میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گلگت بلتستان کے عوام کی تمام تراُمیدوں ،وفاداریوں ،یوتھ کے احتجاجی مظاہروں،سول سوسائٹی کے دھرنوں اور حکومت گلگت بلتستان کے قرادادوں کومسترد کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کی ہے کہ مسلہ کشمیر پر خارجہ پالیسی میں کوئی رد بدل نہیں ہوگی یعنی گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ وفاق کو ہماری ثقافتی ٹوپی سے ذیادہ کشمیری چائے پسند ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ کشمیری چائے کو کشمیری عوام فٹ پاتھ پرفروخت نہیں کرتے لیکن گلگت بلتستان والوں نے اس کے بلکل برعکس ثقافتی ٹوپی ہر اُس شخص کوپہنایا جاتا ہے جنکا باطن عوامی نظریہ اور عقائد کے دشمن ہیں لیکن کوئی بات نہیں اسے ہماری سادگی سمجھیں یا مہمان نوازی دونوں صورت میں اچھی بات ہے ۔لیکن بات یہ ہے کہ جب تک ہم خود کو نہ پہچانیں اور کسی سے اُمید لگائے بیٹھے کہ فلاں سے چونکہ ہم غیر مشروط محبت کرتے ہیں لہذا ہمیں محبت کا صلہ ضرور ملے گا ایسا بلکل نہیں ہے۔ آج کی دنیا مفادپرستی کی جنگ کا دور ہے اس دور میں مفاد کیلئے کسی قوم یا ریاست کو قربان کرنا کوئی بڑی بات نہیں اور اگر کوئی ریاست سیاسی طور پر کمزور ہو توسونے پہ سہاگا والی بات ہے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے آئینی کمیٹی کے سفارش کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے لہذا ہم امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس بار چونکہ کہ معاملہ اقتصادی راہداری کیلئے قانونی پیچدگیوں کو ختم کرنے کا ہے تو عین ممکن ہے کہ اس منصوبے کے صدقے یہاں کے عوام بھی ریاستی حقوق کے حوالے سے کچھ فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہو لیکن اگر ہم گزشتہ تین مہینوں کے سیاسی اور سرکاری بیانات دیکھیں تو حقوق گلگت بلتستان پر اس بار بھی مایوسی کے بادل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اب عوامی نظریں فیصلہ سازوں کی طرف ہے کہیہ کمیٹی یہاں کے عوام میں بڑھتی ہوئی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے کیا پیکج تیار کرتے ہیں مگر یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلہ کشمیر کی حل کے بغیر گلگت بلتستان کا آئینی صوبہ ممکنات میں سے نہیں اور موجودہ صورت حال میں ایک طرف وفاق نے بھارتی اور پاکستانی کشمیری رہنماوں کا یقین دلایا ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے تمام فیصلے مسلہ کشمیرکو سامنے رکھ کر کریں گے جس پر دونوں اطراف کے کشمیری رہنماوں نے اطمنان کا اظہار کیا مگر افسوس کسی نے وفاق پاکستان سے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا، کہ جناب آپ کا شکریہ آپ مسلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہماری موقف کی حمایت کرتے ہیں لیکن سابق ریاست جموں کشمیر کا اُنتیس فیصد حصہ (کرگل لداخ کے علاوہ بھی جو گلگت بلتستان کہلاتے ہیں) اس وقت گلگت بلتستان کے پاس ہے اور یہاں کے باشندے گزشتہ اٹھاسٹھ سالوں سے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں اُن کیلئے کیا کر رہے ہیں؟ کوئی سوال نہیں کیونکہ اُن کے نزدیک گلگت بلتستان کا پاکستان کیلئے دفاعی جعرافیائی اہمیت کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جموں کشمیر کا ایک طبقہ جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور خود مختار کشمیر کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اُنہوں نے ضرور یہ سوال اُٹھایا کہ مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے گلگت بلتستان کو بھی مکمل خود مختار ریاست کا درجہ ملنا چاہئے۔لیکن مظفر آباد کے حکمران جن کے بارے خود کشمیری عوام کہتے ہیں کہ انہیں ریاستی حقوق سے بڑھ کر ذاتی مفاد، شہرت اور دولت کی فکر ہے ایسے لوگوں کا گلگت بلتستان کے حوالے سے تندوتیز بیانات گلگت بلتستان اور پاکستان کیمفاد میں نہیں تو کشمیر کے حق میں بھی نہیں۔ لہذا گلگت بلتستان کو اپنی سوچ کے مطابق تولنے کے بجائے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ گلگت بلتستان بھی خدانخواستہ مظفرآباد کے ساتھ ضم ہوجائے اگر کوئی اس حوالے کوئی سے سوچ بھی رکھتے ہیں تو انکو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ آذاد کشمیر حکمران سیاسی طور گلگت بلتستان سے رقبے کے لحاظ سے کم ہونے کے باوجود بھی ذیادہ اثررسوخ رکھتے ہیں اس مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو پتھر کے زمانے میں رکھ کر اپنی بقاء کی جنگ کا نعرہ لگائیں۔ اس دنیا میں ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے جہدجہد کریں لیکن افسوس مظفر آباد کے حکمران حقوق گلگت بلتستان کے حوالے سے تو مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن اس ریاست کی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی بات چھیڑ جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے عوام کسی کے گھر کی لونڈی ہیں اور اُنہیں یہ حق نہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں۔ یہاں ہمارے عوام کو وفاق سے بھی شکایت ہے کہ ہماری تمام قربانیوں کے باوجود جب کبھی حقوق کی بات چھیڑ جائے تواس کو ایشو گھمبیر بنایا جاتا ہے ہماری اسمبلی جب کوئی قانون پاس کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انکے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں ،یہاں کی عدالتیں جب کسی پاکستانی شہری کے بارے میں فیصلہ سُنائے تو کہتی ہے کہ یہاں کے عدالتی نظام بھی قانون اور آئین کے دائرے میں نہیں، عوام جب آئینی حقوق کا مطالبہ کریں تو یہی سُننے کا ملتا ہے کہ گلگت بلتستان کوآئینی صوبہ بنانا بھی ممکن نہیں۔ ایسے میں سوال اُٹھتا ہے کہ ہمارے لئے کیا ممکن ہے ؟کہ ہم مسلہ کشمیر کی حل یعنی قیامت تک بغیر شناخت کے دوسروں کیلئے نعرے لگاتے رہیں اور دوسروں کی حفاظت کیلئے زندگیاں لُٹاتے رہیں ؟ اگر ایسا نہیں تو گلگت بلتستان کے عوام آئینی عوام سے بڑھ کر ہر میدان میں پاکستان کیلئے قربانیاں پیش کر رہے ہیں ،دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والوں میں گلگت بلتستان کے لوگوں کا نام سرفہرست ہیں،کرگل سے لیکر سیاچن تک ہمارے جوان پاکستان کیلئے مر مٹنے پر فخر محسوس کرتے ہیں،کے ٹو ،سیاچن،شندور،دیوسائی،سُست اور قراقرم گلگت بلتستان کی پراپرٹی اور پاکستان کی شان ہے لیکن یہاں کے عوام کے ساتھ یہ رویہ آخر کب تک اور کیوں؟ یہاں کے عوام کاعشق اور جنون خود سے بھی بڑھ کر پاکستان کیلئے ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے حوالے سے فیصلے کشمیری حکمرانوں کی مرضی سے کرنے کا فلسفہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا ضرورت تھی ایک خود مختار ریاست کو جنہوں نے ابھی فیصلہ کرنا تھا کہ ہمیں کس ملک کے ساتھ شامل ہونا ہے ایک سازش کے تحت اُس انقلاب کو ناکام بنایا یہاں ایف سی آر نافذ کرنے کے بعد اس خطے کو مسلہ کشمیر کے ساتھ جوڑ دیا لیکن مسلہ کشمیر کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر وہ حقوق آج بھی یہاں کے عوام کو حاصل نہیں جو ریاست جموں کشمیر کے اطراف میں لاگو اور نفاذ ہیں۔ لہذا اس مسلے کو متنازعہ بنانے والے ہی دراصل مسلہ کشمیر اور پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں۔ آج پاکستانی سفیر بھارت میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں لیکن کوئی سوال کرنے والا نہیںیعنی یہ لوگ خود بھارت کو جواز فراہم کررہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے مسلے کو اور متازعہ بنائیں حالانکہ گلگت بلتستان کے عوام کئی بار یہ فیصلہ دے چُکے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے لہذا ہمیں مکمل پاکستانی شہریت کا درجہ دیا جائے مگر یہاں عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں جو کہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس عوامی یکطرفہ عشق کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی پاسداری ہی کرنا ہے تو سب سے بہترین حل یہی ہے کہ اس خطے کوبھی مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے مکمل خود مختار ریاست کا درجہ دیکر دفاع اور کرنسی کے علاوہ باقی تمام اختیارات عوام کے سپرد کریں۔یہ عبوری،مشروط اور اسپیشل وغیرہ اب گلگت بلتستان کے عوام کو قبول ہے نہ یہاں کے عوام مظفرآباد کے ساتھ ملکر کو سیاسی ڈھانچہ ترتیب دینا چاہتے ہیں لہذا اس وقت گلگت بلتستان کو نظرانداز کرکے فیصلے مسلط کرنے کے بجائے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خطے کو عوامی اُمنگوں کے مطابق حقوق دینے کی ضرورت ہے ورنہ کسی بھی ناخوش گوار حالات کا ذمہ سرکاری کشمیری حکمران اور وفاق میں بیٹھ کر من پسند فیصلے کر والے بیوروکریسی پر عائد ہوگی۔ کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام اب مزید اپنا کل کسی ناحل ہونے والے مسلے پر قربان کرنے کیلئے تیار نہیں لہذایہ ستم اب ختم ہو جانا چاہئے اورعوامی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خطے کا فیصلہ کریں اسی میں مملکت پاکستان کی مفاد ہے۔ اللہ ہم سب کو مظلوں کی حمایت اور ظالموں سے نفرت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین