کالمز

زرداری کی مفاہمت ، بلاول کی جارحیت

16 جون 2015 کو سابق صدر اور پیپلز پارٹی کی شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے اپنی ایک تقریر میں انتہائی جذباتی انداز میں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارا ادارہ ہے، آپ تین سال پورے کریں اور چلے جائیں، ہمیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ مفاہمت کے بادشاہ یہاں ہی نہیں رُکے بلکہ صوبائی حکومت یا ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی صورت میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی بھی دے دی ۔ پھر اچانک زرداری صاحب بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر چلے گئے اور پارٹی کی قیادت بلاول بھٹو کے ہاتھ آگئی ۔

بلاول بھٹو نے پارٹی کے اندر تبدیلی اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لیے جارحانہ بیانات سے حکومت کو کافی ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی ۔ اس دوران انھوں نے چار مطالبات بھی حکومت کے سامنے پیش کردیے اور اپنے بے شمار بیانات اور تقریروں میں 27 دسمبر تک ان مطالبات پر نظرثانی نہ کرنے کی صورت میں حالات دمادم مست قلندر کی جانب لے جانے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ ساتھ ہی چوہدری نثار کا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرنے ، کالعدم جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرنے اور دیگر معاملات پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ۔ پھر ہوا یوں کہ اٹھارہ ماہ کی خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے آصف علی زرداری وطن واپسی کی خبر نے حکومتی ایوانوں میں خوشی کی لہر اور اپوزیشن جماعتوں کی صفوں میں کھلبلی مچا دی ۔ اب سب کی نظریں زرداری کی آمد پر ٹکی ہوئی تھیں ۔آصف زرداری کے جہاز کی کراچی ائیرپورٹ پر لینڈنگ کی خبر وزیراعظم کے سماعتوں تک پہنچتے ہی ان کی جان میں جان آگئی اور فوراً خوشی کا اظہار کیا۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں شش و پنج میں تھی کہ آخر زرداری کی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گی۔کیوںکہ اپوزیشن سخت لائحہ عمل ، احتجاج اور لانگ مارچ کی منتظر ہیں۔ کراچی پہنچتے ہی کراچی ائیرپورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر پارٹی کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوٗے انھوں نے اندرونی مسائل کے بجائے بیرونی مسائل مثلا کشمیر پر ایک بیان داغا جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ مخالفین خاص کر حکمران جماعت کے خلاف سخت بیانات سے بھی اجتناب کیا ۔ اور پارٹی کارکنان کو 27 دسمبر کو ایک سرپرائز ز دینے کا وعدہ کیا ۔جس سے کارکنان کا خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ بس وہ ہر کروٹ 27 دسمبر کا انتظا ر کر رہے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں بھی گڑھی خدابخش پر نظریں گھڑی تھیں۔پھر ہوا وہی جس کا اندیشہ کیا جارہا تھا۔ مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے حکومت پر ہلکی پھلکی تنقید کرتے ہوئے کارکنان کو سرپرائز کا اعلان کیا کہ وہ نواب شاہ سے اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور اس پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے۔

زرداری کا پارلیمنٹ جانے کے فیصلہ سے حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ زرداری نے اپنی پوری تقریر میں نواز شریف کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن وہاں بھی مفاہمت سے کام لیتے ہوئے فرینڈلی اپوزیشن کے تاثر کا لاج رکھا۔ جہاں تک زرداری صاحب کے بنفس نفیس پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس بارے میں سیاسی حلقوں میں کچھ تحفظات بھی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں وہ جناب فاروق لغاری کے بعد دوسرے صدر ہیں جنھوں نے پارلیمنٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگر جناب لغاری صاحب کی بات کی جائے تو انھوں نے پارلیمنٹ آکر جوہر دیکھانے میں ناکام رہے تھے ۔ پاکستان میں صدر کا عہدہ سب سے اعلیٰ منصب ہے ۔ اس حوالے سے زرداری صاحب کو اپنے فیصلے کا جائزہ ضرورلینا چاہئے۔

بلاول کی تقریر کی بات کی جائے تو کافی جاندار تھی جس میں انھوں نے ہر نکتے پر ٹھہر ٹھہر کر روشنی ڈالنے کی کوشش کی اور چوہدری نثار اور شہباز شریف کو بھی نشانے پر رکھا۔ لیکن حیرانگی میں اضافہ تب ہوا جب الٹی میٹم ختم ہونے کے باوجود بھی لانگ مارچ کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا، جہاں تک تیاریوں کا مطلب ہے وہ ’’انتخابی مہم ‘‘ کے لیے رہ ہموار کرنا بھی ہوسکتا ہے ۔ بلاول کے سابقہ بیانات کا ذکر کیا جائے تو دمادم مست قلندر کے دعوے بہت کر چکے تھے ۔آخر کیا وجہ تھی جو آصف زرداری کے آمد کے ساتھ ہی جارحیت مفاہمت میں تبدیل کی گئی ۔ زرداری کی غیر موجودگی میں بلاول بھٹو کے پارٹی کے اندر اور بحیثیت اپوزیشن اقدامات دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ شاید بلاول بھٹو فرینڈلی اپوزیشن کے تاثر کو ختم کرنے میں کامیاب ہونگے۔ اور پارلیمنٹ میں ایک حقیقی جاندار اپوزیش کا کردار ادا کرینگے ۔ لیکن وہی پرانی روایت کچھ لو اور کچھ دو ہی برقرار رہنے کا خدشہ ہے ۔ مستقبل میں سیاسی باگ ڈور بلاول کے ہاتھ میں دینے کے خواہشمند باپ کی حیثیت سے جناب آصف زرداری کو انہیں فری ہینڈ بھی دینا چاہئے۔ ورنہ گزشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کی طرح مستقبل قریب کے عام انتخابات کی شکست کا سبب بھی آصف زرداری خود ہونگے ۔ پیپلز پارٹی کی ایک اور غلطی پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ضرور پہنچائے گی۔ کیونکہ ’’ فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کا تاثر زائل ہونے کے بجائے اور گہرا ہوچکا ہے ۔ اب عوام کے ذہنوں میں بھی بہت سے سوالات جنم لے رہی ہیں کہ کہیں پیپلز پارٹی کے چار مطالبات مفاہمت کے نظر تو نہیں ہو جاینگے ؟ اسی طرح اس تما م صورت حل میں بلاول بھٹو کا پارٹی میں کیا کردار ہوگا اور کیا حقیقی طور پر پارٹی قیادت بلاول کے ہاتھ میں ہی رہیں گی ۔ کیا پیپلز پارٹی پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر گرینڈاپوزیشن بنانے میں کامیاب ہوگی ۔ عوام کے توقعات میں پورا اترنے اور اگلے انتخابات میں جیت کو مقدر بنانے کے لیے عوامی ذہینوں سے فرینڈلی اپوزیشن اور مفاہمتی کچھ لو اور کچھ دو کے تاثرات زائل کرنے ہونگے ۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button