کالمز

غیر معیاری اشیاء پر چھاپے

 تحریر محکم الدین ایونی

قربان جائیے اللہ تعالی کی ذات پر کہ اُس نے چترال کے لوگوں کو ایسے مضبوط اعصاب کا مالک بنایا اور قوت برداشت کے ساتھ پیدا کیا ۔کہ ان کی مثال کسی اور جگہ ملنی مشکل ہے ۔ان کے مضبوط اعصاب اور قوت ہاضمہ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ۔کہ جو اشیاء خوردو نوش اس ضلع میں لوگوں کو دستیاب ہیں ، اُن کو بطور خوراک استعمال کرکے گوشت پوست والے جانور نہیں بلکہ سٹین لیس سٹیل سے بنی مشین بھی مہینے یا سال برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے ۔ کہ یہ لوگ صحت کا ستیاناس ہونے کے باوجودان ناقص خوراک کے ایسے ذائقے اور مزے لے رہے ہیں ، گویا دونمبری خوراک سے فراہم ہونے والی سلو پائزننگ کا یہ عمل اُن کیلئے منشیات کے عادی افراد کی طرح جسم وجان کا حصہ بن چکا ہے ۔بھلا ہو موجودہ ڈپٹی کمشنر اور انتظامیہ کے دیگر آفیسران کا کہ انہوں نے اس کی طرف توجہ دی ہے ۔ اور زہر بیچنے والوں کے خلاف اقدامات کا آغاز کردیا ہے ۔ لیکن جس ملک میں ہر طرف گنگا اُلٹی بہہ رہی ہو ۔ اُس میں ایسی کوششیں سو فیصد بار آور کبھی ثابت نہیں ہو سکتیں ، اب جو تھوڑی بہت بہتری کی طرف قدم رکھا گیا ہے ، وہ بھی قابل تحسین ہے ، کیونکہ پیسہ نے لوگوں کے ایمان سے لے کر جسم و جان تک خریدنے کی ایسی راہیں ہموار کی ہیں ۔ کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے ۔ گلی کوچوں میں بننے والی خوراک کی مختلف اشیاء جن کا کوئی معیار نہیں ہوتا ۔ ڈبے پر اجزاء کے فرضی نام لکھ کر فروخت کئے جاتے ہیں ۔ اندرخدا جانتا ہے ، اور سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے جانتے ہیں ۔ کہ کن چیزوں کا ملغوبہ ہے ، لیکن پرا ڈکٹ تیار کرنے والے لوگ اتنے طاقت ور ہیں ،کہ معیار کو چیلنج کرتے ہوئے آپ جہاں بھی جائیں کامیابی اُن ہی کی ہوگی ۔ چترال میں غیر معیاری اشیاء و خوردونوش کی فروخت کو کنٹرول کرنے کیلئے انتظامیہ کی طرف سے مختلف سٹوروں پر چھاپے نہایت مثبت اور قابل تحسین اقدام ہیں۔ اور ان ہی کالموں میں انتظامیہ سے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی درخواستیں کی جاتی رہی ہیں ۔دیر آید درست آید کے مصداق اب چھاپوں اور اپریشن کا آغاز کیا گیا ہے ۔ اور یہ عمل رکنا نہیں چاہیے ۔ اس پر ہمہ وقت نظر رہنی چاہیے ۔ غیر معیاری خوراک کی وجہ سے بڑے اور چھوٹے سب یکسان متاثر ہورہے ہیں ۔ خصوصاً چپس کے نام پر بچوں کو دیا جانے والا غیر معیاری خوراک جو گلی کوچوں میں حفظان صحت کے اصولوں سے کوسوں دور ناقص تیل یا چربی جس کے حلال ہونے پر بھی شک ہے ۔تیا کئے جاتے ہیں، اور خوشنما پیکنگ کرکے ہرگلی محلے کی دکانوں تک پہنچائے جاتے ہیں اور فروخت کئے جاتے ہیں ۔بعض پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کے اہلکار سکولوں کے اندر ہی یہ کاروبار سجائے ہوئے ہیں ۔ ان غیر معیاری چپس کی وجہ سے ایک طرف بچوں کاکھانے پر دل نہیں لگتا،صحت خراب ہوتی ہے ،تو خالی تھیلوں سے سکولوں کے احاطے میں پھیلنے والی آلودگی اس کے علاوہ ہیں ۔روزمرہ کے استعمال میں آنے والی اشیاء جن میں چائے ،گھی ، کوکنگ آئل،مصالحہ جات، نمک جو غیر معروف ناموں سے بازاروں میں موجود ہیں ۔ لوگ سستا سمجھ کر خرید لیتے ہیں ۔لیکن اُن کو اس بات کا شایدعلم نہیں ہے ۔ کہ اس سستی خوراک سے کئی ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ، جن پر خریداری میں بچت کی گئی رقم سے کئی گنا زیادہ صحت پر خرچ کرنی پڑتی ہے ۔چترال میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کے مطابق امراض قلب ، معدے کی بیماریوں ، بلڈ پریشر وغیرہ امراض میں مسلسل اضافہ غیر معیاری اشیاء خوردو نوش کا استعمال ہے ۔ جن کی چترال میں بر مار ہے ۔اس لئے ضلعی انتظامیہ نے بازاروں میں غیر معیاری اشیاء کی فروخت کے خلاف چھاپوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ۔ وہ قابل تحسین ہے ۔ اور یہ عمل مسلسل کیا جانا چاہیے ۔

 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button