کالمز

ماحولیاتی تبدیلیوں کے تری شنگ،روپل کے گلیشرز پر اثرات

تری شنگ اور روپل استور کے جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ تری شنگ سطح سمندر سے 2911 میٹر بلند ہے جبکہ روپل سطح سمندر سے 3000میٹر بلند ہے۔ تری شنگ و روپل دو انتہائی اہم اہمیت کے حامل گاوں ہیں۔ جو اپنی قدرتی جٖغرافیائی ساخت، آب و ہوا ، قدرتی ذخائر، دنیا کے بلند ترین پہاڑ اور دنیا کے منفرد گلیئشرز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ تری شنگ و روپل کا شمار دنیا کے معروف سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ تری شنگ و روپل کی سب سے بڑی اہمیت  یہاں نانگاپربت کا واقعہ ہونا ہے۔ نانگا پربت دنیا کا پانچواں بلند ترین پہاڑہے، جو قاتل پہاڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ نانگا پربت کی بلندی سطح سمندر سے 8126 میڑ ہے۔ ہر سال ہزاروں سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اور یہاں کی خوبصورتی اور قدرتی مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔ تری شنگ و روپل چاروں طرف سے پہاڑوں اور گلیشرز سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
 اس علاقے میں پانچ بڑے گلیشرز پایے جاتے ہیں
جن میں
چھیمپھر گلیشرز   Chungphare Glacier
Bizhin Glacier بزینو گلیشر
 tap Glacierٹاپ گلیشر
Shaigiri Glacier شگری گلیشرز
Rupal Glacier روپل گلیشر
 تری شنگ و روپل میں نانگا پربت کے علاوہ تین بڑے پہاڑ جو کہ 7000میڑ سے زیادہ بلند ہیں، واقع ہیں ۔ جن میں لیلی پیک ، شگری پیک بہت مشہور ہیں۔
تری شنگ اور روپل میں پائے جانے والے گلیشرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ مقامی لوگ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ گلیشرز کی سطح میں گزشتہ دس سالوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہے۔ گلیشرز اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے صحافی اور ماہرین کے مطابق سن 2000سے گلیشرز کے پگھلنے اور سرکنے کے عمل میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہےکہ 2007 -2010 کے درمیان گلشرز پھٹنے کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔ جون 2010 میں ٹاپ گلیشرز میں زور دار دھماکے ہونے لگے اور ان دھماکوں کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ اور گلیشرز کے پھٹنے کا پریشر اتنا شدید ہوتا تھا کہ گلیشر کے ٹکڑے اور  پتھر دور دور تک اڑ جاتے تھے۔سلطان علی جو کہ پہاڑوں میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ ہوتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ دن کے وقت ہم پہاڑ میں بیھڑ بکریاں چرانے کے لیے لے جاتے ہیں اس وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گلیشر زور دار دھماکے سے پھٹ رہے ہیں اور گلیشر کے ٹکڑے اور پھتر آسمان کی طرف اڑ رہے ہیں اور دور دور جاکے گرتے ہیں دھماکے کی آوازیں سن کر ہمارے جانور بھی ڈر جاتے تھے اور بھاگنے لگتے تھے۔ ان دھماکوں کی زد میں آکر ہمارے کئی جانور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ گلیشر کے پٹھنے سے دو سے تین سال کے لیے گلیشرز کے درمیان سے گزرنے والا راستہ منقطع ہوگیاتھا۔
2010 میں ہی تری شنگ و روپل میں دریائی کٹاو کا ایک بڑا حادثہ وقوع پذیر ہوا ۔ ٹاپ گلیشرز کے پھٹ کر گلیشر کا ایک بڑا حصہ دریائے استور میں جاگرا، جس کی وجہ سے دریا رک گیا اور پھر اس میں ایک زور دار دھماکہ ہوا یوں دریا کا پانی ریلے کی شکل اختیار کرگیا  اور 7 دیسی ساختہ پل سمیت تری شنگ و روپل کے درمیان بننے والا ایک بڑا سرکاری پروجکٹ مکمل تباہ ہوگیا۔ زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچا ، جنگلات بھی اس ریلے کی زد میں آئے۔
 مقامی لوگ گلیشرز کے پھٹنے کے عمل کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ان کے مطابق زلزلوں کی وجہ سے گلیشر ہل رہے ہیں اور سرک رہے ہیں جب کہ گلیشرز کے پٹھنے اور سرکنے کی اصل وجہ زمین کا درجہ حرارت ہے جس کو سائنسی زبان میں GOLF
 کہا جاتاہے۔
مقامی صحافیوں کے مطابق  نانگا پربت میں گلشرز کے تیزی سے پگھلنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ جن میں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ بڑی وجہ ہے۔
نانگا پربت اور اس کے اطراف میں پائِے جانے والے پہاڑوں میں جنگلات کا تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگ ایندھن اور تعمیراتی لکڑی کے لیے سدا بہار جنگلات کی کٹائی کررہے ہیں۔ ضلع استور کے محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف کی رپورٹس کے مطابق 2010-2017 تک 70 فیصد جنگلات کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔جنگلات کی خاتمے کی بڑی وجہ  بجلی کی مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل ایندھن کے دھوئیں سے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے، نانگا پربت میں زیادہ تر جنگلات سدا بہار ہیں۔ مقامی لوگوں  کے مطابق  اور صوبائی حکومت ، محکمہ جنگلات اور محکمہ ماحولیات و وائلڈ لائف جنگلات کے بے دریغ کٹاو میں روکنے میں مکمل ناکام ہیں اور ان کی عدم توجہی کی وجہ سے جنگلات کا خاتمہ ہورہا ہے۔
 ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ضلع استور میں برف باری کا موسم بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ نانگا پربت اور اس کے مضافات میں برف ستمبر سے فروری تک پڑتی تھی۔گزشتہ 10 سالوں میں برف باری مارچ سے اپریل میں ہونے لگی ہےاور برف کم پڑتی ہے۔ مارچ سے اپریل میں پڑنے والی برف قلیل مدتی ہوتی ہے یعنی وہ جلدی پگھل جاتی ہے اور دیر پا نہیں ہوتی جبکہ ستمبر سے فروری میں پڑنے والی برف دیرپا ہوتی ہے وہ سخت ہوتی ہے اور زیادہ ٹھوس ہونے کی وجہ سے جولائی اگست تک پگھلتی ہے اور یوں پانی کی کمی کو پورا کرتی تھی۔
غیر موسمی برف کے پڑنے سے پانی کی قلت کا سامنا ہے جس سے زراعت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے غیر موسمی بارش ہونے لگی ہیں جو فصلوں کو تباہ کردیتی ہیں جس سے مقامی لوگوں کی معشیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
ان علاقوں میں گرمیوں میں سخت گرمی پڑنے لگی ہے، زیادہ گرمی اور بارشوں کی کمی سے قدرتی حیات اور پالتوں جانور متاثر ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں سبزہ ختم ہورہا ہے۔
موحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمیوں میں گلیشرز کے پگھلنے اور پھٹنے سے زمینی کٹاو بھی ہورہا ہے جس سے زرعی زمینیں متاثر ہورہی ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے ہمیں طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبے اپنانے ہونگے۔ ہمیں حکومت اور مقامی لوگوں کو ان مصوبوں پر عملدرآمدکو یقینی بنانے کے لیے ان کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہوگا تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نقصانات کم سے کم ہوں۔
سب سے پہلے دریا کے قریب آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہوگا
ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے ہمیں جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا خاص کر قدرتی جنگلات کو جو کہ سدا بہار جنگلات ہیں ان کا تحفظ ماحولیاتی تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹ ہوگا۔
اس کے ساتھ ماحول دوست درختوں اور پودوں کا اگانا ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں زراعت کے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا اور خاص کر کیمیائی مواد جیسے کھاد اور دیگر ادویات کے استعمال کو ترک یا کم سے کم کرنا ہوگا جن کے ماحولیات پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ مختلف گیسز کے اخراج کو کم سے کم کریں۔ ایندھن کے طور پر لکڑی ، گوبر کے بجائے ایل پی جی اور بجلی کے استعمال کو رائج کریں۔
گلیشرز تیزری سے پگھل رہے ہیں اس لیے ہمیں گلیشر کرافٹنگ کے عمل کو بھی رائج کرنا ہوگا۔ اس سے ہماری وقتی پانی کی ضرورت بھی پوری ہوگی اور درجہ حرارت کے لیے بھی یہ عمل سو مند ہوگا۔
ہمیں گلیشرز کے تحفظ کے لیے گلیشرز کے پر موجود پتھروں اور بجری وغیرہ کو تعمیرات کے لیے استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد کرنی ہوگی کیوں کہ قدرت نے پتھروں اور بجری کے ذریعے گلیشرز کو محفوظ رکھا ہے جب ہم گلیشرز کی حفاظتی سطح کو ہٹاتے ہیں تو گلیشرز براہ راست گرمی سے متاثر ہوکر پگھلتے ہیں۔
گلیشرز کے اوپر سے گزرنی والی سڑکوں اور راستوں کے استعمال کو کم سے کم کرنا ہوگا کیوں کہ گلیشرز کے اوپر بنی سڑکیں گاڑیوں کے دھوئیں اور درجہ حرارت کا باعث بنتی ہیں جس سے گلیشرز پگھل جاتے ہیں۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button