شیر جہان ساحلؔ
کہتے ہیں کہ سکندر اعظم جسے دنیا کا عظیم فاتح تصور کیا جاتا ہے، جب دنیا فتح کرنے کیلئے تیار ہوا اور اپنی آرمی ساتھ لیکر اپنے شہر سے نکلنے سے پہلے اپنے استاد( گرو) یعنی ارسطو کے پاس کیا اور اسے پوچھا کہ وہ دنیا فتح کرنے جارہے ہیں اور واپسی پر آپ کے لئے کیا لیکر آؤں۔ ارسطو نے جواب دیا کہ میری صرف ایک خواہش ہے کہ میں انڈیا کی کسی عظیم ماسٹر(استاد) سے ملوں اور اس کے ساتھ رہوں۔ سکندر جو کہ ارسطو کی بہت قدر کرتا تھا اور اسے اس دور کا سب سے عقلمند انسان مانتا تھا۔ اور اسے یقین تھا کہ ارسطو سے کچھ بڑھ کر نہیں ہے اور وہ ارسطو کی کسی خواہش کو نظرانداز نہیں کر تا تھا۔ اور اس بار بھی وہ وعدہ کیا کہ وہ انڈیا کے سب سے عظیم ماسٹر کو ضرور لیکر آئیں گے۔ کیونکہ سکندر اعظم کو یقین تھا کہ یہ کام انتہائی آسان ہے کیونکہ وہ بادشاہ ہے اور جسے چاہے ساتھ لا سکتا ہے۔
کئی مقامات فتح کرنے کے بعد سکندر آخر انڈیا پہنچ گیا اور وہاں کئی سلطنتون کو فتح کیا اور کئی بادشاہوں نے اس کے پاؤں پڑ کر جان بخشی کی فریاد کئے۔ اور اسطرح کامیابی اور انا میں مست انڈیا کی مہمان نوازی سے خوب لطف اندوز ہوا۔ لیکن جب واپسی کا وقت ہو ا تو سکندر کو اچانک اس کا وعدہ یاد آیا جو وہ اپنے گرو (ارسطو) سے کرکے آیا تھا۔ اس کے فوراً بعد وہ اپنے سپاہیون کو حکم دیا کہ اسے انڈیا کی سرزمین سے ایک ماسٹر چائیے جسے یہاں کے لوگ گرو مانتے ہو اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گا اور اپنے گرو کو پیش کرے گا۔ سپاہیون نے اپنے نئے فتح کردہ سلطنت میں پھیل گئے اور لوگو ں سے بھی پوچھ گوچھ شروع کئے مگر سب نے کہا کہ اصلی گرو شہر سے باہر جنگل میں ملے گا اور اسی طرح سپاہی جنگل کی طرف نکل گئے اور آخر کار بہت سارے لوگوں کی سفارشات کے بعد وہ اس شخص کے پاس پہنچ ہی گئے جسے لوگ حقیقت میں گرو مانتے تھے۔ وہ اسے دیکھ کر خوفزدہ ہوئے جو ننگے حالت میں چٹان کے اوپر لیٹے ہوئے سورج کو گھور رہا تھا اور اپنے مشن میں گھوم تھا اور اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ لوگ اس کے اردگرد جمع ہوئے ہیں۔ سپاہیون نے اسے پاگل سمجھا مگر گاؤں والوں نے انہیں قائل کئے کہ یہ ہی یہاں کا سب سے بڑا گرو ہے۔ سپاہی قائل ہوئے اوراسے بات کرنے کی کوشش کئے ۔ اسے پیسے کا افردیا گیا، دولت اور اچھی زندگی اور اپنے ساتھ لے جانے کا کہا گیا۔ ہر طرح کی لالچ دئیے گئے مگر کوئی جواب نہیں ملا ۔ اس کے بعد مختلف زبانون کا ترجمان استعمال کیا گیا مگر بے اثر۔ وہ سورج کو گھورتا رہا اور اپنے اردگرد کے مجموعے سے بے خبر ۔ سپاہیون نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرلئے اور اسے کپڑا پہنا کر سکندر کے سامنے لایا گیا۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر سکندر سوچا کہ سپاہیون کو بیوقوف بنایا گیا ہے کیونکہ یہ ایک عام آدمی لگتا ہے۔
شہنشاہ (سکندر) اسے دیکھا اور کہا خوشی ہوئی آپ سے ملکر اور میں آپ کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں اپنے عظیم گر و ارسطو کے پاس جسے میں وعدہ کرکے آیا ہوں۔ اسے کو ئی پروا نہیں تھا اور مسلسل خاموشی اپنا یا ہوا تھاا۔ وہ اپنے بدن پر ان کپڑون کو دیکھ رہا تھا جو اسے تکلیف دے رہے تھے اور وہ اسے اتارنا چاہتا تھا مگر نہیں کر پارہا تھا۔ اس کی خاموشی سکندر کو ناراض کررہا تھا۔ اوروہ(سکندر) اسے متاثر کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیاتم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ سکندر نے پوچھا؟ مگر وہ صوفی دلچسپی کے بے غیر اس کی طرف دیکھا۔ تو سکندر نے مزید کہا کہ میں سکندر اعظم ہوں جو انسانی تاریخ میں پہلا آدمی ہے جس نے یہ دنیا فتح کیا۔ اور تمھارا ملک بھی ۔ اور یہ زمین جس پر تم کھڑا ہو میری سلطنت ہے۔ یہ سنے کے بعد صوفی پاگلوں کی طرح ہسنا شروع کیا اور یہ ہسی سکندر کو اور برھم کر دیا۔ سکندر نے کہا یہ کیا مذاق ہو رہا ہے ۔ وہ صوفی کہنے لگا کہ تم شہنشاہ ہو اور وہ بھی مرے لئے!!! ۔۔۔ تم ایک جاہل بچے کی طرح نظر آتے ہو جو دولت کے نشے میں قابو سے باہر ہواور میں آپکو فاتح تصور نہیں کرسکتا۔ سکندر اور اس کے فوجی ہل گئے مگر وہ صوفی جاری رہا اور پوچھا؟ کہ تم نے کیا فتح کیا اور کہاں ہے وہ سارا زمین جسے تم نے فتح کیا؟ دیکھاؤ!! تم صرف لوگوں کی ایک غیر مستحکم بیڑ کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے ہو جو تمھاری لالچ کی خاطرتمھارے ساتھ امن سے رہ رہے ہیں۔ تم نے لوگوں کا سکھ چھین لیا اور کتنوں کو مار دیااور کتنے خاندانون کو اجھاڑ دیا جو امن سے رہ رہے تھے۔ مجھے دیکھاؤ کہ آپ کو انا سے بڑھ کر کیا ملا؟کچھ نہیں ! تم صرف برباد کرنا جانتے ہو۔ تم چیزون کے درمیان توازن کو برقرار نہیں رکھ سکتے ہواور صرف پریشان کرسکتے ہو ۔ تم یہاں سے کچھ نہیں لے جا سکتے ہو صرف عارضی دولت کے علاوہ۔ وہ صوفی کہتا گیا اور سکندر سنتا گیا اور انجام یہ ہو ا کہ سکندر کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جب واپس اپنے شہر پہنچا تو رات کا وقت تھا اور اگلی صبح اپنے گرو کے سامنے پیش ہوا اور دیکھا کہ وہ سقراط کے کشتی نما پیالی میں لیٹ کر سورج کو گھور رہا تھا ۔ سکندر اس کے سامنے کھڑا ہوا ۔ ارسطور کو معلوم ہو گیا تھا کہ سکندر خالی ہاتھ لوٹاہے مگر وہ خاموش تھا۔ سکندر نے جب کہا کہ گرو میں تمھارا شاگرد ہوں اور دنیا فتح کرکے آیا ہو !! تو ارسطو مسکرایا اور کہنے لگا کہ ہٹ جاؤ میرے سامنے سے سورج کی روشنی آنے دو۔ تم ہوس کے پجاری بن چکے ہو ، تم زمین کیا آسمان بھی فتح کرو تو تمھارا نظر ستاروں کی طرف بڑھے گی اور تمھارا ہوس کھبی بھی نہیں بھرے گا۔ یہ ارسطور کے وہ تاریخی الفاظ تھے جو سکندر اعظم کے باقی مندہ زندگی بدل کررکھ دئیے تھے۔ اور کہا جاتا ہے کہ سکندر نے وسیت کیا تھا کہ مرے جنازے کو دفنانے سے پہلے میر ے دونوں ہاتھ باہر رکھ دینا تاکہ دنیا کو یہ باور ہو سکے کہ وہ جو دنیا فتح کیا تھا آخری وقت میں خالی ہاتھ چلا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان جب طاقت اور ہوس کے نشے میں لگ جاتا ہے تو اس کے حصول کے لئے کسی بھی حد کو پار کرجاتا ہے اس کی انکھوں میں غفلت کی پٹی سی پڑ جاتی ہے اور وہ اس مقصد کے لئے کچھ بھی کر جاتا ہے چاہے اس کے لئے انسانیت کا گلہ گھونٹنا پڑے وہ کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔ طاقت اور شوق کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں انسان اگر کچھ فتح یا حاصل کرنا چاہتا ہے تواسے چائیے کہ سب سے پہلے اپنے آپ پر اور اپنے پھردماغ پر قابو رکھے اورا گر ایک لیڈر اپنے چھ فٹ کے بدن پر قابو نہیں رکھ سکتا تو وہ دنیا پر کس طرح قابو پاسکتا ہے۔ اس کے لئے ضروی ہے کہ بندہ اپنے دماغ کو اور پھر اپنے زبان کو قابو میں رکھے ۔ اور آج کل کے ملکی حالت دیکھ کر یہ کہنا غلظ نہیں ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈران اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف اور صرف طاقت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اخلاقیات اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے وہ ملک کے مقدس ایونون میں بھی دست وگریباں ہوجاتے ہیں اور ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جنہیں زیب قرطاس کرنے سے میرا قلم قاصر ہے۔ اور تو اور جب چھوٹے لڑائی کرتے ہیں تو بڑے بیچ میں آکر صلح کرتے ہیں اور معذرت کرکے معاملہ نمٹا نے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہاں بڑے بھی اخلاقی دولت سے محروم اور طاقت کے نشے میں مست دیکھائی دیتے ہیں۔ وہ طاقت اور کرسی کے حصو ل کے لئے اخلاقیات کے کسی بھی حد کو پار کر جاتے ہیں۔ انہیں کردار سے کوئی غرض نہیں وہ ہوس کے غلام بن گئے ہیں۔ اور بذبان شاعر۔۔۔
ہوس مشیر ہو جس بادشاہ کی ساغر تو اس غلام پر درویش مسکراتا ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button