کالمز

اسلام آباد‘ سے ’گلگت‘ پر دو ’حملے ‘

ثقافتی پروگرام میں راقم کی خواہش تھی کہ اس دوران ہی کچھ لکھنے کی جسارت کرے لیکن یکدم معاملہ دب گیا۔ گلگت بلتستان کے کلچر یعنی ثقافت کو سرے سے دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔گلگت بلتستان کا شمار پاکستان بلکہ دنیا کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جن میں شروع سے ہی ثقافت کا رنگ غالب رہا ہے تاہم پاکستان کے قیام اور خصوصاً ضیاء الحق کے دور حکومت میں ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کا کلچر مذہب کے عینک تلے آگیا۔ یہ وہ غیر فطری تقسیم ہے جس نے گھروں کو ،محلوں کو اور آبادیوں کو تقسیم کیا ہے۔ گلگت بلتستان میں میرے علم کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے اپنی تحقیق کے بعد مذہب میں شمولیت اختیار کی ہو۔ وہ پیدائشی طور پر ایک روایت کے زیر آکر اپنے ذاتی فیصلے سے ہٹ کر والدین کے فرقے میں ’انٹری ‘کرائی جاتی ہے۔

جس فرقے کا بھی ہو بلکہ جس مذہب کا بھی ہو اس میں اختلاف کی بڑی گنجائش موجود ہے لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ یہاں کا پیدائشی گلگت بلتستان کا نہ ہواور قانون ساز اسمبلی میں نواز خان ناجی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں بھی علاقے کے کلچر کا لحاظ اور تحفظ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ اگر کلچر کو مذہب کے عینک سے نہ دیکھا جاتا تو شاید آج سیاسی و سماجی صورتحال بھی اس علاقے کی یکسر تبدیل ہوجاتی۔ ذاتی طور پر ایک مذہبی شخصیت سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ چلے اگر یہ مان لیا جائے کہ خواتین کے ناچ کا تعلق جی بی کے ’پاکیزہ ‘ کلچر سے نہیں ہے تو آپ نے بذات خود کتنی بار کلچرل پروگراموں میں حصہ لیا ہے۔

اسلام آباد میں لو ک ورثہ میں چند ایک نامعلوم خواتین نے گلگت بلتستان کے کلچر کو پیش کرتے ہوئے علاقائی رقص پیش کیا۔ اس رقص پر گلگت بلتستان کے مذہبی ’پیالی میں طوفان ‘ آگیا۔ صاحبان کی جانب سے سخت قسم کے بیانات سامنے آگئے کہ ’حافظ ‘حفیظ الرحمن کی موجودگی میں جی بی کے کلچر کے نام پر بیہودگی اور بے حیائی پھیلائی گئی اور بیانات اتنے سخت تھے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے وضاحتی بیان آگیا کہ خواتین کا رقص میرے جانے کے بعد پیش کیا گی۔ گویا وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے بھی اس بات کااعتراف کر لیا کہ ’ناچ‘ کا گلگت بلتستان کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں اور خصوصاً خواتین کے ناچ سے۔ وزیراعلیٰ صاحب بذات خود اپنے بیانات کے آئینے میں علاقے کے کلچر کو پروموٹ کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں اور پہلی بار ان کے اعلان کے مطابق کلچرل ڈے بھی منایا گیا لیکن اس اخباری بیانات کے دباؤ میں آکر وزیراعلیٰ صاحب بھی مڑگئے۔

دونوں ایشوز کو دیکھا جائے تو میرے نزدیک کلچر کا ایشو زیادہ حساس ہے۔ اس ایشو پر اٹھنے والے اعتراضات نے لبادے میں علاقے کو تباہ کردیا ہے۔ حیرت کی بات تو ہے کہ کلچرل پروگرام پر بھی ’پاکیزہ‘ مذہبی جماعتیں اپنا موقف دیتی ہے۔ مغربی روایات اور مغربی طرز سے تنگ نظر(بظاہر) آنے والے لوگ اس کے باوجود مغربی آلات کا استعمال کرتے ہوئے پروموشن میں مصروف ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button