جرائمکالمز

دیامر میں دیرینہ دشمنیوں کے بنیادی اسباب

تحریر۔اسلم چلاسی

یوں تو قاتل اور مقتول کی کہانی انسان کی ابتداء سے چلتی آرہی ہے۔ ہر دور میں انسانیت کے قتل عام کے پیچھے کامیا بیوں کو تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ قبیلوں کے قبیلے صفحہ ہستی سے مٹتے رہے۔ کبھی چرا گا ہوں کے حصول کیلے، کبھی پا نیوں تک رسائی کیلے، ہر دور میں انسان ایک دوسرے سے دست گریباں رہا ہے۔ بستیوں پر چڑھائی کردی، زندہ و جا وید انسان زندہ درگور ہو گئے، رنگ نسل زبان اور قوم کے نام پر انسانیت بے توقیر ہوئی۔ انسان کو ہمیشہ انسانوں کا خوف رہا ہے۔ حالانکہ اسلام نے ایک انسان کا قتل پوری انسا نیت کا قتل قرار دیا ہے اس کے باوجود بھی مسلمان قاتل ہے گویا ایک قتل کرنے والا پورے انسانیت کا قاتل ہو سکتا ہے تو دو قتل کرنے والا دو دفعہ پوری انسانیت کا قاتل ہو گا اور ایسے کتنے لوگ ہمارے معا شرے میں مو جود ہیں جو بیک وقت مسلمان بھی ہیں اور پوری انسانیت کے قاتل بھی۔ ہم عجیب مسلمان ہیں، مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں، قتل غارت بھی ساتھ میں جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ فعل صرف دیامر میں نہیں پوری دنیا اس لعنت میں مبتلا ہے۔

لیکن دیامر میں ایک قتل کے بعد قتال کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اس قتال کا نام دیرینہ دشمنی ہے اور یہ دشمنیاں کئی عشروں پر محیط جاری رہتی ہیں اور کچھ دشمنیاں تو ایک صدی کراس کر جاتی ہیں۔ یعنی کہ ایک نسل گزر جاتی ہے، دوسری سے تیسری نسل آجاتی ہے کہ قاتل اورمقتول کو اپنے گناہ کا علم تک نہیں ہوتا لیکن نا معلوم جرم کا بھینٹ چڑھ جا تے ہیں۔ میرے ناقص معلومات اور تحقیقات کے مطا بق دیا مر میں بیشتر دشمنیاں تین چیزوں پر پیدا ہوتی آرہی ہیں۔ زن۔ زر۔ اور زمین۔ کچھ مقامی منافقت اور غلط فہمی کا بھی نتیجہ ہوتا ہے لیکن عموماً یہ دیرینہ دشمنیوں میں یہ تین چیزیں کار فرما ہوتی ہیں۔ میں نے سابقہ اور مو جودہ ایک سو کے قریب دیرینہ دشمنیوں پر بڑی باریک بینی سے تحقیقا ت کیا۔ ان دشمنیوں میں جتنے بھی قتل و غارت ہوئے ہیں ایک بھی قتل بے وجہ نہیں ہوا ہر قتل کے پیچھے ایک وجہ ہے، ایک کہانی ہے، تب جا کہ معا ملہ خون خرابے تک پہنچا ہے۔ زن پر غلط نظر رکھیں، نا جا ئز تعلقات ہو تو نتیجہ قتل کی صورت میں سامنے آیا ہے، یا کسی کے معیشت خراب کیا گیا ہو معاشی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا گیا ہو تو معا ملہ بندوق کی نوک تک آگیا۔ ا سی طرح بے جا کسی کی زمین چھیننے کی کوشش کیاگیا یا چھینا گیا تو بدلے میں انتقامی طور پر خون خرابہ ہوا۔کچھ دشمنیاں معمولی بحث و تکرار یا بچوں کی لڑائی پر بھی پیدا ہوئی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا تیسرا قتل ہوتا ہے۔ ا سی طرح ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہو تا ہے۔ اب ایک قتل کے بعدانتظامی سطح پر سخت اقدامات ہو، جزا و سزا کا عمل یکسا ں طور پر عمل میں لا یا جائے تو یقینی بات ہے ایک کے بعد دوسرا قتل نہیں ہو تا لیکن ہوتا کیا ہے مقتولین کی طرف سے پہلے تو مر نے والے کی پوسٹما رٹم کی اجازت نہیں دیتے اور اوپر سے قاتل کے ساتھ چار اور بندوں کو بھی قتل اور اقدام قتل میں شا مل کرتے ہی۔ں گولی ایک لگی قاتل پا نچ بنا ئے گئے تو ظا ہر ہے کیس کمزور ہو جاتا ہے جس سے سزاء و جزا کا عمل متا ثر ہوتا ہے اور بہ آسانی قاتل قانون کی گرفت سے بچنے میں کا میاب ہو جا تا ہے۔ اب مقتول کے لو احقین انتقام کے طور پر قاتل یا اس کے کسی عزیز کو قتل کرنے پر مجبور ہو جا تے ہیں۔ اگر ادارے کسی ظالم کے خلاف کاروائی کریں، اس کو انجام تک پہنچا ئے تو یقنی با ت ہے دوسرے عبرت پکڑینگے۔ کوئی جرت ہی نہیں کر سکے گا کسی کو اس کے کیے کی سزا ملا ہی نہیں تو دوسرے بھی اسی طرح کے اقدام کی جرت کرینگے۔ اب سر کار انصاف نہیں کر سکی تو ظاہر ہے لوگ گلی کو چوں، چوک چورا ہوں پر خود ہی انصاف کرنے لگ گئے۔ اب دو افراد کی جو آپس میں دشمنی ہو تی ہے یہ دشمنی صرف دو افراد تک محدود نہیں ہو تی ہے بلکہ اس سے پورا محلہ نہیں بلکہ پورا علاقہ متاثر ہوتا ہے۔ یار دوست تعلق رشتہ قومیت علاقائت کے بنیاد پر کھنچا تا نی ہو تی ہے۔ اخلاقی حما یت کے نام پر منا فقت کا عمل شروع ہو تا ہے۔ بات کو صلح رحمی تک لیے جا نے کے بجا ئے بظا ہر حمایتی ہو تے ہیں۔ اندرونی طور پر مذید الجھا نے کیلے کو شاں رہتے ہیں۔ اگر یہ پارٹی بازی نہ ہو ایک اور ایک کو رہنے دیا جائے، کوئی اخلاقی حمایت نہ ہو تو معا ملہ بہتری کی طرف آ سکتا ہے۔ کچھ دوست دشمنی کے خرا فات کو کم علمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو با لکل غلط ہے۔ اصل معا ملہ جو ہے عدم برداشت کا ہے۔ اب علم کل تو ممکن نہیں ہے پھر بھی ما ن لیتے ہیں دنیا جہا ں کا علم حا صل کیا ڈگریوں پر ڈگریاں بھی جمع ہو گئے مگر آپ کا کو ئی عزیز قتل ہو تا ہے، مجرم پکڑا جا تا ہے ایک سال کے بعد چھٹ کر آپ کے سامنے دھندنا تا پھر تا ہے تو آپ کیا کرینگے؟یا آپ کے جائداد املاک کوئی چھین لیتا ہے آپ کو انصاف نہیں ملتا ہے دوسرا آپ کی جا ئداد پر برے جمان ہو۔ آپ جا نتے ہیں یہ آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے تو آپ کیا کرینگے ؟کسی کے ماں بہن کے ساتھ کسی کے غلط مراسم ہو تو کیا علم کی فراوانی یا درجن بھر ڈگریا ں کوئی قدم اٹھا نے سے کسی کو روک سکتی ہیں؟میرے خیا ل میں ہمارے ہاں علم کی کمی کے علاوہ عمل کا فقدان ہے۔ قرآن کریم کو پڑھتے ہیں مگر قرآن کے تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ ہم قاتل کو تو قصور وار سمجھتے ہیں مگر یہ نہیں سو چتے کہ قتل کیوں ہوا؟وہ کون سے ایسے حالات پیدا ہو گئے جس سے نو بت قتل تک آ گئی؟ایک قتل میں کئی لوگ شا مل ہوتے ہیں۔ چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والا منا فق سے لیکر معا ونت اور حمایت کرنے والے ہمدردوں تک سبھی شا مل ہو تے ہیں۔ کو ئی کسی پر بے جا ظلم نہ کریں، دوسروں کے حقوق چھیننے کی کوشش نہ کریں، اپنے فرائض دوسروں کے حقوق کا ادراک کریں، کسی کے زن زر اور زمین کو حاصل کرنے کی تاک میں نہ رہے۔ ہر کوئی اپنے دائرہ کار میں رہ کر مسلمان ہی رہیے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں معا شرہ امن کی طرف جا ئے گا. لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے ہم جہا لت کو مورد الزام ٹھہرا کر ہر دو کے درمیان تیسرا بن کر کود پڑتے ہیں کسی کے زاتی دشمنی میں ہم فریق بن کر مخا لفت یا حما یت کرتے ہیں اخلاقی حما یت کے نام پر ہم قاتل اور مقتول کے ہر فعل کو جا ئز اور حق قرار دیتے ہیں یہ جو ہم آری بسولہ لیکر دوسروں کو ٹھیک کرنے نکلیں ہیں یہ حضرات زرا سا اپنے گریبا نوں کو جھا نکیں کہ آپ نے ان دشمنیوں کو طول دینے میں اپنا کتنا حصہ ڈالا ہے رشتہ کے نام پر تعلق کے بنیاد پر قومیت کے نام پر میں تو کہتا ہوں ان دشمنیوں کو پیدا کرنے میں ہر کسی کا ہاتھ ہے کوئی بھی بے گناہ نہیں ہے ہر کو ئی قاتل ہے کوئی قتل کر کے قاتل ہے کوئی پنا ہ دیکر قاتل ہے کوئی معاونت کر کے کوئی حما یت کرکے یہاں سب قاتل ہیں۔  جاری ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button