کالمز

ان کو انصاف کون دلائے گا

قرآن کریم نے سود کو حرام اور اس کے ارتکاب کو بدترین ظلم قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو اس لعنت سے بچنے کے لیے تاکید اور بعض روایات میں سخت وعید موجود ہیں۔جس طرح اسلام نے انسانی زندگی کی تمام پہلو کا احا طہ اور رہنمای کی ہے اسی طرح شفاف مالی نظام اور بہتر ین کاروباری طریقہ کار کو بھی وضح کیا ہے۔مگر ہم مغربی نظام پر انحصارکر کے اسلام کے سنہرے اصولوں سے انحراف میں کامیابی سمجھتے ہیں۔ جس عمل کو اسلام نے چودہ سو سال قبل ظلم عظیم قرار دیا تھا اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکے ہیں مغربی سودی نظام میں پھیر بھی انصاف کے عنصر موجود ہیں۔مگر ہمارے یہاں حیلہ بہانے اور جواز پیدا کرنے والے گلی کوچوں کے خودساختہ نظام کے اندر ہزار کفر چھپے ہیں۔مسلمان ہوکر بھی ہم غیر مسلموں کے سودی نظام سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔مسلمانوں کے اپنے افعال و کردار سے اس کے ارد گرد کے مسلمان بری طرح متاثر ہیں۔معاشرے کا ہر دوسرا شخص اس تاک میں بیٹھا ہے کہ کس طرح کوی غریب اس کے جال میں پھنس جاے۔ علما کے وعظ نصیحت تقریرو تحریر سبھی ان ظالموں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں۔ظلم و جبر کا ایسا طریقہ اپنا رکھا ہے کہ جس سے کفر بھی شرما جاے۔ان کے فسق و شر کا نشانہ ہمیشہ اسے غریب اور مفلوج الحال لوگ بنتے ہیں جو زمانے کے رحم و کرم ہوتے ہیں۔یہ اسے لوگوں کو جھانسہ دیکر اپنے جال میں پھنسا دیتے ہیں جوغربت اوربھوک و افلاس سے نڈھال ہوتے ہیں۔ ان کی غربت سے فایدہ اٹھاکر معمولی قرضہ انتہای گراں قدر شرایط پر معینہ متدت کے لیے دیتے ہیں اور اچانک مقررہ وقت سے پہلے قرضہ چکانے کے حکم کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور بچارہ غریب ہڈیوں کا ڈھانچہ سیٹھ جی کے قرض ادا کرنے کی سکت کہا ں رکھتا ہے۔تب سیٹھ صاحب کو رحم آتا ھے آٹھ دس گالیاں دیکراپنے انصاف و رحم دلی کی دوچار منگڑت کہانیاں داغ دیتا ہے اور اپنے بکریوں کے چرواہا کا معمولی زمداری بچارا غریب کو سونپ دیتا ہے۔ یا دریا کے کنارے سیلاب کے منہ میں ویرانے کی ایک من گندم پیدا کرنے والی زمین کی دہقانی کی عظیم زمہ داری اس کی مقدر ہوتی ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے معوم بچوں کی زمداری میں بھی ڈیرسارے کام آتے ہیں سیٹھ کی ڈانٹ ڈپٹ میں صبح سے شام تک بکریوں کے ریوڑ کو چراتے ہوے کیٰ سال گزار دیتا ہے اسی دوران مرنے اور جنگلی درندوں کے شکار بننے والی تمام بکریوں کا حساب بھی بچارہ چرواھے کی کھاتے میں لیکھ دیا جاتا ہے۔یا دہقانی کے نام پر صبح سے شام تک گنتی اور بلچہ سے زمین کھود کھود کر حالت غیر ہوجاتی ہے پھیر اچانک آنے والے سیلابی ریلہ کام تمام کر جاتا ہے ہموار کیے گیےٓ تمام کھیت بھہ جاتے ہیں پھیر ایک سے سو تک دوبارہ گنتی شروع ہوجاتی اسطرح کیی سال گزر جاتے ہیں اور غضب کی بات یہ ہکہ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی سیٹھ کی قرضہ اور تلخی میں کمی آنے کی بجاے ازافہ ہوتا جاتا ہے۔بچارہ غریب نسل در نسل غلامی کے شکنجے میں چلا جاتا ہے بلا آخر موت کا فطری زایقہ کا وقت آجاتا ہے علاج معالجہ تو دور کی بات ہے مرگ الموت کے انہتای مشکل وقت میں بھی اپنے زمداریوں کو پورا کرنا اس کیلے فرض عین ہوتا ہے،پہاڑ کے ٹیلے پر یا کھیتوں کے کنارے پر درد اور کرب کی حالت میں بچارے کی موت واقع ہوجاتی ہے اس کے برادری کے دوچار چرواھے اور ھاری نماز جنازے کے بعد عام امیروں کے قبرستان سے دور کہے ویرانے میں دفن کر آتے ہیں۔سیٹھ کو اس کے یتیموں اور بیوہ پر رحم کے بجاے مرنے والے کی زمداری بچنے والے لواحقین پر ڈال دیتے ہیں ا ور اسی طرح یہ نسل مفت کی خدمت گزاری میں اپنے آنے والے دو پشتوں کو بھی اس ظلم کی آگ میں دھکیل دیتے ہیں۔سنا تھا آقا اور غلام کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے مگر آج جاکر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ اب بھی آپنے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔مگر فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کوی نظام اور قانون اصول آیین نہ تھافاتح مفتوح کو غلام بناکر ان پر ظلم و جبر کرتا تھا.آب تو قانون نظام اور ادارے سبھی موجود ہیں پھیر بھی انسانیت کے اندر اتنی بڑی تفریق کیوں ہے؟یہ جو بغیر اجرت کے اپنی نسلیں گنوا دیتے ہیں ان کو آزادی کون دلاے گا؟ہمارے معاشرے کے اندر موجود ان سودخور ظالموں کا محاسبہ کر کے ٹرپتی سسکتی انسانیت کا مداوا کیسے ہوگا؟یہ جو چرواہیں اور محنت کش دہقاں ہمارے معاشرے میں گم سم اپنے کام میں مگن ہیں ان سے کیی تلخ داستانیں وابسطہ ہیں جو ہمارے نظام اور ادارں کے دعوں کا پول کھولنے کیلے کافی ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button