کالمز

سیاستدانوں کے جھوٹ اور حفیظ الرحمن کی ذمہ داریاں۔۔۔۔۔۔۔

عبدالحفیظ شاکر کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔

زن فروشوں کی جہاں بہتات ہو
اور حیاء سوزی کی کالی رات ہو
دور ہو شرم و حیاء سے جب حیات
کیوں نہ ہستی حامِل آفات ہو

جمہوریت، جمہوری اداروں اور ان اداروں سے وابستہ افراد اور شخصیات میرٹ کا نام سنتے ہی آگ بگولہ ہوجاتے ہیں، الفاظ کی بجائے زبان سے انگارے برساتے ہیں، بے چین ا ور مضطرب ہوتے ہیں کہ اتنے پاپڑ بیل کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں اور ابھی جمعہ، جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ہیں ہنی مون پیریڈ ختم نہیں ہوا ہے اور لوگ منہ اٹھائے ہم سے میرٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔۔۔۔۔

ووٹ مانگتے ہوئے جس تکلیف دہ صورتحال سے ہم (سیاستدان) دوچار ہوتے ہیں اس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا، سیاستدانوں سے جب بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ سرکاری ملازمین محنت، مشقت کرتے ہیں، آٹھ گھنٹے روزانہ کام کرنے کے بعد ہر مہینے اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں، تاجر، وکلاء او رمزدور بھی اپنی محنت کا صلہ وصولتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن سیاستدان تو ان سب سے زیادہ محنت و مشقت کرتے ہیں اور نہ صرف محنت و مشقت کرتے ہیں بلکہ ایک سے زیادہ مرتبہ بے عزتی بھی برداشت کرتے ہیں اور ان لوگوں کی باتیں بھی پورے صبر ،حوصلے اور ہمت کے ساتھ سنتے ہیں جن کو عام حالات (الیکشن کے بعد عام حالات) میں قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔

سیاستدانوں کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان کے ذہن، دل و دماغ میں یہ بات رچ، بس چکی ہوئی ہے کہ الیکشن جیتنے کیلئے پاؤں پکڑو، جھوٹے وعدے اور اعلانات کرو، مذہب، ذات، برادری اور علاقائی تعصبات کو عام کرو، اپنے آپ (ووٹ مانگنے والا) کو انسان دوست، عوام کا ہمدرد ظاہر کرنے کیلئے اداکاری کے تمام جوہر دکھاؤ، اگر پہاڑی کی چوٹی پر بھی10ووٹر ہیں تو ان تک پہنچنے کیلئے کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو خاطر میں مت لاؤ۔۔۔۔۔۔

اس مشقت میں زیادہ سے زیادہ 3ماہ کا عرصہ لگ جائے گا، اگر یہ تمام حربے کامیاب ہوگئے اور الیکشن میں کامیابی ملی تو پھر اس محنت اور مشقت کا پھل سمیٹنے کی حکمت عملی پر غور شروع کیا جاتا ہے، انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی اس مشقت جس میں بے عزتی کا مزہ بھی چکھنا پڑتا ہے کا معاوضہ وصولنے کیلئے سب سے پہلے محکمہ تعمیرات عامہ ذہن میں آتا ہے کہ کونسا ٹھیکہ منافع بخش ہے اور اپنے کسی قریبی عزیز کو ٹھیکہ دلایا جائے، اس کے بعد تمام سرکاری محکموں میں خالی آسامیوں کی تلاش شروع کی جاتی ہے، پھر ان آسامیوں پر سب سے پہلے اپنے قریبی عزیزوں (بھتیجوں، بھانجوں، بھانجیؤں اور بھتیجیوں) کو کھپانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس کے بعد خرچہ پانی یعنی پیسے لے کرAppointments کے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے، حد تو یہ ہے کہ ایم ایل اے یا وزیر کے بعض قریبی لوگ سادہ لوح لوگوں کو پھنسانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں اور اکثر کامیاب ہوتے ہیں اور ان سادہ لوح لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ ایڈوانس رقم جمع کرادو، آپ کا کام ہوجائے گا، کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ نوکری دلانے کیلئے رقوم کی وصولی باقاعدہ اسٹامپ پیپرز کے ذریعے کی گئی اور نوکریاں نہ ملنے پر کئی جرگے منعقد ہوئے اور قسطوں پر رقوم کی واپسی کا عمل شروع ہوگیا۔۔۔۔۔

الیکشن سے قبل میرٹ، میرٹ او رصرف میرٹ کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے الیکشن جیتنے اور اقتدار کی منزل یا کرسی تک پہنچنے کے بعد نہ صرف میرٹ کا قتل عام کرتے ہیں بلکہ نوکریاں دینے اور مالی امداد کے جھانسے دے کر عزتوں پر بھی ہاتھ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو میں اگلے کسی کالم میں مزید واضح انداز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔

صحافی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ بحیثیت صحافی ہم ان سیاستدانوں کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی حرکات و سکنات، بیانات اور انداز کس طرح کا ہوتاہے اور کچھ عرصے یا چند سالوں بعد یہی لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کی ترجیحات کس طرح یکسر بدل جاتی ہیں یا باالفاظ یہ (سیاستدان) کس طرح یوٹرن لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اپنے ذاتی معمولی اور گھٹیا قسم کی مراعات اور مفادات کیلئے تمام قواعد و ضوابط کو کس طرح پاؤں تلے روند کر اداروں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جعلی ادویات سے لے کر جعلی بلات تک کی کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں۔۔۔۔۔ اور چند سال قبل تک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر اسی طرح کے دھندے کرنے والے حکمران اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت وقت کے خلاف اخباری بیانات اور چنچنے چلانے کا عمل جاری رکھتے ہیں تاوقتیکہ ان کو دوبارہ اقتدار نہیں مل جاتا اور پھر پہلے سے بھی زیادہ ہٹ دھرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی سے لوٹ مار اور کرپشن کا سلسلہ وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے یہ عمل ٹوٹا تھا اور یوں ’’میوزیکل چیئر‘‘ کا عمل جاری و ساری ہے اور جاری و ساری رہے گا۔۔۔۔۔۔

مجھ سمیت دیگر صحافیوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ سیاستدانوں کی خلوت و جلوت (ظاہر و باطن) کا بغور مشاہدہ کرسکتے ہیں اور ان کی نجی محفلوں میں کی جانے والی باتوں، آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ گفتگو ، ان کی خفیہ اور ظاہری سرگرمیوں، منافقانہ رویے، دوغلے پن ا ور اخلاقی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھتے ہیں اورجب یہ لوگ (سیاستدان) عوامی اجتماعات میں عوام کے حقوق، حق ملکیت، حق حکمرانی، میرٹ، غریب عوام سے ہمدردی، اچھے اور برے کی تمیز، سزاء و جزاء کے نظام کے قیام، گڈ گورننس سمیت اخلاقیات پر دھواں دار تقریریں کرتے ہیں تو ان کا اصلی چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے اور کبھی کبھار ہم (صحافی) عجیب سی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں کہ یہ لوگ عوام کے ساتھ نفاست اور شرافت کا لبادہ اوڑھ کر کس سائنٹفک انداز میں واردات کرجاتے ہیں۔۔۔۔۔

میرا ذاتی مشاہدہ یہی ہے کہ تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک کو جمہوریت راس ہی نہیں آتی ہے، ہندوستان اپنے آپ کو جمہوریت کا چمپئن گردانتا ہے، لیکن اس بات سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان میں تقریباً20کروڑ لوگ اپنی زندگی کے شب و روز فٹ پاتھ پر گزارتے ہیں، کیا20کروڑ لوگ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو چاٹ جائیں گے، اسی طرح پاکستان بھی جمہوریت اور آمریت کے درمیان ہچکولے کھاتا رہاہے، تاہم غربت، ظلم اور زیادتی کے حوالے سے پاکستان کا ٹریک ریکارڈ ہندوستان سے بہت بہتر ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کرپشن، میرٹ کی پامالی اور اقرباء پروری کا موازنہ جمہوریت اور آمریت سے کیا جائے تو جمہوریت کا پلڑا بھاری ہے۔۔۔۔۔

تیسری دنیا کے ان ممالک جن میں بھوٹان، سری لنکا، نیپال وغیرہ شامل ہیں اور جہاں ہندوستان اور پاکستان ماڈل جمہوریت نہیں ہے ان کی معیشت ، رہن سہن اور ذرائع آمدن بہترہیں۔۔۔۔۔

میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سے دست بستہ گزارش کروں گا کہ وہ اپنی کابینہ کے وزراء، قریبی ساتھیوں، دوست اقارب اور رشتہ داروں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں، گلگت بلتستان کے عوام اب بھی آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے کسی بھی عمل سے آپ کی سحرانگیز شخصیت کا سحرٹوٹ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ گلگت بلتستان کے عوام آپ سے صرف اور صرف میرٹ کی توقع رکھتے ہیں، ممکن ہے آپ میرٹ کی بالادستی کے عزم پر اب بھی قائم و دائم ہوں گے، لیکن آپ کے بعض وزراء سمیت کچھ قریبی ساتھیوں کا طرز عمل اس کی نفی کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ اس بات کو جھٹلا سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو میرٹ راس نہیں آتی، سیاستدان جھوٹے وعدے کرتے ہیں، سیاستدانوں کا رویہ ووٹ بٹورنے تک کچھ اور ووٹ لینے کے بعد بالکل مختلف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس بات کو بھی جھٹلانے کیلئے قدرت نے آپ کو ایک بہترین موقع عنایت کیا ہے کہ سیاستدان عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے کے بعد بعض اوقات ذلت آمیز حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔

جمشید خان دکھی کے ان اشعار کے ساتھ اجازت۔۔۔۔۔۔۔

مرے دیار کی قسمت میں شام لکھا ہے
کبھی فساد کبھی قتل عام لکھا ہے
میں اپنی جاں ہتھیلی پہ لیکے پھرتا ہوں
نہ جانے کون سی گولی پہ نام لکھا ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button