کالمز

چلتے چلتے ۔۔۔۔۔ کیا گلگت بلتستان میں کوئی لکھا ری نہیں؟ 

محبت علی قیصرؔ

گلگت کی لائبریری میں بیٹھا ہوں میرے سامنے گلگت بلتستان ے روزنامے ، ہفتہ روزے اور ماہنامے پڑے ہیں ۔ مطالعے کی میز پر میرے ارد گرد اور بھی لوگ بیٹھے ہیں ۔ اور اخبارات کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں ۔ یہ لائبریری گلگت شہر کی واحدلائبریری ہے ۔ جہاں علم سے محبت رکھنے والے آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں ۔ یہ لائبریری1881 ء سے قائم ہے یہ بڈلف ہاؤس کے نام سے بھی جانی جاتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ یہاں 1877 ء میں ایک انگریز نمائیندہ جان بڈلف پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے آیا ۔ اور اس نے اس لائبریری کی عمارت کو اپنی رہائش گاہ کے لئے تعمیر کروایا ۔ اور اس میں رہائش اختیار کی ۔ آپ کتابوں کے دلدادہ اور علم دوست انسان تھے اس نے کئی کتابیں گلگت بلتستان کے بارے میں لکھی ہیں ۔ آپ نے اپنے اس رہائشی مکان میں باقاعدہ ایک لائبریری قائم کیا تھا ۔ اس کے جانے کے بعد مقامی حکومت نے اس کو باقاعدہ لائبریری کا درجہ دیا ۔ جو آج ہمارے سامنے ہے ۔ خیر ہم محو مطالعہ اخبار تھے ۔ ایک صاحب تھے جو ان مقامی اخباروں کو جلدی جلدی کھول کر دیکھتے اور اسے رکھتے پھر دوسرا اٹھاتے پھر اسے بھی رکھتے اور تیسرا اٹھاتے آخر اس کی اس جلد بازی اور بے قراری کو دیکھ کرمجھے سے رہا نہ گیا ۔ میں نے پوچھا بھئی تجھے کیا جلد بازی ہے تجھے کس چیز کی تلاش ہے کیا کسی اخبار میں کوئی اشتہار دیا تھا ۔ جو اخبار کھول کھول کر دیکھتے ہو اس نے بیزاری سے جواب دیا نہیں میں نے کوئی اشتہار نہیں دیا ہے ۔ میں ان اخبارات میں مقامی لکھاریوں کے کالم دیکھنا چاہتا ہوں مگر کسی اخبار میں بھی کسی مقامی لکھاری کا کوئی کالم موجود نہیں ہے ۔ تجھے پتہ ہے پورے اخبار کا مطلب ادارئے اور کالموں میں ہوتا ہے ۔ میں اندر کے صفحات پر لکھے کالم پڑھنا چاہتا ہوں ۔ مگر کیا گلگت بلتستان کا کوئی مقامی لکھاری نہیںیہ لوگ اتنے رنگ برنگے اخبار نکالتے ہیں اور کسی ایک اخبار میں بھی کسی مقامی لکھاری کا کالم دینا گوارا نہیں کرتے ہیں ۔ سارے اخباروں میں پاکستان کے پرانے اخباروں کے شائع شدہ کالم یہاں دوبارہ شائع کئے گئے ہیں ۔ ہمارے یہاں ان گنت مسائل موجود ہیں یہ دیکھو ہم نے کیا کرنا ہے ڈاکٹر عافیہ کی آزادی سے جب کہ ہم خود غلام ہیں ، ہم نے کیا کرنا ہے صوبہ بلوچستان سے ہم خود صوبے کے بغیر جی رہے ہیں ۔ ہم نے کیا کرنا ہے وزیر قانون پنجاب کی باتوں سے کہاں گیا ہے ہمارا وزیر قانون یہاں کو ن سی قانون کی عملداری ہو رہی ہے تو ہم ان کے وزیر کی باتیں پڑھیں ۔ یہ دیکھو کارگل نام کا ایک ماہنامہ ہے خود کارگل اور استور اتنے خوبصورت ہیںیہ ان کو چھوڑ کر سوات اور کشمیر کی خوبصورتی کا زکر کرتے ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ یہ دیکھو K2 ، ہم جانتے ہیں ، بلکہ مانتے ہیں کہ یہ گلگت بلتستان کا بڑا اورسب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے اس کے ایک کونے میں چھوٹا کرکے لکھا گیا ہے ہم نئے لکھنے والے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرینگے ۔ اس پتے پر اپنے کالم ہمیں بھیجیں ۔ مگر معلوم نہیں جو ایڈریس دیا گیا ہے ۔ شائدوہ کچرہ بن کا ہے ، ہر نئے لکھاری کا کالم اسی میں جاتا ہوگا۔

یا تو اپنا نام بدل یا کاجل لگانا چھوڑ دے
یا تو خود مغرور نہ ہو یا یا تل کو کالا ہی نہ کر

یا مقامی لکھاری کے کالم کو جگہ دینی چاہئے یا اس چھوٹے سے اشتہار کو ہی اٹھانا چاہئے ۔ یہاں کتنے مسائل ہیں ارے بھائی اگر اقتصادی راہ داری کا کالم آپ کو چھاپنا ہے تو وہ کالم چھاپو جوگلگت بلتستان کی حق طلفی ہو رہی ہے ۔ جہاں گلگت بلتستان کی بات ہو رہی ہو ہمیں کیا تعلق کہ KPK یا بلوچستان میں اقتصادی راہ داری سے ، ارے بھائی دہشت گردی اور امن و امان کی بات کرنی ہے تو یہاں کی کر یہ علاقہ کتنا اس آگ میں جلا ہے ۔ اب جاکر کچھ سکون نصیب ہوا ہے ۔ اختیارات کی بات کرنا ہے تو اپنے اس محکوم علاقے کی کر کیوں آپ کشمیر کی خوشنودی پر لگے ہوئے ہو ۔ ارے بھائی دیار غیر کے لوگ آپ کی دھرتی سے کوئی لین دین نہیں رکھتے ہیں تو تمہارے اس پارچے سے کیا واسطہ رکھیں گے ۔ آپ کے اخبار کو تو کوئی جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتا ہے ۔ اور اسے پڑھتا بھی نہیں ۔ ارے بھائی خدارا اس زرد صحافت سے نکلو انگلی کی نوک کو قلم اور خون جگر کو سیاہی بناؤ بھائی صرف تلوار ولا مجاہد نہیں ہوتا قلم والا بھی تو بڑا مجاہد ہے ۔ آپ یہاں کی لوٹ کھسوٹ کو عوام کے سامنے لاؤ یہاں ہونے واے مظالم کے سد باب کے لئے لکھو یہاں کی نا انصافیوں پر بات کرو ۔ یہاں کی محرومیوں کا تزکرہ کرو اپنی دھرتی کی خوشحالی کے لئے جدوجہد کرو۔

آپ نے ایک قدم اٹھایا ہے تو کم ازکم مقای لکھاریوں کو بھی اپنے قدم کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھنے کی تر غیب دو ان کی آواز کو بھی کنوئیں سے باہر لانے میں ان کی مدد کرو ۔ اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرو ۔یہ کیا پہلے سے شائع شدہ ایک کالم جو اب پھیکا پڑ چکا ہے اسے شائع کرتے ہو ۔ صرف یہی نا اس پر پیسہ خرچ نہیں ہوتا آڈٹ کرنے کی یا کمپوزنگ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بس نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا بغیر دیکھے اخبار میں چھاپا یہ تو آپ کی بہادری نہیں ہوئی نا ۔ آپ مقامی لکھاریوں کی بھی آڈٹ نہ کرو کمپوزنگ بھی نہ کرواؤ وہ خود اس کو کمپوز کراکے آپ کے پتے پر میل کرینگے اگر ان کے لئے آپ کے اندر ہمدردی ہو تو؟۔ وہ بے چارے تو ایک کالم لکھ کر میل کرکے خوش ہوتے ہیں بس نہ کسی پیسے کی لالچ نہ مزدوری کی ڈیمانڈ ، کالم چھپا یہ ان کے لئے سب سے بڑا انعام ارے بھائی پاکستان کے بڑے بڑے لکھاری اپنا کالم تو کیا اپنا ہر حرف بھجنے کے چکر میں ہوتے ہیں ۔ ہمارے ان سیدھے سادھے لکھاریوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس طرح کوئی کالم لکھنے سے اس کا بھی کوئی پیسہ ہوتا ہے ۔ لکھا چھپ گیا تو دیکھا اور خوش ہوئے اور اخبار والوں کو دعائیں دی بلکہ دوستوں کو دکھانے کے لئے دو چار اخبار اضافی بھی خریدا اور اسی خوشی میں دوستوں میں تقسیم کیا ۔ اب مجھے پتہ ہے کہ ایسی باتوں سے بھرا اگر میں ایک کالم لکھ کر میل بھی کروں تو کسی بھی اخبار والے نے نہیں چھاپنا ہے ۔ کیوں کہ میں نے الفاظ ایسے استعمال کئے ہیں جو کہ حقیقت پر مشتمل ہیں ۔

میرے سامنے بیٹھے اس شخص کی اس ساری تقریر سے میرے کان پک گئے اور میں اپنی جگہ سے اٹھا ، باہر نکلا مگر ان سوچوں کے ساتھ کہ کیا یہ ہمارے گلگت بلتستان کے اخبار جو درجن سے زیادہ ہیں ہم لکھاریوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے ہیں ۔ کیا یہ بڑا ظلم اور فریب نہیں ہے ۔ کہ ہمیں چھوڑ کر پاکستانی لکھاریوں کے کالم اپنے مقامی اخبارات کی زینت بناتے ہیں۔خدا را خدا را ایسا نہ کرو ہمارے نام نہاد بے اختیار نمائیندوں کی طرح آپ بھی اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے گن نہ گاؤ ، اس طرف بھی نظر کرو اور غیر مقامی لکھاریوں کو چھوڑ کر اپنوں کو موقع دو تاکہ آپ کے علاقے کے مسائل بھی اجاگر ہوں اور اخبار کی توقیر بھی بڑھے ۔ اس کے علاوہ مقامی لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ قلم کے جہاد میں بھی اضافہ ہو اور ان میں سے کسی ایک کی بھی آواز اوپر تک پہنچ جائے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button