کالمز

گھپلے،ہسپتال اور ڈاکٹر 

اخبارات میں واویلا ہے سوشل میڈیا پر بھی شور برپا ہے کہ محکمہ صحت نے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں ڈاکٹر وں کی ایڈھاک بھرتی میں بڑے پیمانے پر گھپلے کئے کابل اور تاجکستان سے ایم ڈی کرنے والوں کو سیاسی دباؤ پر بھرتی کیا ،خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس اے پلس گریڈ میں ایم بی بی ایس کرنے والوں کو سیاسی بنیادوں پر مسترد کیا جس ضلع کا ایم پی اے یا ضلع ناظم حکومت کے قریب تھا اس ضلع کے 200ڈاکٹر بھرتی ہو ئے جس ضلع کے ایم پی اے اور ناظمین سیاسی یتیموں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے اس ضلع کو ایک سیٹ بھی نہ ملی ضلع چترال بھی ایسے اضلا ع میں سے ایک ہے خبر میں بتا یا گیا ہے کہ گھپلوں کی انکوائری شروع ہوگئی ہے مگر خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ انکوائری کون کر رہا ہے اگر انکوائری ایف آئی سے کرائی جارہی ہے یا آئی بی اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے کروائی گئی تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے اگر گورنر کی انسپکشن ٹیم نے انکوائری کی تو اس کا اچھا نتیجہ سامنے آئے گا اگر صوبائی حکومت کو یہ کام سونپا گیا تو اس انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ صوبائی حکومت میں انکوائری کی استعداہی نہیں ہے صوبائی حکومت پبلک سروس کمیشن کے امتحانا ت اور انٹرویوز میں بڑے گھپلے کرواتی ہے ایم پی ایز کے ذریعے کمیشن کے ممبروں پر ناجائز دباؤ ڈالتی ہے یہا ں تک بی ایم ایس کے نتا ئج بھی گھپلوں کی نذر ہوئے 70فیصد نمبر لیکر تحریری امتحان پاس کرنے والوں کو انٹرویو میں فیل کروایا گیا حالانکہ ان کی پر سنلٹی ،کمیونکیشن سکلز اور انٹر پرسنل سکلز میں بھی کوئی کمی نہیں تھی صر ف ایک مسئلہ تھا ان کے سروں پر کسی طاقت ایم پی اے کا ہاتھ نہیں تھا اب خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کا لیبر ونگ بنادیا ہے نئی حکومت آگئی تو اسے کمیشن کا پُرانا امیج بحال کرنے میں کم از کم 5سال لگینگے اخبار ات اور سوشل میڈیا میں گھپلوں پر شور مچانے والوں کو موجودہ حکومت سے خیر ،بھلائی اور میرٹ پر کام کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے این ٹی ایس کو پورا سسٹم الف سے یا تک گھپلا ہی گھپلا ہے پولیس اور ٹیچر کی پھرتی کا کام پنجاب میں ایک طاقتور سیاستدان کی پرائیویٹ کمپنی کو دیدیا گیا ہے ایک ضلع میں کانسٹیبل کی 88آسامیاں ہیں صرف اٹھاسی سپاہی بھرتی ہونگے پنجاب کی پرائیویٹ کمپنی نے 3200اُمیدوار وں سے ڈھائی لاکھ فیس لے لیا ان امیدواروں کو تین بار ٹیسٹ اور انٹر ویوکے لئے بلایا مرد امیدواروں کے کم از کم 6ہزار رروپے خرچ ہوئے ،خانون اُمید وار کے کم از کم 10ہزار روپے ایک محرم کے ساتھ سفر کرنے پر لگ گئے اخر میں تین ماہ بعد نتیجہ آیا88افراد بھرتی ہوئے ان میں سے 30افراد میڈیکل سے مسترد کردئے گئے 10امیدواروں کے کاغذات درست نہیں تھے اگر ایہی بھرتی سابقہ نظام کے تحت ہوتی تو پہلے کاغذات دیکھے جاتے پھر میڈیکل کروایا جاتا پھر ٹیسٹ اور انٹر ویو ہوتا اور اس سارے عمل میں دو دن لگ جاتے تیسرے دن سب کی موجودگی میں سب کے سامنے صاف اور شفاف طریقے سے نتیجہ برآمد ہوتا اس میں میرٹ کے تقاضے بھی پورے ہوتے تھے اور عوام کو سہولت بھی ملتی تھی اُمیدوار وں کو ذہنی کوفت اور اذیت نہیں دی جاتی تھی اب این ٹی ایس کی نا انصافی کے خلاف کسی سے بھی رجوع نہیں کیا جاسکتا درخواست کی کوئی جگہ نہیں فریاد کی گنجائش نہیں ہسپتا ل اور ڈا کٹروں کی بھرتی میں ہونے والے گھپلے بھی اسی نوعیت کے گھپلے ہیں خبر کے مطابق ایک ہزار رہنر (1069) ڈاکٹروں کو ایڈھاک بھرتی کیا گیا جس ضلع سے ایم بی بی ایس ڈاکٹرنہیں ملا اُس ضلع کے ایم پی اے نے ایم ڈی کو بھی بھرتی کروایا جس ضلع کا ایم پی اے طاقتور نہیں تھا حکمران جماعت کے قابل قبول نہیں تھا اُس ضلع سے ایک بھی امید وار بھرتی نہیں ہوا جس ڈاکٹر نے ایم بی بی ایس میں 80فیصد نمبر لیکر اے پلس گریڈ لیا وہ مسترد ہوا جس امید وار نے ایم بی بی ایس کا انٹری ٹیسٹ کو کوالیفائی نہیں کیا پاکستان کے کسی میڈیکل یو نیورسٹی یا میڈیکل کالج میں انکو داخلہ نہیں ملا جنہوں نے ایم بی بی ایس کا امتحان نہیں دیا ، ایم بی بی ایس پاس نہیں کیا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اُن کو ایڈھاک بھرتی کیا گیا اس طرح اگر 20فیصد لوگ میرٹ پر آگئے تھے اُن کی بھرتی بھی مشکوک ہوگئی 80فیصد بھرتیاں ایم پی ایز کے دباؤ کے تحت ہو گئیں اب اس معاملے کوحل کرنے کا سیدھا سادہ طریقہ یہ ہے کہ ایف آئی اے اور آئی بی کے ذریعے بھرتیوں کی تحقیقات کر کے پورے حکمنامے کو منسوخ کیا جا ئے نئی بھرتی ایم بی بی ایس کی بنیا دی ڈگری اور اکیڈیمکس کے حساب سے میرٹ لسٹ بنا کر اُس لسٹ کی نبیا د پر کی جائے کوئی انٹر و یو نہ لیاجائے کسی ایم پی اے کو اس سسٹم پر اثرا نداز ہونے کی اجازت نہ دی جائے ایسا نہ ہوایک ایم پی اے 350امیدواروں کو بھرتی کرائے دوسرے ایم پی ایک کو ایک بھی سیٹ نہ ملے قائد حزب اختلاف مولانا لطف الرحمن اور اے این پی کے پارلیمان ی لیڈ رسردار بابک کی یہ مسئلہ صوبائی اسمبلی میں بھی اُٹھانا چاہئے چترال اور دیگر اضلاع کے جن ایم پی اے صاحبان کا استحقاق مجروح ہوا ہے ان کو چاہئے کہ اسمبلی کے ایواں میں تحریک استحقاق کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کریں جو حکومت ہسپتالوں کے لئے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تقرری درست طریقے سے میرٹ کے مطابق نہیں کرسکتی اُس حکومت سے کسی اور کام میں انصاف اور میرٹ کی توقع رکھنا فضول ہے بقول مرزا غالب ۔

جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button