دردانہ شیر
گلگت بلتستان میں غریب عوام کی جمع پونجی لوٹنے کے لئے بعض نوسربازوں نے متعدایسے ادارے قائم کھول دئیے ہیں جنہوں نے بھاری منافع کا جھانسہ دیکر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اورشہیدا کے ورثا سے کروڑوں روپے بٹور لیے ان نام نہاد اداروں میں گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالی سکینڈل بگ بورڈ کی شکل میں ایک ایسا ادارہ سامنے آیا اس ادارے سے وابستہ افراد نے گلگت بلتستان کے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر زمیں اپنے دفتر قائم کیے اور ان دفتروں کا افتتاح بھی ایسے افراد کے ساتھ کرایا گیا جن کی وجہ سے کسی کو ذرابھر بھی یہ توقع نہیں تھی یہ ادارہ بھی یہاں کے غریب عوام اور کارگل کے شہداء کے ورثاء کے کروڑوں روپے ہڑپ کر جائے گا مگر ہوا یہ جسکا لوگوں نے یقین کیا تھا شروع شروع میں اس ادارے میں جن افراد نے رقم جمع کروائی تھی ان افراد کو ادارے نے حسب وعدہ منافع بھی ادا کیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد اصل حقیقت سامنے آئی جب ادارے کے چہرے سے نقاب ہٹایا گیا تو صرف فراڈ ہی فراڈ نظر آیا گلگت بلتستان کے صدر مقام گلگت میں بگ بورڈ کا افتتاح اس وقت چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے کیا تھا جبکہ غذر میں اس ادارے کی افتتاح کا اعزازسابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹوو ممبر قانون ساز اسمبلی پیر کرم علی شاہ کو نصیب ہو ا انھوں نے افتتاح کے بعد ادارے کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کردیااب پیر جس ادارے کی تعریف کرے لوگ وہاں رقم جمع نہ کرائے یہ کیسے ہوسکتا ہے گلگت بلتستان میں بگ بورڈ نے 21کروڑ روپے بھاری منافع کا لالچ دیکر غریب لوگوں سے وصول کیا ان میں زیادہ تعداد کارگل جنگ میں شہید ہونے والے شہدائے کارگل کے ورثاء کی تھی جن کو حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے ملے تھے ان میںیتیم بھی ہے،بیوائیں بھی،اور ضیعف العمر والدین بھی،اس ادارے نے ان سپوتوں کے والدین کو بھی نہیں بخشا گزشتہ دس سالوں سے رقم کے حصول کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں بھاری منافع کا لالچ دیکران سے رقم حاصل کرنے کے جتنے ذمہ دار اس ادارے کے اہلکار ہیں اس سے بھی زیادہ علاقے کے وہ سفید پوش ہیں جنہوں نے متاثرین کو بھاری منافع کا لالچ دیکر انہیں بگ بورڈ میں رقم جمع کرانے پر مجبور کیا کہا جاتا ہے کہ جو سفید پوش اندرون خانہ ادارے کے لیے کام کرتے تھے فی لاکھ پر ادارہ ان کو معقول کمیشن دیتاتھا یہ بات کہاں تک درست ہے اس کی اصل حقیقت تو تحقیقات کے ساتھ ہی سامنے آئے گی اور کئی سفید پوش عوام کے سامنے بے نقاب نگے اس سلسلے میں حقیقت سامنے آنے پر وقت تو لگے گا مگر لوگوں کو وہ چہرے نظر آجائیں گے تو پتہ چلے گا کہ جن لوگوں نے ان سے ہمدردی کے نام پر رقم جمع کروائی وہ کتنے ہمدرد ہیں حکومت کے وہ ادارے جوان چیزوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے تعینات ہیں 21کروڑ روپے کا تاریخی سکینڈل سامنے آنے پر خاموش کیوں ہیں کیا ان کو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے جب 2002کوپنجاب کواپرییٹوسکینڈل میں غریب عوام کے اربوں روپے ڈوب گئے ان متاثرین کو قسطوں پر متاثرین کو رقم ادا کر دی گئی مگر بڑے آفسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ کرگل کے شہیدا اور غریب ریٹائرڈ ملازمین کے کروڑوں روپے دس سے بارہ سال گزرنے کے باوجود بھی واپس نہیں ہوئے کہ گلگت بلتستان خصوصا ضلع غذر میں روز بروز کواپرییٹو سوسائٹی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے چند بااثر افراد نے ضلع کی چاروں تحصیلوں میں کواپرییٹو ساسائٹیوں کے دفتر کھولے ہوئے ہیں جہاں کروڑوں کا لین دین ہورہا ہے ان بااثر افراد نے غریب عوام کو بھاری منافع کا جھانسہ دیکر کروڑوں روپے ان سوسائیٹوں میں جمع کرورہے ہیں اور اس رقم سے بعض افراد نے اپنے لیے گلگت میں پلاٹ خریدے ان افراد نے کارگل کے شہداء کو بھی نہیں بخشا حکومت کی طرف سے کارگل کے شہداء کو ملنے والی رقم ان سوسائیٹوں میں جمع کرائے اب حالت یہ ہے کہ ان میں سے چند سوسائٹیا ں دیوالیہ ہوچکی ہیں اور ان سے رقم کی ریکوری کی کوششیں بھی ہورہی ہے جن بااثر افراد نے بھاری منافع کا جھانسہ دیکر غریب عوام سے جو رقم حاصل کی وہ اب زیر زمین چلے گئے ہیں حالانکہ ان سکینڈل کو کئی بار اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئی مگر تاحال حکومت کی طرف سے ان بااثر افراد سے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی بگ بورڈ نامی ادارے نے سب سے زیادہ رقم غذر سے بٹور لی اور ان کو دیکھا دیکھی بعض نام نہاد سو سائٹی نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے اب صورت حال یہ ہے کہ دس سے بارہ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی جن لوگوں نے کروڑوں روپے بگ بورڈ میں جمع کر ادیئے تھے ان کی یہ جمع پونجی تاحال واپس نہیں ہوئی اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہو اہے کہ حکومت نے بگ بورڈ کے کرداروں کو گرفتار کر نے میں کامیاب ہوگئی ہے اب اس سلسلے میں متاثرہ افراد اس انتظار میں ہیں کہ ان کی جمع پونجی کب واپس ملتی ہے اس کے علاوہ خطے میں اب بھی ایسے درجنوں سوسائتیز ہیں جو بھاری منافع کا لالچ دیکر لوگوں سے رقم بٹور رہی ہے اگر حکومت نے ان پر کنڑول نہیں کی تو ایک اور بگ بورڈ کاسیکنڈل سامنے اسکتا ہے اور غریبوں کی رقم ڈوبنے کا خدشہ ہے ۔۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button