کالمز

لانگ مارچ کا فیصلہ۔۔بہتر حکمت عملی شرط ہے

پاکستان کی تاریخ میں اگر لانگ مارچ کا ذکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ لانگ مارچ کا پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کبھی لانگ مارچ کے نتیجے میں کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا، البتہ ماضی میں لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکوں نے پاکستان کے سیاسی افق پرکئی گہرے اثرات مرتب کئے۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ 1958ء خان عبدالقیوم خان نے اسکندر مرزا کی حکومت کے خلاف کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کا اقتدار فوجی جرنیل ایوب خان کے ہاتھ میں چلا گیا اور پاکستان میں فوجی حکومت رائج ہوگئی۔ لیکن اگر ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں تو دھرنے اور لانگ مارچ کی سیاست سے ہمارے عوام دور رہنے کو ہی عافیت سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا خطہ آذادی کے کئی دہائیاں بعد بھی بنیادی سیاسی اور آئینی حقوق سے محروم ہیں۔ میرے خیال سے اس عوامی سیاسی اور سماجی لاشعوری کے ذمہ دار ہمارے مقامی سیاست دان ہیں جنہوں نے کبھی اس قوم کی سیاسی تربیت نہیں کہ بلکہ اگرکسی نے قوم کو سیاسی شعور دلانے کی کوشش کی تو بھی منتظمین خطہ نے ہمیشہ زدکوب کیا جس کی واضح مثال سید حیدر شاہ مرحوم ہیں جنہوں نے ذاتی زندگی قوم کو بیدار کرنے پر وقف کیا لیکن شہید کو مرنے کے بعد دو گز زمین تک نہ ملا کوئے یار میں۔گلگت بلتستان ایک طرح سے مسائلستان کہلاتے ہیں یہاں اعلانات کی بھرمارہیں لیکن عملدرآمد بلکل نہیں۔ ہم نے سکردو آئرپورٹ کو آل ویدھر اور بین الاقوامی حیثیت کا درجہ ملنے کے وعدے اور اعلانات سُنے ، بلتستان یونیورسٹی بھی الیکشن کے دنوں میں بنتے دیکھا،سیاحت کی فروغ کیلئے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کیباتیں بھی ہوئی ، سی پیک میں حقوق ملنے کی باتیں کرتے دیکھا اور جب سے ہم نے ہوش سنبھالا اس خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنتے دیکھ رہا ہوں لیکن جب قوم صرف وعدوں پر خوش ہو کر بھنگڑے ڈالنے والے ہو ایسے میں کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اعلانات پر عملدرآمد کیلئے بھی کچھ سوچ بچار کریں۔یہ تو ہوگئی معاشرتی بے حسی کا مرثیہ جسے ہم روز پڑھ اور سُن کر رونے کے بجائے ہنستے ہیں ۔یہی معاملہ سکردو روڈ کی تعمیر کے حوالے سے بھی ہے لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف نظرآتا ہے کیونکہ کہا یہ جارہا ہے کہ اس روڈ کی تعمیر کے حوالے سے حکومت کی جانب سے مسلسل جھوٹ بولنے اور اس سڑک پر بڑھتے ہوئے حادثات کے سبب انسانی جانوں کا ضیاع اور حکمران طبقے کا اس حوالے سے مکمل خاموشی پر سول سوسائٹی بلتستان نے گلگت کی طرف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ لانگ مارچ کس حد تک کامیاب ہونگے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اس لانگ مارچ میں اگر نون لیگ والے بھی شامل ہوتے ہیں تو سمجھ لیں لانگ مارچ کو ناکام بنانے کی سازش ہے، نون لیگ بلتستان کا اس لانگ مارچ میں شامل ہونے کا فیصلہ جو کہ ابھی تک حتمی نہیں لیکن یہ فیصلہ عوام کی انکھوں میں جھونک ڈالنے کے مترادف ہونگے۔کیونکہ حکومت اور اتحادیوں کو سکردو روڈ کی تعمیر کے حوالے سے ذرا بھی فکر ہوتی تو اخباری بیانات اور بے اختیار اسمبلی میں قرداد پیش کرنے کی دنیا سے باہر نکل کر عملی میدان میں آتے جوکہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے اراکین قانون ساز اسمبلی کیلئے ممکن نہیں کیونکہ اقتدار بار بار ملنے والی چیز نہیں اور اس مزے کو دوبالا کرنے کا بہترین طریقہ اخباری بیانات میں ایشوز کو زندہ رکھنا ہے۔ اگر بلتستان سے تعلق رکھنے والے اراکین واقعی میں قوم کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں تو اب تک عہدوں سے استفاء دیکر عوام کو سڑکوں پرلے آنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے جیسے اوپر ذکر کیا کہ جب کوئی ایشو حکمران طبقے کی ترجیحات میں شامل ہی نہ ہو تو اعلانات پر عملدرآمد نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔اس سڑک کی تعمیر کے حوالے سے ماضی بعید میں جائے بغیر اگر ہم سابق حکومت سے بات شروع کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ مہدی شاہ حکومت بھی پا نچ سال کے عرصے تک یہی کہتے رہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کی یقین دہانی کروائی ہے جس کے تحت تقریباًاسی فیصد فنڈز ایشیائی ترقی بینک جبکہ صرف بیس فیصد فنڈز وفاقی حکومت برداشت کرے گی ،اور یہ بھی کہا گیا کہ معاہدے کے مطابق حکومت نے اپنے حصے کے بیس فیصد رقم سے منصوبے کا آغاز کریں گے لیکن بدقسمتی وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔ جس کی خاص وجہ مقامی اور وفاقی بیورکریسی کی عدم دلچسپی اور عوامی نمائندوں کی نااہلی کے ساتھ متعلقہ ادارے کے ذمہ داران کے ساتھ کمیشن کا فکس نہ ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔ سکردو روڈ جہاں بلتستان کے عوام کیلئے موت اور زندگی کا مسلہ ہے بلکل اسی طرح دفاعی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔دنیا کی بلند ترین محاذجنگ سیاچن، دنیا کی اہم ترین بلند پہاڑی سلسلے و چوٹیاں، کے ٹو،شنگریلا،دیوسائی اورکارگل سے ملحق اہم علاقے یہاں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ جب عسکری ضرروریات کیلئے جب مشکلات پیش آتے ہیں تو خصوصی طور پر عسکری ہیلی کاپٹرز کے ذریعے لاجسٹک کی سپلائی کی جاتی ہے لیکن عوامی ضروریات کا کوئی پرسان حال نہیں ۔اس سڑک کی خستہ حالی کے سبب حادثات پیش آنا اب معمول بن چکی ہے لیکن حکومت وقت کے کانوں کوئی خبر نہیں ہوئی کیونکہ یہ عوامی مسلہ ہے ۔موجودہ حکومت بھی اگر اس سڑک کی تعمیر کے حوالے سے مخلص ہوتے تواس وقت اراکین قانون ساز اسمبلی کو چاہئے تھا وعدوں پر علمدرآمد کیلئے اسلام آباد میں ڈھیرے ڈالیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد نمائندگان کے حوالے سے ایک خاص بات مشہور ہے کہ یہ لوگ صرف مراعات کیلئے اسلام آبادکے چکر لگاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ سکردو روڈ کی تعمیر وفاق کی پہلی ترجیحات میں شامل ہیں اور اس روڈ کی تعمیر کیلئے ایشائی بنک کے بجائے ایک چینی ایگزام بنک پچاسی فیصد فنڈنگ کریں گے اور باقی پندرہ فیصد وفاقی حکومت برداشت کرے گی اور ہنگامی بنیادوں پر اس سڑک کی سنگ بنیاد رکھی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی حکومت کی تشکیل کے بعد داخل دفتر ہوگئی لیکن حکومتی اراکین اخباری بیانات کے ذریعے عوام کو لوریاں سُنا رہے ہیں۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سڑک مقامی سیاستدانوں کی نااہلی کے سبب آج بھی مقامی اور غیر مقامی بیورکریسی کی بلتستان دشمنی اور سازشوں کا شکار ہیں لیکن بدقسمتی سے مقامی ارباب اقتدار چونکہ وفاق میں اس حوالے سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر شور مچانے کی اتھارٹی نہیں رکھتے جس کے سبب بس عوام کو باتوں اور تقریریوں میں عوام کو الجھایا ہوا ہے ۔ سول سوسائٹی کے ممبران کا یہی کہنا ہے کہ اس الجھن نے اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کہ کیا کہ اب عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے یوں یہ لوگ اس وقت عملی طور پر امور زندگی کے تمام ذمہ داران کو اس حوالے سے بریفنگ دینے اور عوامی اگہی مہم میں مصروف عمل ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے بہت جلد آل پارٹیز کانفرنس بھلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو قومی ضرورت کے پیش نظرسیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر باقاعدہ طور پر غیرسیاسی لانگ مارچ میں شامل ہونے کی دعوت دینگے۔میری ذاتی رائے میں سول سوسائٹی کو چاہے کہ پورے خطے کی سطح پر اس مہم کو چلائیں اور گلگت کے دیگر اضلاع کے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت نامے دیں تاکہ یہ لانگ مارچ ایک تحریک بن سکے اور سکردو گلگت روڈ کے ساتھ ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی، سی پیک ،سکردو کرگل روڈ اور دیگر اہم قومی مسائل پر بھی بات ہوسکے۔ آخر میں میری تمام ترنیک تمنائیں اور دعائیں ہر اس شخص کے ساتھ ہیں جو دھرتی ماں میں جاری ظلم استحصال کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرے۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button