کالمز

دیر پا امن کیسے ممکن ہے؟

یہ بات نہایت ہی خوش آئند ہے کی گلگت بلتستان کے باسی گذشتہ تین سالو ں سے امن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ امن از خود قائم ہوا ہے یا کسی نے کرایا ہے اس سے قطع نظر موجودہ حکومت اس کا کریڈٹ لینے میں حق بجانب ہے کیونکہ اس حکومت کے دور میں بد امنی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔ اگر اس حکومت کا اس میں کوئی بڑا رول نہیں بھی ہے تو پھر بھی اس حوالے سے اس حکومت کو خوش قسمت کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ اس کے آنے کے بعد امن کا قائم ہونا یقیناًایک نیک شگون ہے۔

2005 سے لے کر 2012تک گلگت بلتستان جس کرب سے گزرا تھا اس کا ادراک یہاں کے ہر باسی کو ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں کے ہر ذی شعور نے امن کی ضرورت محسوس کی تھی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس وقت کی حکومت نے پارلیمانی کمیٹی برائے امن تشکیل دی جس نے ضابطہ اخلاق اور بعد ازاں مساجد ریگولیشن ایکٹ 2012 بنایا۔ اس سے قبل کی حکومت نے گرینڈ امن جرگہ تشکیل دے کر قیام امن کے لئے کوشش کی تھی مگر وہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکی تھیں۔ مگر 2012 کے بعد یہاں کی سول سوسائٹی ،حکومت، عوام اور علماء نے اس ضمن میں مل کر کام کیا جس کے نتیجے میں حالات معمول پر آنا شروع ہوئے جو کہ تا حال بر قرار ہیں۔ موجودہ حکومت نے بر سر اقتدار آنے کے بعد قیام امن کو اپنی اولین تر جیح قرار دیا اور اس ضمن میں کام بھی کیا۔ خاص طور سے ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان نے اپنا عہدہ سنھبالنے کے بعد قیام امن کو اپنا اولین مشن قرار دیا۔ وہ جس محفل میں بھی جاتے ہیں ان کی بات امن سے شروع ہوتی ہے اور امن پر ختم ہوتی ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو قیام امن میں دلچسپی ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی ایک قاتلانہ حملے کے بعد بچ گئے ہیں اس لئے ان کو اس کی زیادہ فکر ہے۔

گزشتہ دنوں قانون ساز اسمبلی نے لوڈ سپیکر کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے بھی قانون منظو رکیا ہے جس پر عملدآمد کے بعد صورتحال مزید بہتر ہونے کا مکان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ موجودہ امن کو دیر پا بنانا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہماری بقا ممکن نہیں ہے۔ طاقت کا استعمال بے امنی کا وقتی علاج ہے۔ دیر پا امن کے لئے سماج کو صحیح ڈگر پر ڈالنا ہوگا۔ کیونکہ بد امنی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں ان تمام کا تدارک کئے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس امن کو دیر پا اور پائیدار کیسے بنا یا جائے؟

اس کا آسان اور سادہ سا جواب یہ ہے کہ لوگوں کے بنیادی مسائل حل کئے جائیں اور ان کو پر سکون زندگی گزارنے کے لئے اسباب پیدا کئے جائیں۔ تاکہ ان کے اندر سے مایوسی اور نا امیدی ختم ہوسکے اور وہ انتہا پسندی کی طرف مائل نہ ہوسکیں۔ حکومت کا کام صرف تر قیاتی منصوبو ں کا جا ل بچھا نا نہیں ہوتا ہے بلکہ نظام کے اندر وہ تبدیلی بھی لانا ہے جس سے عام آدمی کو فوری طور پر ریلیف مل سکے۔ یہاں تو ایک ڈومسائل اور شناختی کارڈ کے لئے مہینے لگتے ہیں۔ کسی کاروباری ادارے کی رجسٹریشن یا لوگوں کے آپس کے تنازعات کا حل نکلتے نکلتے لوگوں کی زندگیاں بیت جاتی ہیں۔یہ بات درست ہے کہ حکومت نہ تو تمام لوگوں کو روزگار دے سکتی ہے اور نہ ہی ان کا ہاتھ پکڑ کر کھانا کھلا سکتی ہے ۔ بلکہ حکومت کا کام ان تمام امور کی انجام دہی کے لئے ماحول اور مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ ان مواقعوں سے فائدہ اٹھا کر لوگ اپنی زندگی کی آسائشیں خود پیدا کرتے ہیں۔ حکومت ایک طرح کا نظام وضع کرتی ہے جس میں لوگوں کو اچھی زندگی کزارنے کے تمام مواقعے میسر آ تے ہیں ۔یعنی حکومت معاشرے کو منظم ہو کر اپنے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔اور اسی منظم معاشرے کو ریاست کا نام دیا جاتا ہے۔

کسی معاشرے میں بسنے والے لوگ اس معاشرے سے کئی طر ح کی توقعات رکھتے ہیں ان کی توقعات پوری نہ ہوں تو وہ مایوسی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ مایوس لوگ معاشرے کے باغی ہوتے ہیں اور ان کے اندر انتقام کا جذبہ ہوتا ہے۔ وہ ہر اس عمل سے خوش ہوتے ہیں جس سے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔مایوسی سے لوگوں کو نکالنا معاشرے کے لئے بنائے گئے ریاستی نظام کی بنیادی زمداری ہوتی ہے۔اسی کام کے لئے لوگ اپنی محنت کی کمائی سے ٹیکس دیتے ہیں۔

اس میں بنیادی کردار انصاف کے موثر اور فعال نظام کا ہے۔ جب تک جزا و سزا کا موثر نظام نہیں ہوگا تب تک امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو انصاف کے نظام پر مکمل اعتماد ہونا چاہئے۔ ا نصا ف کی ابتدائی سیڑھی انتظامیہ اور پولیس کا اپنے اختیارات کو عوام کی بہبود کے لئے استعمال کرنا ہے۔ ہمیں صدیوں پرانا انتظامیہ اور پولیس کا نظام تبدیل کر کے ایک جدید اور فعال نظام بنانے کی طرف توجہ دینا ہوگا جس میں ون ونڈو سروس کا تصور ہو اور لوگوں کے مسائل سالوں، مہنوں اور دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں حل ہو سکیں۔ لوگ سرکاری دفتر میں جاتے ہوئے اس احساس کے ساتھ جائیں کہ وہاں سے ان کو فوری ریلیف ملے گا۔ ماتحت عدالتوں کا بوجھ کم کرنے، ججوں کی تعداد بڑھانے اور ان عدالتوں میں جدید تقاضوں کے تحت انتظامی بہتری لانے کے لئے جنگی بنیادوں پر پالیسی مرتب کرنا ہوگی تاکہ لوگوں کو اپنے حقوق کے لئے عدالت جاتے ہوئے اس بات کا ادارک ہوکہ وہاں سے کم وقت میں ان کو انصاف ملے گا۔

تمام سرکاری دفاتر کو عوام کا خادم بن کر کام کرنے اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے دن رات ایک کرنے کی ہدایت کی جائے اور اس پر عملدآمد کو یقینی بنایا جائے۔ سرکاری اداروں کے مردہ گھوڈے میں جان ڈالنے کی ضرورت ہے اور سرکاری ملازمین کی استعداد کار بڑھانے کے لئے ان کو ہفتہ وار تربیتی مراحل سے گزارا جائے۔ بہترین کارکر دگی دیکھانے والے سرکاری لوگوں کو انعامات سے اور ترقی سے نوازا جائے اور کاہل، کام چور ، کرپٹ اور نالائق سرکاری لوگوں کو جبری ریٹائر کیا جائے۔

معاشرے کو انسان دوستی اور احترام آدمیت کی تعلیم دینے لئے مناسب اقداما ت کئے جائیں ۔ برداشت ، امن اور دوسروں کے عقائد کا احترام کے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنا کر نئی نسل کو باقاعدہ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے اور میڈیا کے ذریعے انسانی اقدار کی پر چار کی جائے۔

بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک سال کے اندر اندر چند بڑے منصوبے مکمل کرنے کا پلان تیار کرنا ہوگا۔ تاکہ ان کی مدد سے لوگو ں کو گھریلو صنعت اور کاروبار کو فروغ دینے میں آسانی ہوسکے۔روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کا ماحول پیدا کرنا ہوگا اور صنعتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ موقع مل سکیں۔ کیونکہ بے روزگاری اور غربت جرائم اور انتہا پسندی کے اہم عوامل تصور کئے جاتے ہیں۔

اقتصادی راہداری کی تعمیر سے روزگار کے کیا کیا مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور ان کے لئے مقامی لوگوں کو کن کن امور پر مہارت حاصل کرنے اور ہنر مند ہونے کی ضرورت ہے؟ اس کے لئے ماہرین کی مدد سے نوجوانوں کے لئے آگاہی مہم چلانے کی طرف توجہ دی جائے۔تاکہ لوگ ان مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

تمام فرقوں کو دوریاں ختم کرنے اور آپس میں میل جول کو فروغ دینے کے لئے مشترکہ محافل اور اجتماعات کے انعقاد کی ترغیب دی جائے۔

روایتی کھیلوں، ثقافتی میلوں، موسیقی، ڈرامے اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے انعقاد کے لئے باضابطہ پالیسی مرتب کی جائے۔یوتھ پالیسی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اس پر عملدرآمد کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے امو ر ہیں جن کی طرف توجہ دیکر لوگوں کو بہتر زندگی گزرانے اور ان کو معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ بہترین نظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگو ں کی صلاحیتیں معاشرے کی بہتری کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ ایسا کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں لوگ اپنی طاقت کو منفی سرگرمیوں کی طرف موڈ دیتے ہیں ایسے میں نظام کو لینے کے دینے پڑتے ہیں اور حکومتوں کا حشر نشر ہوجا تا ہے ۔ جس کی گواہی انسانی تاریخ ببانگ دہل دیتی رہی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button