کالمز

‘‘میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے’’

تبصرہ:  سید انور محمود

دوستوں بروز بدھ 20 جولائی 2016 خوبصورت اور جدید لہجے کے شاعر جناب جبار واصف صاحب کے لیے ایک بہت ہی یاد گار دن  تھا،  اس دن جبار واصف صاحب کے شعری مجموعے”میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے” کی تقریب ِ رونمائی”الحمرا ادبی بیٹھک لاہور” میں ہوئی، مشہور شعرا اورادب سے تعلق رکھنے والے احباب نے اپنی شرکت سے تقریب کو چار چاند لگادیے۔ محترم دوست جبار واصف کا تعلق رحیم یار خان سے ہے، آپ ایک  ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبار واصف رحیم یار خان ادبی فورم کے صدر ہیں،  آپ کا شمار اچھے شعرا میں ہوتا ہے، ساتھ ہی آپ ایک اچھے مصنف اور سوشل ورکر بھی ہیں۔ 25 جولائی کو مجھے جبار واصف صاحب کے شعری مجموعے کی کاپی موصول ہوئی جو حقیقتاً میرئے لیے ایک اعزاز کی بات ہے،  میں واصف صاحب کی اس عزت افزائی کا   دل کی گہرایوں سے  ممنون ہوں۔ جبار واصف شاعر تو اس وقت ہی بن گے تھے جب  وہ  صرف 13 سال کے تھے اور آٹھویں کلاس کے طالب علم ، تب انہوں   نے اپنی بہن کے گھر میں ہونے والی چوری کو منظوم کیا تھا۔ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے جبار واصف  کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ اس کی مادر علمی کو گوشت، سبزی اورفروٹ کی مارکیٹ بنا دیا، پاکستان کے جاگیرداروں اور سرکاری حکام کے نزدیک ان اسکولوں کی ہمارئے ملک میں قطعی ضرورت نہیں ہے جبکہ یہ ظلم ایک شاعر پر ہوا تھا لہذا وہ جبار واصف سے انقلابی جبار واصف بن گیا، اس کتاب پر تین  بڑی علمی شخصیات  نے تبصرہ  کیا ہے، جناب نصیر ترابی، جناب محمود شام اور  جناب باقی احمد پوری صاحب،تینوں صاحبان ادبی حلقوں کی پہچان ہیں، نصیر ترابی  کہتے ہیں ‘‘جبار واصف میں شاعر ہونے کی سکت  اپنی بصیرت کے مطابق موجود ہے، میری دعا ہے کہ میرئے اورآپکے درمیان آج کا واصف  آنے والے کل کا موصوف ہو’’، باقی احمد پوری فرماتے ہیں ‘‘غزل ہو یا نظم ، جبار واصف کی سوچ کے زاویے مختلف ہیں، اس کے موضوعات جداگانہ ، اس کا اسلوب نگارش منفرد اور اس کا لہجہ کاٹ دار ہے، پر تاثر ہے ، سادہ ہے’’، محترم محمود شام کہتے ہیں‘‘جبار واصف کا لہجہ جدید و قدیم کے درمیان اپنا ایک الگ راستہ بناتا نظر آتا ہے۔غزل ہو یا نظم ، جبار واصف کا تخیل ہمیں ایسی ان دیکھی دنیاوں میں لے جاتا ہے جہاں ہم اپنے آپ کو آئینوں کے سامنے پاتے ہیں اور اپنی حقیقت جان کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں’’۔

جبار واصف نے اپنے شعری مجموئے ‘‘میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے’’ میں ارتقا،  نعت رسول مقبول،  ہدیہ عقیدت بحضور سیدنا حضرت امام حسین کے ساتھ ساتھ 77 موضوعات کو چنا ہے جن میں بے شمار نظمیں ہیں۔ واصف صاحب   نے ماں،    بیٹی، بیوی، کے علاوہ کراچی والے، یوم مزدوراور سانحہ پشاورپر بھی اشعار کہے ہیں۔ یہ پورا شعری مجموعہ پڑھنے کے قابل ہے، اپنے اس تبصرئے کو جبار واصف کے ایک بہت ہی خوبصورت شعرپر ختم کرونگا جو انہوں نے اپنی والدہ کےلیے  لکھا ہے، وہ کہتے ہیں: اس ہستی کا ذکر ضرور کرونگا جس کے قدموں تلے میری جنت ہے:۔

جواں ہوا ہوں میں شیشم کی چھاوں میں واصف
کہ باپ بن کے مجھے میری ماں نے پالا ہے۔

اگر آپ واقعی کوئی اچھا  شعری مجموعہ پڑھنا چاہتے ہیں تو پھر جبار واصف کے شعری مجموعے ‘‘میری آنکھوں میں کتنا پانی ہے’’، ضرور پڑھیے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button