کالمز

ہم جوؤں کے لئے ترس رہے ہیں

کافی پرانی بات ہے ہم جماعت چہارم میں ہوتے تھے ۔ میں اور میرے ایک اور دوست ایک دوسرے کے رو برو کھڑے اُلٹیوں پہ الٹیاں کرتے رہے ۔ منہ میں بار بار پانی بھر تا رہا ۔ یہپانی بھوک کا نہیں تھا بلکہ قے کا تھا بڑا نا خوش گوار پانی تھا جو کہ بھوک کی وجہ سے منہ میں آنے والے پانی سے مختلف تھا اس پانی کا سرچشمہ جبڑے کی دونوں اطراف تھا۔ ہم دونوں ،میں اور میرے دوست، ایک دوسرے کے سامنے خشک زمیں پر بار بار تھوکتے رہے لیکن منہ میں ایک غلیظ سا پانی بھرتا رہا بالآخر ہم دونوں نے الٹیاں شروع کیں ۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ ہم دونوں نے ایک ساتھ اُلٹیاں کیں۔ سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ ہم جیسے ہی سر اُٹھا کے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہمارے منہ میں اُلٹیاں گویا باہر اُگلنے کو تیار ہی رہتیں۔ ان اُلٹیوں کا شان نزول دلچسپ ہے ہم آپ سب کو بتائیں گے لیکن پہلے جوؤں کی بادشاہت کے زمانے کی کچھ کہانیاں یاد ہیں وہ آپ سے بانٹیں گے ۔

Head Lice
سر کے جوویں 

میرا خیال ہے کہ جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اُس زمانے میں ہر آدمی کے جسم میں جوؤں کی بے شمار بستیاں آباد ہوتیں تھیں ۔ سر کے بال اور بغل کے علاوہ ملیشیا کپڑوں کے ہاتھ سے سلی شلوار قمیض میں سیلائی کی جگہوں سے پیوست تہہ در تہہ اور پیچ در پیچ جوؤں کیخاندان آباد ہوا کرتے تھے۔ قدیم طرز زندگی کی جوئیں قدیم لوگوں کی طرح مشترکہ خاندانوں میں رہتیں تھیں لہذا قمیض یا شلوار کی کسی ایک تہہ میں سینکڑوں جوئیں آباد ہوتی تھیں ۔لیکن ان وفادار حشرات کے رہنے کے لئے سب سے زیادہ صحت افزا ء مقامات میں شلوار کا نیفہ اور اور سر کے بال ہی ہوا کرتے ۔ بڑے بڑے نامی گرامی خواتین و حضرات کے چہروں پر جوؤں کے وقت بے وقت سر کے بالوں سے نکل کر خراماں خراماں ماتھے سے اپنی چال چلتے ہوئے ٹھوڑٰ ی کے نیچے سے ہوتے ہوئے بغلوں میں روپوش ہونے کے مناظر بڑے دل ربا ہوا کرتے ۔ جوؤں کی یہ بے جا در اندازی کسی بھی مرد یا عورت پر نا گوار نہ گزرتی تھی کیوں ایسی صورت حال سے کسی فرد کو استثنا حاصل نہ تھا ۔ امیر و فقیر اور شاہ و گدا اور مر د و زن سب اس نعمت سے برابر مستفید و مستفیض تھے ۔ ان کا ہونا بڑا اچھا تھا کیوں خود انسان کو ہونے کا احساس ہوتا تھا ۔ میٹھی کھجلی سے اُس وقت کا ہر آدمی دن رات ہشیار رہا کرتا ۔جب سے جوؤں کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا ہے تب سے نوجوانوں میں مُردوں سے شرط باندھ کر سونے کا رواج عام ہوا ہے ۔لیکن ہمارے زمانے میں یہ ہمدم جنہیں ہم جوئیں کہتے ہیں ایک پل کے لئے بھی میٹھی نیند سونے نہ دیتی تھیں۔ جوؤں سے جنگبھی کسی بڑی مہم سے کم تھی۔خواتین سردیوں میں مویشی خانوں کے دیواروں کے اوٹ دھوپ میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے بالوں سے کھینچ کھینچ کر جوئیں نکالتیں اور دونوں ہاتھو ں کے انگوٹھوں والے ناخنوں سے ایک خاص مہارت کے ساتھ ان بے زبان حشرات الارض کو نا کردہ گناہوں کے پاداش میں تڑاخ تڑاخ سے پھاڑ دیا کرتیں ( اگر کوئی اور آ پ کے سر کی جوؤں کو مارے تو بہترین لذت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب شکاری سر میں شکار کھیلتے کھیلتے کانوں کے آس پاس والے مقامات پر آن پہنچے اور ٹَک ٹَک کی خوشگوار آواز سے کسی جوں کو ناخنوں سے پٹخ دے )۔

یہ رنگ برنگی جوئیں آج کل کے لوگوں کی طرح جسامت اور رنگ و نسل میں مختلف قوموں ، قبیلوں اور نسلوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ جوئیں مختلف قبیلوں سے ہونے کے باوجود بھی جوئیں ہی ہیں کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ۔ کوئی لال نہیں کوئی چھیر موژ نہیں ضرف جوئیں اور جوئیں ہیں ۔یہ قد اور رنگ میں ایک دوسرے سے ضرور الگ ہوتے ہیں لیکن فطری طور پر جوئیں ہی ہیں ۔ ان میں کالی جوئیں موٹی خاصی صحت مند ہوتیں ہیں اور گوری نسل کی جوئیں لاغر انگریزوں سے ملتی جلتی قد کاٹھ کی ہوتی ہیں اتنے لاغر کہ اُن کی ریڑھ کی ہڈیاں بلکہ دل کی شریانوں تک نظر آتی ہیں ۔ خواتین ان سے بر سر پیکار ہونے کے بعد اپنے ناخنوں کو تھوک تھوک کرایک دوسرے سے رگڑا دیتی ہیں اور پھر اپنے گھٹنوں کے اوپر مل مل کے صاف کیا کرتی ہیں۔( کیا کرتی تھیں آجکل یہ شغل نظر نہیں آتا) اس معاملے میں مرد حضرات بھی بڑے میدان مارتے ہیں۔ مرد حضرات دیواروں کے ساتھ ٹیک لگا کے کھلے عام جہاد فی سبیل اللہ کیا کر تے تھے ۔ طریقہ یہ تھا کہ عمر رسیدہ لوگ ایک دوسرے سے گفتگو بھی کرتے اور ساتھ ساتھ اپنی اپنی شلواروں کے نیفے کھول کھول کر ناڑے کی کھنچاو کی وجہ سے بنی ہوئی تہوں میں خوب کھوج بین کر کے جوؤں کو کیفرے کردار تک پہنچایا کرتھے اور آپس میں جوئیں مارنے کا بڑا مقابلہ ہوتا بعض مرتبہ کوئی جوں اپنی جان بچاتے ہؤے کسی سلائی کے سراخوں میں چھپ جاتیں تو ڈھونے والی کی زبان سے جوں کے لئے ماں بہن کی موٹی موٹی گالیاں بھی نکلتیں اور ساتھ براجماں لوگ اُ ن گالیوں کا خوب چسکا لیا کرتے ۔

ایک مرتبہ جب جمعہ کو صبح ناشتے کے بعد میں ایک دوست کے گھر میں داخل ہوا ۔میرے ادخال کے دوران گھر کا منظر کچھ یوں تھا : انگیٹھی میں ( ثوک دیتی انگار ) آگ گرم تھی ۔ اُس گھر کا سب سے بڑا میرے دوست کا دادا تھا ۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے گھر کے اندر سے بلند قہقہوں ، شاباش ، کھینچ کے پکڑو ، اہا ، خوب آواز آئی ، اہو وہ دیکھ پھٹ گئی وغیرہ کی آوازیں آرہی تھی ۔ میں جب داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دوست کے دادا نے اپنی قمیض اُتاری ہوئی ہے ، اُن کے بیٹے ، بہو اور پوتے اپنے دادا کی قمیض کو چنگاریوں کے اوپر خوب زور سے کھینچ کر پر تناو بنا کے پکڑے رکھا ہے اور دادا خود اپنے داہنے ہاتھ سے اپنی تنی ہوئی قمیض کے اُوپر زور سے ہاتھ مارتا ہے اور جوئیں چنگاریوں میں ٹولیوں میں گرتی ہیں اور پھٹی جا رہی ہیں ۔ جوئیں کے پھٹ جانے سے جو آوازیں آتی ہیں اُن پر تمام گھر والے تالیاں بجاتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ایک بہت اچھا شغل تھا جو جمعے کی چھٹی کو آسودگی بخشا ۔ یہ سر گرمیوں دل کو اتنی لگی کہ اُسی رات خواب میں بھی ایسی ہی سرگرمیوں میں پوری رات نکل گئی ۔ صبح سکول جاتے ہوئے راستے میں اُسی دوست سے ملاقات ہوئی جس کے یہاں پچھلے دن جوؤں پر شب خون مارا گیا تھا ۔ ملتے ہی ہم ہنستے رہے ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں کل والا شغل ایک دوسرے کو بتار رہے تھے ۔ دفعتاً میری نظر اُن کے سر کے بالوں کی جانب مرکوز ہوئی ،کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کے بالوں میں لیکھ کچھ اس ادا سے پیوست ہیں جیسے سخت ٹھند میں سیاہ زمیں پر ہلکی سی برف باری ہوئی ہو ۔ میں نے قریب جاکے دیکھا تو ہر ایک بال کے ساتھ سینکڑوں سفید دَھک چمٹی ہوئی تھیں میرے دوست کے سارے بال کھچڑی نما معلوم ہو رہے تھے ۔ انہیں دیکھ کر میرے منہ میں غلیظ سا پانی بھر آیا میں نے بار بار تھوکنا شروع کیا میری دیکھا دیکھی میرے دوست نیبھی تھوکنا شروع کیا ۔ چونکہ اُس کی طرف دیکھتے ہوئے میرے منہ میں نا خوشگوار پانی بھر جاتا تھا لہذا میں نے منہ دوسری طرف کر کے اُن صاحب سے پوچھا کہ اُسے کس وجہ سے اُلٹی آرہی تھی ؟ انہوں نے میر ا نام لے کر بولا’’ تمارے چہرے پربائیں کان کے قریب جوؤں کے ٹولے کو دیکھ کر ۔۔۔۔ ایک اور اُلٹی کی ۔۔ آخ۔۔خ۔۔خ ‘‘ ۔ میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو چھے موٹی جوئیں ایک ساتھ میری مٹھی میں آگئیں ۔

اچھا زمانہ تھا ۔نہ کہیں قتل کی واردات نہ کہیں خود کش دھماکے ۔نہ جنگ کی خبر نہ ڈکیتی کی باتیں ، نہ کوئی موبائیل نہ کوئی انٹرنٹ ۔ آج جوئیں نہیں ہیں لیکن ایک نفسا نفی ہے ، ایک دوڑ ہے جس میں سب ایک دوسرے سے آگے نکلے کی سر توڑ کوشش میں ایک دوسرے کو پیچھے دھکیل رہے ہیں ۔ ایک دور تھا لوگوں کی خوشی جوؤں کو مارنے اور اپنی جان اُن سے بچانے میں مضمر تھی۔آج سب کچھ ہے لیکن انسان خوش نہیں ہے ۔ رسل و رسائل نے دنیا کو گلوبل ویلج تو بنادیا لیکن دوریاں اتنی کہ ہم ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے نہیں ہیں ۔ہم انہی جوؤں کو ترس رہے ہیں کہ جن کی بادشاہت میں محبت کا بول بالا تھا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button