چترالکالمز

چترال میں پی ٹی آئی کے خلاف گہری سازش

بشیر حسین آزاد

اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت انتخابات کی تیاری کررہی ہے۔چترال ٹاون کے 12پولنگ اسٹیشن حکمران جماعت کے لئے بیحد اہمیت رکھتے ہیں۔چترال تحصیل ایڈمنسٹریشن کی باگ دوڑ ایک جماعت کے ہاتھوں میں ہے اور یہ جماعت ہرصورت میں پی ٹی آئی کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔چترال ٹاون کی 80ہزار آبادی کے لئے ایک سازش کے تحت نیاء مسئلہ صوبائی حکومت کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے۔جن لوگوں نے گھراورمارکیٹ بنایا اور جو لوگ نیابنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان سے فیس کے نام پر غنڈہ ٹیکس لینے کا قانون صوبائی حکومت کی طرف سے نافذ کیا گیا ہے۔یہ قانون ملاکنڈ ڈویژن کے کسی اور ضلع یا تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں نہیں ہے۔دیر اپر اور دیر لوئر میں تحصیل ناظم بھی جماعت اسلامی کا ہے۔پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت میں وزیر بلدیات بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہے۔اس لئے وہاں ایسا کوئی قانون نہیں لایا گیا۔اُن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سال بعد الیکشن آنے والے ہیں۔ہم جائز ٹیکس لے سکتے ہیں۔ناجائز بھتہ نہیں لے سکتے ہیں۔چترال میں وزیربلدیات کانام کوئی نہیں لیتا۔عمران خان ،پرویز خٹک کا نام لیا جاتا ہے۔ایم پی اے فوزیہ بی بی کا نام لیا جاتا ہے۔اور کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے زلزلے میں گرے ہوئے مکانوں کی دوبارہ تعمیر سمیت دیگر تعمیرات پر ہزاروں سے لاکھوں روپے تک ٹیکس عائد کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے ایکٹ نافذ کیا ہے ۔قانونی ماہرین کے مطابق تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نئے مکانات کے لئے سیوریج لائن بچھاتی ہے۔پانی کی نکاسی کی نالیاں بناتی ہے۔مکان بنانے سے پہلے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کا عملہ سائٹ کا معائنہ کرتا ہے۔اگر مکان نقشے کے مطابق نہ ہوتو اپنا نقشہ دیدیتا ہے۔نقشے کی فیس لے لیتا ہے۔چترال ٹاون میں نلکوں میں پانی نہیں آتا،سیوریج اور نکاسی آب کے لئے ٹی ایم اے کا کوئی نقشہ ،کوئی لینڈ یوزپلاننگ نہیں ہے۔نئے مکانات کے لئے نقشہ بنانے کا سسٹم لاگو نہیں ہوامکانات کی تعمیرات پر فیس کے نام پر بھتہ وصول کرنے کے لئے مجسٹریٹ کے ذریعے نوٹس پر نوٹس بھیجنے اور ایف آئی آر کی دھمکی دینے کا طریقہ پی ٹی آئی کے خلاف گہری سازش ہے۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور ایم پی اے فوزیہ بی بی کو اس سازش میں شامل عناصر کے خلاف فوری ایکشن لینا چاہیئے۔اگر عمران خان اور پرویز خٹک نے پورے ملاکنڈ ڈویژن کو چھوڑ کر صرف ٹی ایم اے چترال کے حدود میں تعمیر ہونے والے گھروں یا مارکیٹوں پر ٹیکس لینے کا کوئی حکم دیا ہے۔تو اس کی وضاحت ہونی چاہیئے۔ٹی ایم اے کے حکام سے تفتیش ہونی چاہیئے کی ان کے نلکے میں مہینے کے اندر کتنے دن پانی آتا ہے؟اُن کا سیوریج لائن کدھر ہے؟ان کے صفائی کا عملہ کدھر ہے؟ٹی ایم اے کی نکاسی آب کی نالی کہاں ہے؟ان کا بلڈنگ پلان کدھر ہے؟ مکانات کی بنیادیں ڈالتے وقت ٹی ایم اے کا عملہ کیوں موقع پر نہیں گیا؟اورعین الیکشن سر پر آتے ہی چترال ٹاون کی80ہزار آبادی اور12پولنگ سٹیشنوں کے ووٹروں کو ہراسان کرنے کا آخر کیا مطلب لیا جاسکتا ہے؟چترال ٹاون کے عوام نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور وزیر بلدیات عنایت اللہ سے اپیل کی ہے کہ جس ایکٹ کے تحت چترال ٹاون کے اندر غریب شہریوں سے بھتہ لیا جارہا ہے۔وہ ایکٹ پہلے بٹ خیلہ ،تیمرگرہ اور دیر میں نافذ کرکے دکھایا جائے ورنہ اس بھتہ خوری کو پی ٹی آئی کے خلاف سازش کا نام دیا جائے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button