کالمز

ہارٹ آف ایشیاکانفرنس 

امر تسر مشرقی پنجاب کا بھارتی شہر ہے اتوار 4 دسمبر کو اس شہر میں ہارٹ آف ایشیا کا نفرس ہوئی جو افغانستان کے بارے میں اہم اکانفرنس تھی کانفرنس میں پاکستان کو ندامت اور شرمندگی سے دو چار ہونا پڑا پھر اس کی وضاحت کے لئے میڈیا بریفنگ اور پریس کانفر س کا سہارا لیکر وضاحتیں پیش کرنے کی ضرروت پڑی لیکن کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ان وضاحتوں کے بر عکس ہے ہمارے دفتر خارجہ کی پے درپے وضاحتوں نے ثابت کیا کہ پاکستان خارجہ محاذ پرتنہائی کا شکار ہو چکا ہے خاص کر افغانستان کے امور پر ہمیں دیوار سے لگادیا گیا ہے ہارٹ آ ف ایشیایعنی ’’ایشیا کا دل ‘‘علامہ اقبال کے کلام سے لیا ہوا نام ہے علامہ اقبال ایک مثنوی میں کہتا ہے

آسیا یک پیکر آب و گلِ است
افغان ملت در آں پیکر دل است
ازفسادِ او فسادِ آسیا
از کشادِ او کشاد آسیا

شاعر کہتا ہے کہ ایشیا پانی اور مٹی کی بنی ہوئی مورت ہے اس مورت کے اندر افغانستا ن کو دل کی حیثیت حاصل ہے افغانستان میں فساد ہو تو ایشیا میں فساد ہوگا افغانستان میں امن ہو تو ایشیا میں امن ہوگا علامہ اقبال کے کلام سے نام مستعار لیکر افغان امن پر بھارت میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا خیال جو لائی 2015 ء میں پیش کیا گیا تھا اس کی تیاری ستمبر 2015 ء میں شروع ہوئی اس کے لئے امرتسر شہر کا انتخاب ہوا اس حوالے سے ستمبر 2015 سے دسمبر2016 ؁ء تک 26 اہم اجلاس ہوئے ان اجلاسوں میں امریکہ ، بھارت ،افغانستان اور دیگر ملکوں نے کانفرنس کی تفصیلات اور تیاریوں پر تبادلہ خیال کیا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی تیا ر کیا گیا اور ڈرافٹ کی صورت میں منظور کر ا یا گیا کانفرنس کے شرکاء کی آمدو رفت کی تما م چھوٹی بڑی تفصیلا ت طے کی گئیں ان تما م اجلاسوں میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی کارکردگی مایوس کن رہی جبکہ امریکہ،بھارت اور افغانستا ن نے پوری تیاری کی وہ تیاری کے ساتھ آئے ہم تیاری کے بغیر گئے پھر جو ہونا تھا وہی ہوا شاعر کا لاجواب مصرعہ ہے ’’بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے ‘‘مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت سے واپس آکر جوو ضا حتیں پیش کیں وہ ایسی ہی وضاحتیں ہیں جو سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ 90 سالہ قائم علی شاہ پیش کیا کرتے تھے یا سندھ کے موجودہ گورنر جسٹس سعید الزمان صدیقی کے بارے میں پیش کی جارہی ہیں اگر ہمارے دفترخارجہ میں جان ہوتی افغانستان میں ہمارا سفارت خانہ متحرک ہوتا ،واشنگٹن میں ہمارا سفارت خانہ ٹھیک طریقے سے کام کرنے والا ہوتا یا نئی دہلی میں ہمارے سفارت خانے کو متحرک اور فعا ل رکھا جاتا تو پاکستان ایک سال پہلے وہ فیصلہ کرتا جو مشیر خارجہ سر تاج عزیز کے امرتسر پہنچنے اور شرمندگی سے دو چار ہونے کے بعد کیا گیا ہمارا دو ٹوک اور اصولی مو قف یہ تھا کہ ہار ٹ آف ایشیاافغانستان ہے افغانستان پر کوئی کانفرنس ہونے والی ہے تو اس کو کابل،قندہار ،ہرات ،جلا ل آباد ،پشاور یا اسلام اباد میں ہونی چاہئے اگر’’ایشیا کے دل ‘‘ میں جگہ نہیں ہے تو پھر واشنگٹن میں رکھ لو ، دوحہ میں رکھ لو، ایسی جگہ رکھ لو جہاں پاکستان جاسکے اور شرکت کرسکے اپنا موقف پیش کر سکے بھر پور حصہ لے سکے بھارت کے کسی بھی شہر میں ہار ٹ آف ایشیاء کانفرنس ہوگی تو پاکستان اس کا بائیکاٹ کریگا اور یہ نئی بات نہیں پاکستان میں سارک کانفرنس رکھی گئی تو بھارت نے نہ صرف خود بائیکاٹ کیا بلکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی بائیکاٹ پر آمادہ کر لیا کانفرنس منسوخ کر دی گئی ایسا کیوں ہوا ؟ دشمن ملک کا دفتر خارجہ متحرک ہے بیدار ہے اور ہر دم تیار ہے چو کس ہے مستعد ہے پاکستانی دفتر خارجہ اور وزیراعظم سکرٹریٹ نے امر تسر کانفرنس سے دو دن پہلے پاکستان کے لئے شر مند گی کا ایک اور سامان کر لیا تھا یکم نومبر کو پریس ریلیز اخبارات میںآیا کہ وزیر اعظم نے فون پر آنے والے امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کی ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانیوں کو شاندار قوم اور پاکستان کو عالی شان ملک قرار دیا نیز انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا 4 گھنٹے بعد واشنگٹن سے اس کی تردید آگئی کہ دولیڈروں میں ٹیلیفونک رابطہ ضرور ہوا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جو باتیں منسوب کی گئیں ان میں کوئی صداقت نہیں یہ باتیں مبا لغے پر مبنی ہیں اس طرح کے ڈس کلیمر یا اعلان لاتعلقی سے پاکستا نی دفتر خارجہ کی پوزیشن کا اندا زہ ہو گیا

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور ایسی حالت میں وزارت دفاع کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کو بھی بیحد فعال اور مستعد لیڈر کی ضرورت ہے دنیا کے 5 براعظموں کے اندر 180 ممالک میں پاکستان کے سفارتی مشن قائم ہیں 10 بڑے ممالک میں ہمارے اہم سفارت خانے ہیں اقوام متحدہ میں ہمارا سفارتی مشن ہے ان تمام مشنوں کو ایک فعال اور متحرک قیادت کی ضرورت ہے بد قسمتی سے اس وقت ہمارا دفتر خارجہ دو ملا وں میں مرغی حرام کا مصداق بنا ہوا ہے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور خارجہ امور کے لئے وزیراعظم کے معا ون خصوص طارق فاطمی عمر کے ایسے حصے میں ہیں جہاں دونوں کو دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہے نیز دونوں آپس میں ایک دوسرے سے شدید اختلافات رکھتے ہیں آپس میں اُن کی بول چال بند ہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساڑھے تین سال وزیر خارجہ کے بغیر گذر گئے کتنی بد قسمتی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 475 اراکین کی اکثریت نے وزیر اعظم کوووٹ دیا اُن میں وزیر خارجہ بننے کے قابل کوئی نہیں تھا ایک بھی ممبر ایسا نہیں ملا جو دفتر خارجہ کی سر براہی کے قابل ہو جس پر ہمارے وزیراعظم کا عتماد ہو حکومت کے پاس جوڈیڑھ سال بچ گئے ہیں ان ڈیڑھ سالوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ایک فعال اور متحرک وزیرخارجہ کا تقر ر بے حد ضروری ہے جو بے شک خور شید محمود قصوری یا شاہ محمود قریشی کے معیار کا نہ ہو ،دفتر خارجہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ملک کا امیج برباد کر نے والے دو بوڑھوں سے بہتر ضرور ہو اگر اراکین پارلیمنٹ میں کوئی رکن اس قابل نہیں ہے تو پھر دفتر خارجہ کا پورا کام پاک فوج کے سپر د کر نا بہتر ہوگا اپنی ناکا می کی وضاحتیں پیش کر نا ’’ غُذر گنا ہ بدتر از گنا ہ‘‘ کے زمر ے میںآتا ہے اس سے بہتر یہ ہے کہ اپنی نا کامی کا اعتراف کر کے سبکدوشی کا راستہ اختیار کیا جائے ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس کے لئے بھارت کے شہر امر تسر کا انتخاب ایک آئینہ ہے جس میں ہمارے دفتر خارجہ کی ناکامی اور تنہا ئی نظر اتی ہے۔

خواجہ میر درد کا شعر ہے

ہر چند ہوں آئینہ پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھر لے وہ جس کے مجھے رو برُ و کریں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button