کالمز

وزیر اعظم پاکستان کا ایک کامیاب دورہ جو ناکام رہا

کریم اللہ

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف 7ستمبر 2016ء بروز بدھ کوایک روزہ دورے پر چترال تشریف لائے جس میں چترال پولو گراؤنڈ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا اپنے خطاب میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ضلع چترال کی سطح پر شروع ہونے والی کئی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ان منصوبوں میں چترال گرم چشمہ روڑ، چترال شندور روڈ ، چکدرہ چترال روڈ کے لئے اربوں روپے جاری کرنے کا اعلان کی ۔ ویزر اعظم نے چترال میں ایک مکمل خودمختار یونیورسٹی ، دو سوپچاس بستروں پر مشتمل ہسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ اس کے علاوہ جون دوہزار سترہ میں لواری ٹنل پر کام مکمل ہونے، گولین گول بجلی گھر کے منصوبے کو بھی اگلے سال کے وسط تک مکمل کرنے کا اعلان کردیا ۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ گولین گول بجلی گھر سے چترال کے تقریباََ سو دیہاتوں کو بجلی دی جائے گی اور اگر ضرورت پڑے تو مزید علاقوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔اس کے علاوہ ضلعی حکومت یعنی بلدیاتی اداروں کو بیس کروڑ کی گرانٹ کا بھی اعلان کردیا ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہناتھا کہ چترال شندور روڈ اور چترال گرم چشمہ روڈ کی فزیبلٹی رپورٹ دسمبر تک مکمل ہوجائے گا اس کے بعد عنقریب ان سڑکوں پر کام کا بھی آغاز کیاجائے گا۔ اپنے خطا ب میں وزیر اعظم کا کہناتھا کہ سن دوہزار سترہ میں میں خود چترال آکر لواری ٹنل کا افتتاح کرونگا اس کے علاوہ اعلان کردہ اکثر منصوبے دوہزار اٹھارہ تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے البتہ باقی مانندہ منصوبوں پر دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد ہم یہاں آکر افتتاح کریں گے۔ اس موقع پر وزیر اعظم اور انجینئر امیر مقام نے حزب اختلاف بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کو بھی خوب اڑے ہاتھوں لیا کہ عمران خان نے دھرنوں کی آڑ میں ملک کی معیشت اور ترقی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ عمومی لحاظ سے وزیر اعظم کا یہ دورہ کافی حدتک کامیاب رہا۔

البتہ میاں نواز شریف صاحب نے اپنے خطاب کے دوران چند ایسے بے تکے اور غیر سنجیدہ الفاظ اداکئے جو ان کے ایک کامیاب دورے کو ناکام بنا نے کا باعث بنا۔ کہاجاتا ہے کہ جب پچھلی بار نواز شریف وزیر اعظم تھے تو چترال کے اپنے دورے کے موقع پر کہاتھا کہ ’میں آپ کے لئے ایک ارب روپے کا اعلان کرتاہوں‘ اور پھر پوچھاتھا ’کیا آپ کو پتہ ہے کہ ایک ارب میں کتنے کروڑ وہوتے ہیں ایک ارب میں سو کروڑ ہوتے ہیں سوکروڑ‘‘۔ آج پھر اسی قسم کا غیر سنجیدہ سول پوچھا فرمایا کہ یہ سال دوہزاور سولہ ہے اگلاسال دوہزار سترہ ہوگا پوچھا کہ اگلاسال کون سا سال ہے ؟ حالانکہ اس سوال کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی ،۔ پھر فرمایا کہ’’ میں جب پچھلے دور میں یہاں آیا تھا تو یہاں کے لوگ اردو نہیں سمجھ رہے تھے اب شائد آپ اردور سمجھ رہے ہیں آپ میں سے کتنے لوگ اردو سمجھ رہے ہیں ذرا ہاتھ کھڑا کردیں؟‘‘ یہ بھی ایک بے ہودہ سوال تھا کیونکہ اس سے قبل ضلع ناطم چترال جناب مغفرت شاہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چترا ل میں شرح خواندگی پچھتر فی صد سے زائد ہے پھر اس سوال کی کیا ضرورت تھی؟۔ اس کے علاوہ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ جب 1997ء میں وزیر اعظم میاں نواز شریف چترال آئے تھے تو کوئی اردو سمجھنے والا نہیں تھا کیونکہ اس وقت بھی ان کی بات سب نے سمجھی یہی وجہ ہے کہ چترال کی حد تک میاں نواز شریف کو لوگوں کی اکثریت پسند نہیں کرتی۔ ان سے متعلق یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ جب وہ اَ سی کی دہائی میں وزیر اعلی پنجاب تھی تب انہوں نے لواری ٹنل کی مخالفت کرتے ہوئے اہالیان چترال کو ’چوہوں ‘ سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ ’’پہاڑوں کے بیچوں بیچ رہنے والے ان چوہوں کے لئے اربوں روپے خرچ کرکے ٹنل نہیں بنائے جاسکتے ‘‘۔میاں نواز شریف سے متعلق اس بیان میں کتنی صداقت ہے اس کا پتہ نہیں لیکن عوام کی سطح پر یہ بات عموماََ کہی جارہی ہے ۔غالبا 2008ء یا سن 2009ء کو میاں نواز شریف نے بلوچستان کے دورے پر اعلان کہا تھا کہ ’پرویز مشرف نے ایک چھوٹے ضلع چترال میں لواری ٹنل کی تعمیر کے لئے اربوں روپے خرچ کئے لیکن بلوچستان کو اس نے کیا دیا ماسوائے محرومی کے ‘‘۔ گزشتہ روز اردو سمجھنے والے سوال سے ایسا تاثر ابھر ا کہ میاں نواز شریف اہالیان چترال کی توہین کررہے ہیں یوں عوامی مقامات اور سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیاجارہاہے ۔

ا گر چہ وہ اپنے پچھلے بیان کا ازالہ کررہے تھے لیکن کہاجاتا ہے کہ پہلے سوچو، پھر تولو پھر منہ سے بولو۔یہاں اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ایسے غلط الفاظ کا چناؤ کیا جس نے ان کے پورے دورے کو ہی ناکامی سے دوچار کردیا کیونکہ ’جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ‘۔

علاوہ ازین یہ بھی کہاجاتاہے کہ چترا ل کے جلسے میں عوام کی بہت بڑی تعداد موجودتھی جو کہ چترال میں میاں نواز شریف کی مقبولیت کا ثبوت ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھے کیونکہ اس اجتماع میں موجود لوگ سارے کہ سارے مسلم لیگی یامیاں نواز شریف کے شیدائی نہیں تھے ۔ چونکہ وزیر اعظم تشریف لارہے تھے اور چترال میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کا عندیہ دیاگیا تھا اس لئے عوام کی اکثریت نے اس جلسے میں شرکت کی تھی اس کے ساتھ ہی جو جھنڈا بردار وہاں موجود تھی وہ بھی کرائے کے لوگ تھے کیونکہ پارٹی جلسے میں جوجان اور جوش وخروش ہوتی ہے وہ اس جلسے میں دیکھنے کو نہیں ملی ۔ اس لئے یہ کہنا کہ چترال میں میاں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہورہاہے کلی طورپر سچ نہیں۔ ساتھ ہی ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات سے اگر چہ ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہواتھا لیکن بعد میں اردو سمجھنے کے سوال نے اس سارے کئے پر پانی پھیر دیا جلسے کے بعد سے لیکر اب تک فیس بک، ٹوئیٹر اور اخبارات سمیت سارے مباحثوں میں ان کے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا کہیں ذکر تک نہیں ملتا البتہ جو بحث سب سے زیادہ محو گردش ہے وہ وزیر اعظم صاحب کے متنازعہ بیان ہی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button