خبر آگئی ہے نفاذ شریعت کے لئے خلوص کے ساتھ تحریک چلانے والی دو سیا سی جماعتوں نے سیکولر جماعتوں کے ساتھ الگ الگ اتحاد کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جمعیۃ العلمائے اسلام (ف)مسلم لیگ ( ن)کے ساتھ اتحاد کر کے قومی وطن پارٹی کو ساتھ ملانے کا عندیہ دے دیا ہے اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو علمائے حق کی سر دستی سے محروم کیا جائے گا ابھی انتخابات میں ڈیڑ ھ سال کا وقت ہے آنے والے چند مہینوں میں حالات بدل بھی سکتے ہیں تاہم طے ہے کہ نفاذ شریعت کے لئے جمعیۃ العلمائے اسلام اور جماعت کا اتحاد نہیں ہوگا ان کی باہم دشمنی پکی ہو چکی ہے دلوں کو زنگ لگ چکا ہے اس کے سوا دیگرحالات بدل سکتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا اتحاد ہو سکتا ہے عوامی نیشنل پارٹی مسلم لیگ (ن )کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہے ایم کیو ایم بھی کسی اتحاد میں شامل ہو سکتی ہے پیر پگاڑا بھی کسی اتحاد کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کسی ایک اتحاد کی طرف مائل ہو سکتے ہیں شیخ رشید احمد اور شیخ الاسلام طاہر القادری سورج غروب ہوتے وقت کوئی نئی چال بھی چل سکتی ہیں انگریزی محاورے کی رو سے حالات ’’مائع‘‘حالت میں ہیں کسی سانچے میں فٹ ہو سکتے ہیں پاکستان کے عوام کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو 1950 کے عشرے سے خبریں سُنتا آیا ہے بی بی سی اور وائس آف جرمنی ،ریڈیو ایران زاہدان، اکاش وانی اورریڈیو کا بل سے وائس آف امریکہ تک ایک لمبی داستان ہے ایک زمانہ تھا ریڈیو پاکستان کو بھی شوق سے سنا جاتا تھا یہ لوگ اخبار بھی پڑھا کرتے تھے ایسے لوگوں نے وطن عزیز میں نظر یاتی سیاست کو پروان چڑ ھتے دیکھا ہے اور رفتہ رفتہ ختم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں 1950 کے عشرے میں کمیو نسٹوں کو کافر کہا جاتا تھا 1960 اور 1970 کے عشرے بھی اس کشمکش میں گزر گئے کمیونسٹوں کے مقابلے میں مذہب اور مذہبی جماعتوں کا پورا اسٹر کچر کمیونسٹوں کے خلاف چھپتا تھا اُن کے اجتما عات اور جلسوں میں کمیونسٹوں کے خلاف تقریریں ہوتی تھیں 1980 کا عشرہ آیا تو مذہبی جماعتیں حکومت کا حصہ بن گئیں حکومت میں آنے کے بعد حالات نے پلٹا کھایا بظاہر کمیونزم کو زوال آیا تھا مگر حقیقت میں نظر یاتی سیاست زوال پذیر ہوگئی مقابلے میں دشمن نہیں رہا تو مذہبی جماعتوں کی نظر یاتی سیاست دم توڑ گئی اسمبلی کی سیٹ ،سینٹ کی رکنیت اور حکومت میں حصہ ملنے کو تمنا لیکر مذہبی جما عتیں سیکولر جماعتوں کے در وازوں پر دستک دینے لگیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کا تجربہ ہوا عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد ہوتا ہو ا ہم نے دیکھا مسلم لیگ کے ساتھ بھی اتحاد ہوا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی اتحاد ہوا ایک دفعہ نا دیدہ قوتوں کو ضرورت پیش آئی تو 6 مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی ہوا جو نا دیدہ قوتوں کی ضرورت پوری ہونے کے بعد ہمیشہ کے لئے ،شاید قیا مت تک کے لئے ٹوٹ گیا مسئلہ حکومت کا،اسمبلی کی رکنیت کا یا ترقیاتی فنڈ کا نہیں مسئلہ نفا ذ شریعت کا ہے نفا ذ شریعت اتنا بڑا مقصد اور عظم نصب العین ہے کہ اس کے لئے منکرین شریعت کو گلے لگا نا پڑتا ہے گذشتہ 60 یا 70 سالوں سے جو لوگ ملکی سیاست کا جائزہ لے رہے ہیں وہ لوگ دو باتوں پر حیران و پریشان ہیں پہلی بات یہ ہے کہ سیکولر جماعت نے اگر کسی دینی جماعت کو دو چار سیٹوں کی بھیک دیدی ،دو چار وزارتوں کی بھیک ان کی جھولی میں ڈال دی تو نفاذ شریعت میں سکولرازم سے پیچھے نہیں ہٹے گی مذہبی جماعتیں 1973 کے آئین کے تنا ظر میں نفاذ شریعت کے اعلیٰ وازفع مقصد کو بھول جائیگی اور وزارتوں کی چکا چوند کو بھول جائیگی اور وزارتوں کی چکا چوند میں کھو جائیگی یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد تقی عثمانی ،مولانا محمد رفیع عثمانی ،مولاناسلیم اللہ خان اور دیگر جیّدعلمائے کرام نے سیاست کی نفاذ شریعت والی کشتی میں کبھی پاؤ ں نہیں رکھا ان کو پتہ تھا اس کشتی میں بہت جلد سوارخ ہونے والا ہے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن)کے ساتھ اتحاد کرنے والی جماعتیں نفاذ شریعت کا نام کس طرح لینگی ؟جس سٹیج پر اونچی آواز میں گانے بجائے جارہے ہوں اس سٹیج پر نعرہ تکبیر کی آواز کس طرح گونجے گی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیر ا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الاللہ
دوسری اہم بات جس پر اہل نظر حیران و پریشان ہیں وہ پارٹی منشور کا مسئلہ ہے انتخابات منشور کے حوالے سے لڑی جاتی ہیں دائیں بازو کا منشور الگ ہے بائیں بازو کا منشور الگ ہے اگر دایاں بازو ،بائیں بازو کے ساتھ یکجا ہو اتو منشور کیا ہوگا ؟دائیں بازو الا اپنی تقریر میں کیا کہے گا ؟بائیں بازو والے کی تقریر کن نکات پر مشتمل ہوگی ؟یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا اس پورے مسئلے میں اچھا پہلو یہ ہے کہ اس طرح سیاسی جماعتوں کی تعداد کم ہوگی نظریات ختم ہوگئے تو شخصیات اور دولت یا قبیلے کی بنیاد پر ووٹ مانگا جائے گا ملک میں دو یا تین اتحادیں آمنے سامنے ہونگی ڈھائی سو سے زیادہ پارٹیاں دم توڑدینگی ہر اینٹ کے نیچے ایک کاغذی پارٹی نہیں ہوگی اور یہی اس خبر کا مثبت پہلو ہے جن لوگوں کو اپنی مذہبی جماعت کے کھو جانے کا دکھ ہے وہ میرا ساتھ دیں اور علامہ اقبال کی پیروی کریں ۔
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آ ستینوں میں
مجھے ہے حکم اذان لاالہ الا ل