کالمز

پرانی یادیں

یہ چند سال پہلے کی تصویر ہے جب میری ڈیوٹی راکاپوشی کے دامن وادی ہنزہ و نگر میں ہوتی تھی۔ کریم آباد کی حسیں صبحیں ہوں یا علی آباد کی گرم دوپہریں۔۔۔ شمشال بے مثال کی سرد ہوائیں ہوں یا چیپورسن گوجال کی یخ شامیں۔۔۔ گلمت اور ششکٹ سے عطا آباد جھیل کے دلکش مناظر ہوں یا پسن اور غلمت نگر سے راکاپوشی کی برفیلی پہاڑوں کے نظارے۔۔۔ خانہ آباد سے مایون جاتے ہوئے روح تک سرایت کرنے والی بیر کی خوشبوئیں ہوں یا ناصر آباد کی چاندنی راتیں۔۔۔ انسان، اگر وہ شاعر بھی ہو تو تخیل کی دُنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کے محسوسات غزل، نظم یا سفرنامے کا روپ دھار لیتے ہیں۔ زیرنظر نظم "یہ میرا گلگت بلتستان” (میری کتاب "تیری یادیں” میں بھی چھپی ہے۔) بھی ایک چاندنی رات کی مرہون منت ہے جب ناصر آباد ہنزہ سے راکاپوشی کے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کو چاندنی میں نہائے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ذرا آپ بھی پڑھ لیجئے اور تخیل میں ان حسین مناظر کی سیر کیجئے گا۔

فلک کے ماہ  و اختر بولتے ہیں

پہاڑوں کے یہ پتھر بولتے ہیں

اِسے کہتے ہیں سیاحوں کی جنت

یہاں کے سب گل ِ تر بولتے ہیں

پہاڑی سلسلوں میں ہر قدم پر

زمرد، لعل و گوہر بولتے ہیں

اُچھلتی کودتی لہروں کی مستی

چمن میں آبِ کوثر بولتے ہیں

لبِ دریا پہ ٹیلے ریت کے ہیں

ذرا تو دیکھئے زر بولتے ہیں

بہر سو دیکھئے پانی ہی پانی

یہاں پانی کے چکر بولتے ہیں

گل و بلبل کو جب بھی دیکھتے ہیں

عجب دلہائے مضطر بولتے ہیں

karimiبہاروں کی ہواؤں میں خوشی سے

سفیدوں کے وہ لشکر بولتے ہیں

بڑھو جلدی مئے گلگون پی لو

یہی پھولوں کے ساغر بولتے ہیں

ذرا اٹھ کر یہاں کے ٹو کو دیکھو

پرندوں کے کھلے پر بولتے ہیں

کھڑا کس شان سے ہے ننگاپربت

مناظر اس کے اکثر بولتے ہیں

کبھی رہتے نہیں چپ حسن والے

"مری دھرتی کے منظر بولتے ہیں”

کریمی! راکاپوشی کے مناظر

سکوتِ شب  میں بہتر بولتے ہیں

آپ ایک بار صرف ایک بار ان جنت نظیر علاقوں کی سیر کیجئے گا۔ آپ کو میرے موقف کی تائید کرنی پڑے گی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button