں دامنِ کوہ میں گھوم رہے تھے اور قدرت کے دلکش مناظرسے محظوظ ہورہے تھے۔ایک جگہ ستار کی لَے فضا میں گونج رہی تھی اور ڈھول کی تھاپ ہلکی تھی لیکن افسانہ نگار احمد سلیم سلیمی کے دلفریب رقص کے بعد تیز کر دی گئی اور اشتیاق احمد یاد ؔ نے بھی سلیمی کے قدم سے قدم ملائے اور خوبصورت رقص پیش کیا۔احمد سلیم سلیمی سراپا ادیب دکھائی دیتے ہیں اور ان کا اوڑھنا بچھونا مطالعہ ہے اگر آپ ان کے ہمراہ کسی بازار کا رخ کرتے ہیں اور اگر اتفّاق سے کوئی کتب خانہ دکھائی دے تو فوراََ اس میں گھس جاتے ہیں اور کوئی کتاب خریدے بغیر نہیں لوٹتے۔طبیعت کے ساتھ ساتھ صحت اور بالوں کے معاملے میں بھی حساس واقع ہوئے ہیں جبھی اپنی عمر سے کم دکھائی دیتے ہیں۔
دامنِ کوہ کی سیر کے بعد حلقہء اربابِ ذوق کے قافلے نے سید پور گاؤں کا رخ کیا۔سید پور گاؤں برصغیر کے مغلیہ دور کے قدیم طرز تعمیر کا ایک شہکار ہے اور دامنِ کوہ کے مشرقی جانب مارگلہ کی پہاڑیوں کے نشیب میں واقع ہے۔اس میں مغل، گندھارا،یونانی،بدھسٹ،اشوکا اور کئی ادوار کا امتزاج پایا جاتا ہے اور اس کی تاریخ قدیم ہے ۔سید پو ر گاؤں مغلیہ دور میں سلطان سرنگ خان کی سلطنت میں شامل تھاجس کی حکومت اٹک سے جہلم تک پھیلی ہوئی تھی اور پوٹھوہار ریجن کا سربراہ تھا۔سلطان سرنگ خان نے سید پور گاؤں کو اپنے بیٹے سلطان سید خان سے منسوب کیا تھا۔سلطان سرنگ خان کی وفات کے بعداس کی سلطنت فرزند کو منتقل ہوئی ۔جب سلطان سید خان کی بیٹی مغلیہ بادشاہ جہانگیر سے بیاہی گئی تو انہوں نے اپنے داماد کو سید پور گاؤں تحفے میں پیش کیا۔مغلیہ دور میں مون سون کے پانی کو پینے کے ساتھ ساتھ پو دوں کو سیراب کرنے کی غرض سے یہاں پر ذخیرہ کیا جاتا تھا۔
مغلیہ دور کے بعد ایک ہندو کمانڈر راجہ مان سنگھ نے سید پور گاؤں میں ہندو مذہب کے مندروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے تالاب بھی تعمیر کرائے اور انہیں ہندو مذہب کے دیوتاؤں سے منسوب کیے جن میں راما کندا،سیتا کندا،لکشمن کندااور ہنومان کندا شامل ہیں۔اب بھی یہاں پر کئی مندر موجود ہے جو ہندو عقائد کی عکاسی کرتے ہیں۔۲۰۰۶ء میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے سیدپور گاؤں کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔یوں حکومتِ فرانس نے اس پراجیکٹ کے لئے ٹیکنیکل معاونت فراہم کی جس میں فرانس کے اُس وقت کے اتاشی ریکس دی بلینٹ (REGIS DE BLENET)کی خصوصی دعوت پر فرانس کے ماہرِ تعمیرات میکس بائیو رابرٹ(MAX BIOROBERT)نے سید پور گاؤں کا دورہ کیا اور حکومتِ پاکستان کو مکمل یقین دہانی کے ساتھ ماہرانہ تجاویز بھی دیں۔یوں ۲۰۰۸ء میں اس پراجیکٹ کی تکمیل ہوئی اور آج سید پور گاؤں مقامی و بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہو اہے۔
سید پورگاؤں سے فراغت کے بعد پاکستان مونامنٹ کی سیر کاارادہ کیاگیا۔آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعدمونامنٹ پہنچے۔ فضا میں نیم تاریکی پھیل چکی تھی۔پاکستان مونامنٹ کے لائٹس روشن کیے گئے تھے۔ نیم تاریکی میں مصنوعی لائٹس کی روشنی نے پاکستان مونامنٹ کے حسن کو چار چاند لگادیے تھے ۔پاکستان مونامنٹ دراصل چاروں صوبوں اور تین زیرِ انتظامی علاقوں کی نمائیندگی کرتا ہے اور مونامنٹ کو کھِلتے ہوئے پھول کے مشابہ تعمیر کیا گیا ہے۔پھول کے چار بڑے پتیّ سندھ،پنجاب،بلوچستان اورخیبر پختونخواہ اور تین چھوٹے پتیّ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقوں کی عکاسی کرتے ہیں۔جبکہ پاکستان مونامنٹ میں مختلف علاقوں کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ دھرتی ماں کے لئے جان کا نظرانہ پیش کرنے والے شہیدوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں پاکستان مونامنٹ کی تعمیر اور شروعات اردو ادب کے نامور ادیب ممتاز مفتی کے فرزند عکسی مفتی نے کیا تھا لیکن ایک عرصے بعد وزارتِ ثقافت نے اس منصوبے کو حماد کاشف کی سربراہی میں وفاقی دارالحکومت میں عملی جامع پہنایا۔شعراء نے پاکستان مونامنٹ میں سیر کے بعد اسی احاطے میں تعمیر کردہ عجائب گھر کا رخ کیا لیکن سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر شام۰۰:۶ بجے ہی بند کر دیا گیا تھا۔لٰہذا میلوڈی فوڈ پارک کا رخ کیا۔ہاسٹل میں واپسی پر سخت تھکاوٹ محسوس کر رہے رہے تھے اور جلد آرام کرنے پر اکتفا کیا۔
(جاری ہے)
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button
ایک کمنٹ