کالمز

معاہدہ کراچی اور سٹیٹ سبجیکٹ کا معاملہ

قوموں کی زندگی میں عروج و زوال کے حوالے سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلہ دنیا کی تاریخ میں ایک پیچیدہ، پراسراراور غم و اندوہ سے بھرپور عمل ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جو انسانی ذہن کو افسردہ کردیتا ہے اور وہ اس اُتار چڑھاؤ کے عمل سے نا امیدی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسانی ذہن نے عروج و زوال کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر اب تک یہ ایک نہ حل ہونے والا معمہ ہے کہ ایک قوم کن حالات میں عروج حاصل کرتی ہے، تہذیب و تمدن میں کمال تک پہنچتی ہے اور پھر ایک شاندار ماضی کو چھوڑ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ ہم اگر دنیا کے دوسرے اقوام کے بارے میں بحث کئے بغیر اپنے خطے کی بات کریں تو تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے کی شاندار ماضی رہی ہے لیکن بدقسمتی سے جب کسی قوم میں بہتر حکمران اور باشعور عوام کی کمی ہو تو اس قوم کا زوال یقینی ہوجاتا ہے۔ ماضی بعید میں جائے بغیر ہم اگر تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال کا ذکر کریں تو یہ بات ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان اُس وقت مہاراجہ کشمیر کے زیرنگین تھے لیکن جب مہاراجہ نے عوام سے رائے لئے بغیر ریاست جموں کشمیر کا بھارت کیساتھ الحاق کیا تو کہیں خاموشی تو کہیں مزاحمت دیکھنے کو ملا،یوں موجودہ آذاد کشمیر کو پاکستانی قبائلوں نے ڈوگروں سے آذاد کرکے مقامی افراد کے حوالے کیا تو دوسری طرف گلگت اور بلتستان کے عوام نے بغیر کسی غیر مقامی عسکری امداد کے ڈوگروں سے بغاوت کا علم بلند کیا جس کے نتیجے میں یکم نومبر اُنیس سنتالیس کوجمہوریہ گلگت کے نام سے ایک آذادریاست وجود میں آئی۔لیکن بدقسمتی سے اس نومولودسٹیٹ کے قائدین کی جانب سے مسقتبل کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ کچھ مقامی اور غیرمقامی غداروں نے سازش کرتے ہوئے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ اس خطے کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے ،ایسے میں کس کا دل نہیں چاہے گا کہ اسلام کے نام پر بنے ایک ملک میں شامل نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ایک غیر مقامی پولٹیکل ایجنٹ کے ہاتھوں الحاق کے نام پر جنگ آزادی کے کئی ہیروز کو سرنڈر کروایا اورفاتح جی بی کو دیوار سے لگا کرپاکستان سے الحاق کا ڈرامہ رچانے کے بعد ان علاقوں میں پاکستانی قوانین کورواج دینے کے بجائے یہاں سرحدی قوانین ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز، جنہیں عرف عام میں کالے قوانین کا نام بھی دیا جاتا تھا،کو دوبارہ رائج کرتے ہوئے بغیر کسی ٹیبل ٹاک کے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھال لیا۔اس درمیانی عرصے میں مسلہ کشمیر کے حوالے سے کئی معاملات سامنے آئے اور گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کے نتھی کرلیا ۔یوںآگے چل کر خود کو متحدہ کشمیر کا نمائندہ کہلانے والے نام نہاد آذاد کشمیر کے حکمرانوں سردار ابراہیم، سردار غلام عباس اور وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی نے 28اپریل 1949کو ایک سازش کے تحت معاہدہ کرکے عوامی رائے لئے بغیر گلگت بلتستان کا مکمل کنٹرول پاکستان کے حوالے کیا۔اس معاہدے کے بعد چونکہ آذاد کشمیر کے حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی تھی لہذا اُنہیں اس بات کی فکر نہیں رہی کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کس قسم کے مسائل کاسامناہونگے ،یہاں پر جو سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے کیا عوامی اُمنگوں پر اُتر رہی ہے؟ یعنی گلگت بلتستان کے عوام کو ایک رسی سے باندھ کریہ سمجھ بیٹھا کہ یہ لوگ اب ہمارے قید میں ہیں۔ اسی طرح اُنیس سو اکہتر میں سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بر سرِ اقتدار آ یا تو اُنہوں نے اُنیس سوچوہتر میں ایف سی آر کا خاتمہ کرکے نہ صرف گلگت بلتستان کی ریاستوں کو ختم کیا بلکہ پورے پاکستان میں اس وقت موجودریاستیں جیسے ریاست ہائے سوات، کالا باغ، بہاولپور، دیر اور دیگر ریاستیں پاکستان میں شامل کیا۔اس انضمام کے بعد سٹیٹ سبجیکٹ رولز یعنی وہ قانون جسے مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں متعارف کرایاتھاجوکہ باشندگان ریاست کو بنیادی طور پر شہریت اور شہری حقوق کا قانون ہے۔ مذکورہ قانون ریاستی عوام کی شہریت اور ریاستی عوام کے حقوق کی ضمانت میں اپنی مثال آپ ہے۔ باشندہ ریاست قانون کے مطابق ریاستی باشندگان کو چار اہم حصوں پر مشتمل قرار دیا گیا، پہلے دو میں ان ادوار کا ذکر ہے کہ جن میں یہاں مستقل آباد ہونے والوں کو شہری قرار دیا گیا۔ تیسرے درجے میں جدید شہریت کے تقا ضوں کے تحت دس سالہ مستقل سکونت کے بعد اجازت اور رعائت نامہ کے ذریعے سکونت میں توسیع یا شہریت کے حصول کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ چوتھے درجہ میں ان صنعتی وکاروباری مراکزجو ریاست و ریاستی عوام کیلئے مفید ہوں ان مراکز کو بھی تحفظ اور شہری حیثیت دی گئی تھی اسے علاوہ کئی اور اہم شقات ہے جو سابق ریاست جموں کشمیر کے تمام خطوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یعنی اس قانون کو آج بھی ایک محافظ کی حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آذاد کشمیر میں باشندہ ریاست قانون (SSR۔1927) مقامی دستور کا حصہ ہے۔ یہی تو وہ قانون ہے جس نے انڈیا اور جموں کشمیر کے درمیان قانونی دیوار جموں کشمیر آئین اور انڈین آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کو آ ج تک بحال رکھا ہواہے،یہ باشندہ ریاست قانون ہی ہے جس نے پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر میں کاروبار پر حاوی غیر ریاستی سرمایہ دار طبقہ کو جائیداد کے مالکانہ حقوق سے دور رکھا ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں اس قانون کو معطل کرتے وقت کسی کشمیری حکمران کو یہ تو فیق نہیں ہوئی کہ وہ بھٹو حکومت سے کہیں کہ مسلہ کشمیر کے کسی بھی متاثر خطے میں ریاست جموں کشمیر میں رائج قانون کے حوالے سے کوئی رد بدل کرنے کا انہیں حق نہیں۔لیکن 2009 میں وفاق پاکستان نے گلگت بلتستان کو اُس قید سے نکال کر سلیف ایپاورمنٹ نامی لالی پاپ دینے کا فیصلہ کیا تو کشمیر ی حضرات نے ایک مرتبہ پھر انکھیں کھولنا شروع کیا اور گلگت بلتستان کو اکیسوں صدی میں بھی پتھروں کے زمانے میں رکھنے کا مطالبہ کرنا شروع کیا جو کہ گلگت بلتستان کی عوام کیلئے بلکل ہی ناقابل قبول تھا ۔کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی خواہش اور گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنانے کیلئے کوئی قانونی راستہ تلاش کیا جائے لیکن مسلہ کشمیر کا طوق چونکہ پاکستان کے گلے میں ہیں اور اُنہوں نے اس حوالے سے ایک اکٹر کا مزاج اپنایا ہوا ہے جس کے سبب یہ ممکن نہیں کہ مسلہ کشمیر حلکئے بغیر گلگت بلتستان کی مسقتبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے۔ مقامی قانون ساز اسمبلی کی طرف سے کئی بار آئینی صوبے کیلئے قراداد پیش کرنے کے باوجود وفاق پاکستان نے صاف لفظوں میں انکار کیا اس خطے کی دفاعی ،جعرافیائی اور سیاحتی اہمیت کے باجود ایسا ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان آئینی اور قانونی طور پر پاکستان میں شامل ہو۔لہذا چونکہ اب اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہا کہ گلگت بلتستان کی قانونی اورآئینی حیثیت کیا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اٹھائیس ہزار مربع میل اور بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس خطے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سابق ریاست جموں کشمیر کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کوبحال کریں ،نام نہاد معاہدہ کراچی کو ختم کریں اور یہاں کی وسائل پر جو اس وقت لوٹ مار کی بازار کھلی ہوئی ہے اس ختم کرکے یہاں کے عوام کو سابق ریاست جموں کے دوسرے تمام حصوں کے برابر مکمل حقوق دیں۔کیونکہ اب یہ عبوری،خصوصی وغیرہ مقامی مراعات یافتہ حکمرانوں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس خطے کے بیس لاکھ عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا حل نہیں۔اس حوالے سے ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عوامی مفاہمتی کمیٹی برائے گلگت بلتستان و جموں کشمیر کی پلیٹ فارم سے سٹیٹ سبجیکٹ کی غیر قانونی معطلی کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے۔ اللہ ہم سب قانون اور آئین کے مطابق مادر وطن کی خدمت کرتے رہنے کا مقام فراہم کرے ۔آمین

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button