کالمز

ٹوپی ڈے درست، لیکن شاٹی سے اجتناب کرو ؟

تحریر ۔ منظر شگری

میرے محترم دوست اور سینئر تجزیہ کار علی احمد جان جوکہ قدرتی ماحول کو بھی بہتر انداز میں سمجھتے ہیں ۔ ان کے تحریر شدہ چند سطور جو سوشل میڈیا پر تھے نظر سے گزرے ۔ کچھ دیر بعد ان سطور پر سنجیدگی سے غور کرنے کا اتفاق ہوا ۔علی احمد جان کے سطور حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے ثقافتی ٹوپی اور شاٹی ڈے منانے پر تھا ۔ جس میں انہوں نے کافی کچھ لکھا تھا ۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں روایتی ٹوپی پر استعمال ہونی والی شاٹی کوہستانی نایاب جنگلی مور اور سائبریا سے ہجرت کرکے گلگت بلتستان کو اپنا محفوظ راستہ سمجھنے والی مرغابی کے پروں سے بنتی ہے ۔علی احمد جان کا یہ جملہ انتہائی معنی خیز اور ہر انسان کو سوچنے پر مجبور کردینے والا تھا ۔اب ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ پٹو کی بنی سفید ، براون اور کالے رنگ کی ٹوپی ہماری شناخت کا حصہ نہیں ۔بلکہ سوشل میڈیا پر ہی سینئر صحافی مسعوداحمد کی تحریر کو زرائع سامنے رکھ دی جائے ۔ تو ان کی تحریر میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں ٹوپی کا احترام اس حد تک ہے کہ ایک دوسرے کو ٹوپی تحفے میں پنہانے کے بعد دو افراد ٹوپی کا تبادلہ کرنے والے بھائی کہلاتے ہیں ۔ حتٰی کہ یہ اپنی زندگی میں ایک دوسرے کے ہرمشکل اور خوشی میں برابر کے حصہ دار بن جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان ایسا رشتہ بن جاتا تھا جیسے دودھ شریک بھائیوں جیسا ۔اب چونکہ ایسی روایات معدم ہورہی ہیں ۔ ثقافتی ٹوپی کو اب محض گلگت بلتستان آنے والے کسی بھی وی وی آئی پی مہمان کو خوش آمدید کے طور پر پہنایا جاتا ہے ۔

دوسری جانب حکومت کا موقف یہ ہے کہ ثقافتی ٹوپی اور شاٹی جوکہ تاج نما ہوتا ہے ہماری ثقافت کا اہم جز ہیں ۔یقیناًٹوپی کا احترام ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہے ۔ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کہیں ٹوپی کسی کے سر سے گر جائے تو اس کو انتہائی احترام سے اٹھایا جاتا ہے ۔ علی احمد جان کی تحریر میں اس بات کا زکر بھی کیا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں ثقافتی ٹوپی پر موسم کی مناسبت سے پھول لگایا جاتا تھا ۔ بہار کے موسم میں بہار کے اورخزاں کے موسم میں خزاں کے پھول کو ٹوپی پر سجانے کی روایت ماضی میں بھی رہی ہے اور آج بھی یہی روایت قائم ہیں ۔انہوں نے ثقافتی ٹوپی پر جنگلی حیات کے پروں سے بنے تاج نما شاٹی کو انگریز فوج کی آمد سے متعارف کرانے کا اشارہ بھی اپنی تحریر میں کیا ہے ۔

میری یہ تحریر کسی ٹوپی ڈے کے خلاف ہرگز نہیں البتہ علی احمد جان کی مختصر چار سطور کے بعد اس دن کے حقائق جوکہ مستقبل میں جنگلی حیات کی نسل کشی کا باعث ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان نایاب جنگلی اور خوبصورت پرندوں کی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے حکومت کو ٹوپی اوربلوسم ڈے منانے کی پالیسی پر غور کرنا ہوگا ۔یکم اکتوبر کو پہلی بار ٹوپی اور شاٹی ڈے کو اگرچہ حکومتی سطع سے زیادہ عوامی سطع پر پزیرائی حاصل ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی بھی قوم اپنے ثقافت سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنی کہ اپنی دھرتی ماں سے کرتے ہو ۔عوام خوش تھے کہ کبھی فرقہ واریت کی بدترین خون میں نہانے اور کبھی بیرونی آقاوں کو خوش آمدید کے لئے شاٹی لگی ٹوپی پنہا یا کرتے تھے یکم اکتوبر کو خود پہن کر دل کھول کر خوب خوش ہوئے ۔اب جب ٹوپی ثقافت کا اہم جز ہے تو ہم کو شاٹی کے معاملے پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس ٹوپی ڈے کو بہار کی آمد پندہ اپریل جب ماضی میں اس کو سپرنگ بلوسم فیسٹول کے طور پر مناتے تھے ایسے ایام میں منانے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہ موسم غیرملکی سیاحوں کی آمد کا موسم ہوتا ہے یا پھر اس معاملے میں حکومت کو کم سے کم سیاحت کے ماہرین سے مشاورت کرکے ٹوپی اینڈ بلوسم ڈے منانے کی تاریخ کا تعین کرنا ہوگا ۔ٹوپی ڈے منانے کا مقصد دنیا کو اپنی مخصوص ثقافت دیکھنا ہے ۔تو اس دن کو سیاحوں کی آمد کے موقعے پر ایک روزہ نہیں بلکہ تین ثقافتی ایام کے طور پر بھی منایا جائے ۔

وزیراعلٰی حفیظ الرحمان کے ثقافتی ٹوپی ڈے کو تجزیہ کاروں نے بہتر اقدام کے طور سراہا کیونکہ ایک مشترکہ بات سامنے لاکر انہوں پورے گلگت بلتستان کے عوام کو یکجا کیا ۔ لیکن اس تاریخ اور شاٹی کے معاملے پر غور ضرور کرنا ہوگا ۔ کیونکہ آئندہ برس یکم اکتوبر ٹوپی ڈے کے موقعے پر سات یا آٹھ محرم کی تاریخ ہوگی اس روز تو عزادار ٹوپی اتار کر ماتم کرتے ہیں ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی تاریخ کا تعین ماہرین کی رائے پر کیا جائے ۔

شاٹی کے معاملے پر غور کرنا اس لئے بھی ضروری ہے ۔ علی احمد جان جیسے اچھے لکھاری کی سوشل میڈیا پر چند سطور کے بعد مجھے ڈاکٹر میورصاحب کی تین برس قبل کی ایک بات یاد آئی ۔جب میں نے ڈاکٹر میور جو کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے مہارت رکھتے ہیں ۔ ان سے سوال کیا ۔ ڈاکٹر صاحب جنگلی حیات کے بہتر تحفظ کے لئے کونسی اچھی تجویز آپ کی عقل مانتی ہے ؟ ڈاکٹر میور نے مختصر جواب دیا اور کہا کہ جنگلی حیات جس میں جانور اور پرندے شامل ہیں ۔ ان کی سیٹفنگ ( ہنود) کرنے کے عمل پر پابندی لگائی جائے ۔ اس مقصد کے لئے محکمہ جنگلی حیات قانون سازی کرے اور گلگت بلتستان اسمبلی یا کونسل جس کا بھی اختیار ہیں ان سے اس قانون کو منظور کرائے تاکہ ہمارے لوگ اعلٰی حکومتی عہدیدار ہو یا پھر کوئی اعلٰی سرکاری آفیسر اسکو سیٹفنگ ( ہنود) شدہ جنگلی حیات کا تحفہ دینا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں ۔ جب یہ قانون بنے گا تو غیرقانونی شکار بھی رک جائے گا ۔اور جنگلی حیات کا تحفظ بھی ممکن ہوگا ۔

ڈاکٹرمیور اور علی احمد جان کی بات کو سامنے رکھنے کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ٹوپی کیساتھ شاٹی کو ملایا جائے تو مستقبل میں شاٹی کے فروخت میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا اور شاٹی کے کاروبار سے وابستہ افراد انتہائی خوبصورت کوہستانی مور اور ہجرت کرنے والی مرغابیوں کی نسل کشی کرینگے ۔ محض ایک عدد شاٹی بنانے کے لئے ۔

لحاظہ شاٹی کے چکر میں گلگت بلتستان کو مستقبل میں خوبصورت مور اور مہاجر پرندے جو کہ گلگت بلتستان کے قدرتی خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں اس سے علاقے کو ہمیشہ کے لئے پاک کرنے سے اجتناب کرنے کیساتھ آئندہ ٹوپی اور شاٹی ڈے کی بجائے ٹوپی اوربلوسم ڈے منانے کی ضرورت ہے ۔ شکریہ علی احمد جان صاحب نشاندہی کرنے کا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button