تحریر: اقبال حیات آ ف برغذی
کمال یہ ہیں کہ غصے کی حالت میں کسی کو سرسے اوپر اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا جائے۔ بلکہ کمال یہ ہے کہ ایسی جذباتی کیفیت کے دوران انانیت اور غصے کو پاؤ ں تلے رکھا جائے۔ اور خس وخشاک سر پر ڈالنے والے بدخواہوں کی بھی بیماری پر عیادت کی جائے۔
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے
کمال یہ نہیں کہ دھوان دار تقریروں سے دوسروں کو متاثر کیا جائے بلکہ کمال یہ ہے کہ خود کو اپنی زبان سے نکلنے والے الفاظ کے رنگ میں رنگین کیا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ بہت بڑی ڈگری کے حامل ہوکر آنکھیں زمین کی طرف نہ آئیں بلکہ کمال یہ ہے کہ تواضع اور انکساری کے طور پر ہر ایک کے پاؤں کے نیچے پلکیں بچھائی جائیں۔
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھر ا کرتی ہے پیمانہ
کمال یہ نہیں کہ ہمہ وقت پیشانی سجدے میں رہے بلکہ کمال یہ ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا جائے ۔کیونکہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کم نہ تھے کروبیان
کمال یہ نہیں کہ شکم سیری کے بعد بچی کچی خوراک کو خیرات کے طور پر مستحقین کو دیا جائے ۔بلکہ کما ل یہ ہے کہ بھوک سے نڈھال لمحات میں کسی دوسرے کے تقاضے کو مقدم رکھا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ موقع نہ ملنے کی وجہ سے انسان حرام خوری سے محفوظ رہے بلکہ کمال یہ ہے کہ حرام کے حصول کے مواقع ملنے کے باوجود اپنا دامن داغدار ہونے سے بچایا جائے ۔
کمال یہ نہیں کہ انسان اپنے لئے جیئے بلکہ کمال یہ ہے کہ وہ دوسروں کے لئے زندہ رہنا چاہے۔
کمال یہ نہیں کہ بے بسی اور غربت و افلاس کے ایام میں گُر بۂ مسکین کی صورت اختیا رکیا جائے۔بلکہ کمال یہ ہے کہ معاشی طور پر خوشحالی کے ایام میں عجزو انکساری اور ضبط وتحمل کا مظاہر کیا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ عالیشان عمارت تعمیر کرکے اس میں بدنامی اور نفرت امیز شب و روز گزارے جائیں بلکہ کمال یہ ہے کہ جھونپڑی کے اندر عزت و نفس کی دولت فاخرہ سے زندگی کے چراغ کو روشن رکھا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ طویل عمر گزار کر دنیا سے چلا جائے بلکہ کمال یہ ہے کہ ایسا کارنامہ انجام دے جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کی یاد تازہ رکھے۔
یارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد ر ہو
ایسا کچھ کرکے چلویان کے بہت یاد رہو
کمال یہ نہیں کہ کسی کمزور انسان کی طرف سینہ تان کر انگشت نمائی کی جائے بلکہ کمال ہے کہ جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ کہ کائنات کی تسخیر کی جائے بلکہ کمال یہ ہے کہ خود کو خالق کائنات کے احکامات کے مسخر کیا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ کسی بلند وبالا پہاڑکو سرکیا جائے بلکہ کمال یہ ہے کہ گرتے ہوئے کو سہارا دیا جائے۔
کمال یہ نہیں کہ کسی بڑے منصب کی گھومنے والی کرسی پر رونق افروز ہوں بلکہ کمال یہ ہے کہ اس عہدے کے تقاضوں کو خوف خدا کی کیفیت میں پورا کرکے اس کی لاج رکھی جائے۔