کالمز

امان اللہ خان جہد مسلسل

 تحریر :فہیم اختر

بین الاقوامی شہرت یافتہ حریت رہنما ، خود مختار کشمیر کے حامی و جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان خودمختار کشمیر کی تحریک میں جان ڈال کر اپنی جان کی بازی 85سال کی عمر میں ہارگئے 1931میں گلگت بلتستان کے ضلع استور میں گرداور جمعہ خان کے ہاں پیدا ہوئے بزرگ حریت رہنما نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ’گلگت بلتستان یونائیٹڈ آرگنائزیشن ‘سے شروع کی 1956-57میں قائم اس تنظیم کا مقصد گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد اور تحریک آزادی کشمیر کو منظر بنیادوں پر استوار کرنا تھا اس تحریک کے پہلے صدر بلتستان سے تعلق رکھنے والے محمد اسحق جبکہ جنرل سیکریٹری امان اللہ خان نے محمد اسحق ،جوکہ معرفی فاؤنڈیشن کے بانی بھی تھے ،سابق آئی جی پولیس سندھ افضل شگری کے چچا تھے گلگت بلتستان یونائیٹڈ آرگنائزیشن نے پہلی بار آزاد کشمیر میں اسمبلی اور اس اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی کا مطالبہ کیا تھا اس دوران امان اللہ خان خودمختار کشمیر کے حامی بن گئے اور اس نظریہ پر تاحیات قائم رہے ۔

خودمختار کشمیر کے حصول کے لئے جدوجہد کا باقاعدہ آغاز امان اللہ خان نے 1963میں صدر پاکستان ایوب خان کے کشمیر معاملہ پر ’کچھ لو اور کچھ دو‘کی پالیسی کی مخالفت اور اس کے خلاف تحریک سے شروع کی اور ’کشمیر انڈیپنڈینس کمیٹی ‘کی بنیاد رکھی اس کمیٹی نے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کی سخت مزاحمت کی اس کو خلاف جمہوریت قرار دیکر ’خودمختار کشمیر ‘کا مطالبہ کیا جنرل ایوب خان کی یہ پالیسی زوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگ کی پانچ ملاقاتوں کے بعد ناکام قرار پائی جس پر حکومت پاکستان کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے پر واپس آگئی اور کشمیر انڈیپنڈنس کمیٹی بھی غیر فعال ہوگئی 1964میں جموں کشمیر محاز رائے شماری کا قیام عمل میں لایا گیا امان اللہ خان اس نئی جماعت کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوگئے جبکہ شہید مقبول بٹ سیکریٹری نشر و اشاعت منتخب ہوئے اس جماعت کا پہلا کنونش پاک بھارت سیز فائر لائن پر منعقد ہوا جس میں تمام عہدیداران نے وطن کی مٹی کو ہاتھوں میں لیکر اپنی جان اور وفاداری کی قسم کھائی جس پر چلتے ہوئے مقبول بٹ نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اور امان اللہ خان بھی اپنی طبعی موت مر گئے لیکن اس وعدے سے پیچھے نہیں ہٹے 1966کو اس نئی جماعت کے پہلے اجلا س میں امان اللہ خان ، مقبول بٹ کے علاوہ گلگت سے اورنگزیب نامی جوان بھی شامل تھے جس کو خودمختار کشمیر کی جدوجہد میں پہلے شہید کا اعزاز حاصل ہوا۔

جموں کشمیر محاز رائے شماری کے ممبران نے ہی 1970کے قریب جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ نامی تنظیم قائم کی اس تنظیم نے اسی سوچ کے تحت انڈیا کے گنگا نامی جہاز کو اغوا کیا جس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے جسم کو دوبارہ روح مل گئی اس ہائی جیک کے دوران حکومت پاکستان نے بھی بھرپور سپورٹ کیا بعدازاں 1971کو نیشنل لبریشن فرنٹ و محاز رائے شماری کے 350کے قریب ممبران کو گرفتار کیا گیا جبکہ مقبول بٹ سمیت 6افراد پر ہائی جیکنگ کیس کا مقدمہ چلایا گیا نومبر 1970کو امان اللہ خان گلگت بلتستان کے عوامی حقوق مانگنے کی پاداش میں جیل میں بند تھے بعد ازاں انہیں مشہور تخت مشق شاہی قلعہ لاہور منتقل کیا گیا جو کہ جسمانی زہنی اور مختلف قسم کے تشدد کے حوالے سے مشہور تھا اور یہی سلوک امان اللہ خان کے ساتھ کیا گیا۔

1977میں لندن میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا جس نے پہلا مطالبہ کیا کہ منقسم ریاست جموں کشمیر کی تمام اکائیوں جن میں وادی کشمیر ، جموں ، لداخ ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں کو باہم ملاکر ایک خودمختار ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے برطانیہ سے نکل کر یورپ ، امریکہ ، مڈل ایسٹ اور آزاد کشمیر میں تنظیم کی شاخیں قائم کی گئیں جبکہ 1987کو مقبوضہ کشمیر میں بھی اس کی شاخ کھولی گئی اور نظریہ خودمختار کشمیر کو بڑے پیمانے پر عام کیا گیا اس حوالے سے ترتیب شدہ لٹریچر بھی جگہ جگہ اور ہر شاخ تک پہنچایا گیا بیرون ریاستی سفارتی سطح پر احتجاجی مظاہرے شرو ع کئے گئے اور 3اکتوبر 1983کو اقوام متحدہ کی Visitors Gallery میں مسئلہ کشمیر اور خودمختاری کے حق میں زبردست نعرے بازی کی گئی اور تمام مندوبین میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے اس نعرے بازی اور مظاہرے کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا اور مسئلہ کشمیر کی گونج بین الاقوامی سطح تک پھیل گئی مظاہروں کو جاری رکھتے ہوئے امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، ہالینڈ ، ڈنمارک اور جرمنی میں ایک ہی روز خودمختار کشمیر کے لئے نعرے بلند کئے گئے ۔

امان اللہ خان نے اپنے نظریات اور خودمختار کشمیر کے جنون میں ہر قسم کے مصیبتوں اور مسائل کا سامنا کیا سب سے پہلی گرفتاری 1948میں اس وقت ہوئی جب وہ نہم کلاس کے طالبعلم تھے ۔1970سے 1972تک وہ انڈین ایجنٹ ہونے کے الزام میں گلگت میں گرفتار ہوئے 1985میں آپ لندن میں گرفتار ہوئے جبکہ 1986میں آپ کو لندن سے ڈی پورٹ کیا گیا امان اللہ خان اور اس کے جان نثاروں نے 1988میں بھارتی فوج کی مقبوضہ کشمیر پر قابض ہونے کے خلاف باقاعدہ مسلح جدوجہد کیا۔1990میں بھارتی حکومت نے امان اللہ خان کا امریکی ویزہ کینسل کرادیا اور آپ کی گرفتاری کے لئے انٹرپول سے وارنٹ حاصل کیا جس کے نتیجے میں 1993کو انہیں بیلجیم سے گرفتار کیا گیا جب وہ یورپین یونین کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے موضوع پر ایک سیمینار میں شرکت کے لئے جارہے تھے اس تقریب میں فاروق عبداللہ اور بیلجیئم حکومت کے زمہ دار بھی شریک تھے جنہوں نے امان اللہ خان کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی بعدازاں بھارتی حوالگی کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے انہیں رہا کردیا گیا۔ لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے انہوں نے چار مرتبہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کو توڑنے کی کال دیدی 11فروری 1992میں چکوٹھی کے مقام سے لائن آف کنٹرول توڑنے کی کوشش میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں نے شرکت کی جس میں فوج کی فائرنگ سے 6نوجوان لقمہ اجل بن گئے

امان اللہ خان نے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر فورم پر آواز اٹھائی گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے انہوں نے 17مہینے اور10سلاخوں کے پیچھے گزاردئے جبکہ پچیس دن اڈیالہ جیل میں قید کاٹی جس میں آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی شامل تھے امان اللہ خان ،مقبول بٹ اور دیگر کو گلگت سے تین بار علاقہ بدر کیا گیا،1964میں گلگت بلتستان میں دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔گلگت بلتستان سے متعلق 3کتابچے اقبال جرم 1970،گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت 1987،اور گلگت بلتستان کا مستقبل 1965بھی لکھا جبکہ ان کی سوانح عمری میں جابجا گلگت بلتستان کے عوام اور سیاسی رہنماؤں کا زکر ملتا ہے جبکہ یوم آزادی گلگت بلتستان یکم نومبر کو اکثر و مضامین اور مطالبات پہنچاتے رہے ۔انہوں نے گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر کے متعلق پانچ کتابیں فری کشمیر 1970(انگریزی)،جہد مسلسل اول ، جہد مسلسل دوم ، جہد مسلسل سوئم اور انڈیپنڈنٹ کشمیر (انگریزی ) بھی لکھی۔

خودمختار کشمیر اور کشمیر کے عوام کے لئے جدوجہد میں امان اللہ خان نے اپنے زبان ، قلم ،زہن ،عمل اور جسم کو بھی زیراستعمال رکھا ان کی زبانی جدوجہد میں کئی ایسے تقاریر موجود ہیں جنہوں نے جدوجہد آزادی کو دوام بخشا 1979میں ہونے والی مسلم تحاریک آزادی کانفرنس میں انہوں نے خطاب کیا جس کے بارے میں اس وقت کے مشہور صحافی وارث میر (حامدمیر کے والد)نے نوائے وقت میں لکھا تھا کہ اس کانفرنس میں 3تقریریں انتہائی اہم اور تعمیری تھیں ایک سوڈان کے صدر پروفیسر صادق المہدی ، ایران میں فلسطینی تنظیم الفتح کے نمائندے اور امان اللہ خان کی تقریر۔1986میں انہوں نے اسیری کے دوران عدالتی بیان کے دوران بھی ہندومہاسبھائیوں کے فسادات کے دوران مسلمانوں پر مظالم کا پردہ چاک کیا تھا ۔2003کو جنوبی ایشیاکے آزاد میڈیا کی تنظیمSAFMAکی طرف سے اسلام آباد میں سیمینار منعقد ہوا جس میں پاکستان کے علاوہ بھارت کے سینئرسیاسی رہنماء و صحافی بھی شریک تھے اس سیشن میں کسی سیاسی رہنما نے تجویز دی کہ کشمیر کے تین ٹکڑے کئے جائیں لداخ اور جموں کو بھارت میں ضم کیا جائے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کیا جائے اس تجویز کی بھارتی صحافیوں نے بھی تائید کی اس سیشن میں امان اللہ خان نے اپنے دلائل سے اس تجویز کورد کردیا اور تجویز کنندگان بھی امان اللہ خان کی تجویز کو ماننے پر مجبور ہوئے اس کے علاوہ انہوں نے کئی بار UNOکے تقریبات میں شرکت کی 1979کو اقوام متحدہ کے مرکزی سیکریٹریٹ نیویارک میں فلسطین ، افغانستان اور دیگر ممالک کے رہنماؤں نے کے ساتھ پریس کانفرنس کی جس نے ایوانوں میں زلزلہ مچادیا ۔

امان اللہ خان حریت رہنما ہونے کے علاوہ صحافی ، مصنف اور شاعر بھی تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے سرینگر سے میٹرک پاس کیا کشمیریونیورسٹی کے زیر اہتمام ہونے والے اس امتحان میں انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔1852میں امان اللہ خان پاکستان آگیا FSc ڈگری انہوں نے پشاور سے حاصل کی نومبر 1952میں کراچی منتقل ہوا اس دوران امان اللہ خان کو کئی ماہ تک فٹ پاتھ پر بھی سونا پڑا لیکن حصول علم سے پیچھے نہیں ہٹے اپنے زاتی معاملات بھی ٹھی کرنے کے بعد 1957میں گریجویشن مکمل کرلی ۔

85سال کی عمر امان اللہ خان نے جہد مسلسل میں صرف کیا 1948سے 2013تک انہوں نے درجنوں تنظیموں سے وابستگی کرلی جن میں گلگت سٹوڈنٹس فیڈریشن پشاور ، گلگت بلتستان یونائٹڈ آرگنائزیشن کراچی ، گلگت بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی ، کشمیر سٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی ، کشمیر انڈیپنڈنس کمیٹی ، جموں کشمیر محاز رائے شامری ، جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ ، کشمیرکمیٹی برائے افریقی، ایشیاء اور لاطینی عوامی یکجہتی اور کل جماعتی کشمیر کمیٹی و دیگر شامل ہیں ۔

امان اللہ خان مرحوم نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے کئی قیمتی خطوط لکھے 1992کو نظریہ خودمختار کشمیر کے مخالفین کے نام کھلا خط ۔1999میں بھارتی عوام کے لئے کھلاخط۔1996میں پاکستان کے سیاسی اور صحافتی زعما کے نام کھلا خط، بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے نام کھلا خط(1998)،پاکستان کے حکمرانوں اور دانشوروں سے 4سوال (2001)، آرپار کی عوام کے نام کھلا خط 2004،پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کے نام کھلا خط (دو اقساط پر 2002میں ) سمیت کئی خطوط شامل ہیں ۔انہوں نے اپنا آخری خط بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کو مشترکہ خط لکھا جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے پر امن ، معزز اور پر اثر حل کے لئے اپنے تجاویز پیش کئے خط کے آخر میں انہوں نے دونوں وزرائے اعظم سے معافی مانگتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میں نے اپنے دستخط کے بجائے مہر کا استعمال کیا ہے جس پر معافی مانگتا ہوں کیونکہ میرا دائیاں بازوں بڑے عرصے سے مفلوج ہے ۔

امان اللہ خان طویل عرصے سے پھیپھڑوں اور دل کی بیماری میں مبتلا تھے منگل کے روز راولپنڈی میں انتقال کرگئے وصیت کے مطابق ان تدفین گلگت میں ہوگی ان کی وفات پر جموں کشمیر ، مقبوضہ کشمیر ، گلگت بلتستان اور پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا جبکہ جے کے ایل ایف کے چیئرمین نے اس دن کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button