کالمز

سی پیک ، آرمی چیف اور گلگت بلتستان

 تحریر : دیدار علی شاہ

چیف آف آرمی سٹاف جنر ل راحیل شریف حال ہی میں گلگت بلتستان کا دورہ کر چکے ہیں اور ان کے آنے سے ایک دن پہلے کچھ وفاقی وزرا بھی یہاں تشریف لائے تھے ان کے آنے کا مقصد سی پیک کے حوالے سے سمینار میں شرکت کرنا تھا جس کا انعقاد گلگت بلتستان حکومت اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے کی تھی، پہلے دن کے سمینار میں منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال ، سنیٹر مشاہد حسین اور وزیر اعلی گلگت بلتستان نے راہداری منصوبہ پرروشنی ڈالی اور گلگت بلتستان پر اس کے اثرات اور فوائد پر گفتگو بھی کی اور دوسرے دن سپہ سالار نے دبنگ انداز میں گلگت سے ان دشمن قوتوں کو واضع پیغام دیا جو اس راہداری منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔راہداری کے حوالے سے اس سمینار کا آغاز بلوچستان سے شروع ہوا پھر اسلام آباد میں اور اب گلگت بلتستان میں، اس کا مقصد دنیا کو یہ واضع پیغام دیناہیں کی اس منصوبے کو ہر حال میں اختتام تک پہنچا ئیں گے اور ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو اس کی اہمیت اور فوائدکے سلسلے میں آگاہی بھی ہو ۔

جس دن آرمی چیف گلگت میں موجود تھے اسی دن وزیر اعظم پاکستان بلوچستان میں موجود تھے یعنی پاکستان میں راہداری کے دونوں سرے پر بیک وقت دو شریف موجود تھے اس سے اندازا ہوتا ہیں کہ یہ ٹائمنگ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

گلگت بلتستان کے تاریخ، ثقافت،علاقائی اہمیت وغیرہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہیں بلکہ شروع ہی سے گلگت بلتستان تاریخ میں دفاعی اور تجارتی لحاظ سے دنیا میں ہمیشہ نمایاں رہا ہیں جس میں مختلف جنگہیں اور شاہرہ ریشم کا استعمال اور کردار قابل ذکر ہیں اس کی اہمیت ایک بار پھر اپنی اروج پر ہیں جب سے چین اور پاکستان اپنے راہداری منصوبہ یہاں سے گزارنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان دنیا کا وہ واحد علاقہ ہیں جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں کیونکہ ۱۹۴۷ سے پہلے یہاں پر ڈوگرہ حکومت کے ساتھ چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستیں ہوا کرتے تھے لیکن پاکستان آزاد ہونے کے بعد یہاں کے لوگوں نے اپنے مدد آپ کے تحت ڈوگروں کو بگا کر پاکستان سے الحاق کی تب سے اس کی کہانی کچھ اور ہیں یعنی متنازعہ علاقہ کہلاتا ہیں اس کی وجہ پاکستان اور ہندوستان کا کشمیر پر قبضے اورپھر اقوام متحدہ کے مطابق یہ متنازع قرار پایا اس کے بعد حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان کراچی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں گلگت بلتستان کا کنٹرول پاکستان کو دیا گیا۔

اس وقت گلگت بلتستان میں مختلف ترقیاتی کام جاری ہیں لیکن پاکستان کے آزاد ہونے سے ابھی تک جس طریقے سے یہاں پر کام ہونا چاہیے تھا وہ سابقہ حکومتوں میں نہیں ہوئے ہیں اور اب بھی ناکافی ہیں یہاں کے ہر ضلعے میں پسماندگی ہی پسماندگی ہیں اور ابھی کچھ کی حالت قدرے بہتر ہیں اس کی بھی وجہ غیر سرکاری اداروں کی محنت ہیں۔ یہاں کی اہم زریعہ معاش سیاحت اور معدنیات ہیں ملکی حالت اب بہتر ہونے کہ وجہ سے یہاں پر سیاحت کا شعبہ آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہوا ہیں لیکن معدنیات کے شعبے میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر کام نہیں ہورہا ہیں۔

کچھ سالوں سے یہاں پر سی پیک کوریڈور کی بات چل رہی ہیں گلگت بلتستان کے عوام صرف اس کے نام سے واقف ہیں انجام سے نہیں ۔۔۔لیکن ابھی چیف آف آرمی سٹاف نے خود آ کر اس منصوبے پر گلگت بلتستان کے عوام کو نوید سنائی ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے اس علاقے کی تقدیر بدل جائے گی ،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پوری پاکستان کا تقدیر بدل جائے گااب اس منصوبے کے تحت گلگت بلتستان میں فائبر آپٹکس پر حال ہی میں کام شروع ہو چکا ہیں جس سے اس علاقے میں بہترانٹرنیٹ کہ امید رکھی جا رہی ہیں اور گیس لائن ،ریلوے ٹریک بھی زیر غور ہیں اور ساتھ ساتھ اکنامک زون قائم کرنے کی بھی بات چل رہی ہیں اگر اس منصوبے سے یہ تمام چیزیں گلگت بلتستان کے لوگوں کو میئسر ہوئی تو یقناً اس علاقے کہ تقدیر بدل جائے گی لیکن شرط یہ ہیں کہ اگر اسے یہاں عملی طور پر انجام کو پہنچایا گیا ۔ آرمی چیف نے اپنے دورے کے دوران یہاں پر NUSTکے کیمپس قائم کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہے جو کہ خوش آئند بات ہے اور گلگت بلتستان کے نئی نسل ان کے شکر گزار بھی ہیں اور ساتھ ساتھ میڈیکل کالج قائم کرنے کے بھی بات چل رہی ہے جو کہ گلگت بلتستان کی اشد ضرورت ہیں۔

گلگت بلتستان میں ان تمام چھوٹے بڑے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے سے پہلے حکومت وقت کودوسرے پہلوں پربھی توجہ دینے کہ ضرورت ہیں وہ اس طرح کہ پہلے بھی ان کا ذکر کر چکے ہیں کہ یہاں پر سیاحت اور معدنیات کے علاوہ کوئی قابل ذکر مواقعے موجود ہ نہیں اب سی پیک کی وجہ سے ان دونوں شعبوں میں بہتری کے علاوہ بہت سے کاروباری مواقع میئسر آئیں گے جبکہ گلگت بلتستان کے عوام اس مواقعے کے لیئے تیار نہیں اور بے روزگاری اپنی اروج پر ہیں اس لیئے حکومت وقت یہ کر سکتا ہے کہ گلگت بلتستان میں موجود تمام شڈول بنکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کے لیئے آمادہ کریں تاکہ پہلے سے موجود تمام کاروباری حضرات اپنے کاروبار کو فروغ دے سکے اور دوسرے خاص کر بے روزگار افراد کا کاروبار کہ طرف مائل ہونے کا مواقع ملے ،دوسرا اہم پہلو یہ ہے اور یہی موقع ہے کہ وفاق اس سی پیک کے علاوہ گلگت بلتستان کے معاشی حالت کو مضبوط سے مضبوط تر کریں اس سے یہاں پر پائے جانے والے محرومی کم ہوجائے گی اور اس کا پورا پورا فائدہ ریاست پاکستان کو ہوگااور مودی صاحب کو بھی کچھ کہنے کا موقع نہیں ملے گا ، تیسرا پہلو یہ ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگ بارڈر پاس کے زریعے پڑوس ملک چین کے ساتھ چھو ٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں لیکن دونوں طرف سے کسٹم حکام کی بے حد سختی اور سو فیصد ٹیکس ان کاروباری حضرات کے لیئے مشکلات پیدا کر رہا ہیں اس لیے حکومت پاکستان اس معاملات میں مقامی لوگوں کے لیئے نرمی برتئے تاکہ یہاں پر کاروبار فروغ پا سکے اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور صوبہ سنکیانک کے لوگ ایک دوسرے کو جاننے کا مواقع بھی مل سکے،اور چوتھا پہلو یہ ہے اگر سی پیک گلگت بلتستان سے گزر کے جا رہا ہے تو پاکستان کے بنائے گئے سی پیک کمیٹی میں بھی یہاں کے نمائندوں کے شمولیت کو یقینی بنائے۔

گلگت بلتستان اپنی جغرافیائی حالت کی وجہ سے شروع ہی سے دنیا میں اہمیت کے حامل رہی ہیں اور اب سی پیک کی وجہ سے انٹرنیشنل میڈیا میں بھی موضوع بحث بن گئی ہیں اور دنیا کہ بعض طاقتیں اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیئے مصروف عمل ہونگے اور بعض دفعہ ہمارے ملک پاکستان میں کئے گئے دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ کے استعمال کا بیان اکثر سننے کو ملتا ہیں اس لیئے اشد ضرورت اس بات کہ ہیں کہ گلگت بلتستان کو اس کے جائز حقوق ملنا چاہیے اور یہاں کے لوگوں کو ہر شعبے میں خوشحال بنانے کی ضرورت ہیں تاکہ آنے والے وقت میں یہاں پر بھی بیرونی ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ حقیقتاً یہ سی پیک منصوبہ گلگت بلتستان سے ضرور گزر رہی ہیں مگر یہ بات طے ہیں کہ اس منصوبے میں گلگت بلتستان کا کوئی کردار اور حصہ نہیں ہوگاکیونکہ یہ منصوبہ بڑی بڑی طاقتوں کا کھیل ہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بڑی بڑی طاقتیں ملکی مفاد اور وسائل کے حصول کے لیئے دوست اور دشمن تبدیل کرتے رہتے ہیں اگر گلگت بلتستان کے لوگوں نے اس کھیل میں اپنے آپ کو سنبھالے رکھا تو بڑی بات ہوگی اورآخر

میں گلگت بلتستان کے مفادات کے تحفظ کے لیئے ہم قانون ساز اسمبلی میں موجود سیاسی رہنماوں کے لیئے دعا کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button