کالمز

"اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا”

ہنس مکھ اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجانے والے جانان خان کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم دِل کا ساتھ نہیں دے رہا۔ عجیب کشمکش کا شکار ہوں۔ مرحوم کے ساتھ خاندانی رشتہ داری اور ہمسائیگی اپنی جگہ لیکن ہمارے بیج ہمیشہ دوستانہ تعلقات رہے۔ میں جب کبھی ان سے ملنے جاتا تو وہ ہزار کام چھوڑ چھاڑ کے میرے ساتھ بیٹھ جاتے۔ چائے کا آرڈر دیتے ہوئے یہ تاکید ضرور کرتے کہ واعظ صاحب کے لیے اچھی چائے ہوجائے۔ پھر چائے کا دَور چلتا اور وہ اپنی مہماتی زندگی میں کھو جاتے جہاں وہ کبھی بنگال میں قید و بند کی صعوبتوں کی داستان چھیڑتا تو وہاں اپنی کاروباری کاوشوں کو بھی زیر بحث لاتا۔ مجھے بہت قدر دیا کرتے تھے جب میری پہلی کتاب شائع ہوئی تھی تب مجھ سے بھی زیادہ خوش وہ تھے کتاب کی کچھ کاپیاں اپنی لیب میں بھی سجا کے رکھی تھیں اور فخر سے ہر ایک کو کہتے تھے یہ کتاب میرے عزیز واعظ صاحب نے لکھی ہے۔

 1960 کے عشرے میں ان کے آباؤاجداد ہنزہ حسن آباد سے ہجرت کرکے اشکومن بارجنگل میں مستقل رہائش پذیر ہوئے۔ بعد ازاں

جانان خان (مرحوم)
جانان خان (مرحوم)

جانان خان فوج میں رہے اور سقوط ڈھاکہ میں کچھ عرصہ بنگال میں قیدو بند کی صعوبتوں سے بھی دوچار ہوئے اور بھٹو صاحب کے زمانے میں باعزت رہا بھی ہوئے۔ یہاں سے ان کی کاروباری اور مہماتی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ 1976 سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے جانان خان کروڑوں کے مالک کیسے بن گئے اس کے لیے ان کی مہماتی زندگی کا تفصیلی مطالعہ ضروری ہے۔ ان کی شبانہ روز محنت نے ان کو تاریخ میں امر کر دیا۔

مجھے جانان خان اور صدر الدین ہاشوانی کی زندگی ہم پلہ نظر آتی ہے۔ ہاشوانی کی کتاب "سچ کا سفر” پر میرا تبصرہ غالباً آپ کی بینائیوں کی نذر ہوچکا ہوگا۔ جہاں ہاشوانی نے بلوچستان کے صحرا سے ایک ڈپو ڈیلر کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کرکے ایک درجن سے زاید فائیو سٹار ہوٹلز کا مالک بن جاتے ہیں تو وہاں مرحوم جانان خان بھی گھڑی باغ میں ایک چھوٹے سے دکان میں فوٹو گرافی سے اپنے سفر کا آغاز کرکے اتنی محنت کرتے ہیں کہ کروڑوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کا شمار ان کروڑ پتیوں میں نہیں ہوتا جو ضمیر اور ایمان کا سودا کرکے گاجر مولی کی طرح نوکریوں کی سبزی منڈی لگائی اور چوراہوں پہ نیلام کرتے رہے۔ جانان خان ایک تحریک اور وژن کا نام ہے۔ مرحوم علاقے میں فلاحی کاموں اور غریب اور نادار لوگوں کی کفالت میں مشہور تھے انہوں نے جوٹیال کے مقام پر جے جے مارکیٹ تعمیر کرکے علاقے کے لوگوں کو کاروباری مواقع فراہم کئے۔ میں نے کئی بار بلان بنایا کہ اپنے میگزین کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو کروں لیکن کبھی میری مصروفیات آڑے آئیں تو کبھی وہ کاروباری دُنیا میں گم رہے۔ خیر وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق جانان خان کو چند روز قبل ہاضمے میں تکلیف کے باعث آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں داخل کردیا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن ہوا تھا اور چند روز قبل ہی گھر منتقل کردیئے گئے تھے۔ پیرکی رات ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور وہ 68 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے گزر گئے۔ ان کی خوشبختی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اچھی اور صالح اولاد سے نوازا۔ جانان خان کے پسماندگان میں ایک بیوہ سمیت چار بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ بیٹوں میں جاوید اقبال، میجر شاہد اقبال، ساجد اقبال اور لیفٹیننٹ وسیم اقبال شامل ہیں ان کی ایک صاحبزادی امریکہ میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔ جانان خان کے کاروباری ذمہ داری کا سارا بوجھ ان کے بڑے بیٹے اور ہمارے پیارے دوست جاوید اقبال کے کندھوں پر ہے۔ اب یہ وقت بتا دے گا کہ وہ اپنے باپ کے خون پسینے کی کمائی کو کس طرح سنبھالا دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ترقی کرنا آسان ہے لیکن ترقی کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ جاوید اقبال کا کاروباری سفر جانان خان کے وژن اور بصیرت کے مطابق آگے جاری رہے گا۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button