Uncategorized

وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن کا دورہ دیامر

ہمارے مسلم لیگی دوست بڑے خوش تھے کہ،، دیر آئد درست آید ۔۔۔۔۔۔مگر وہ بیچارے کیا جانے جب حد سے زیادہ دیر ہو تو اندھیر ہی ہو جاتا ہے ۔ وہ آئے اس ادا سے کہ بس چلے ہی گئے۔ تین دن سے داریل تانگیر اور دیگر دور دراز دہاتوں سے آئے ہوئے متوالے چلاس پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاوس کے بیرونی در و دیوار کو تکتے ہی رہ گئے۔ مگر کچھ درجن بھر خوش نصیب ان میں سے ایسے بھی تھے جو ایڑی چوڑی کا زور لگا کر اس تنگ و تاریک ریسٹ ہاوس کے اندرونی حصے تک تو پہنچ گئے مگر کیا کریں وہاں بھی ان بیچاروں کو شرف دیدار نصیب نہیں ہوا ایسے ایسے چوغے شال اور شاٹی کے ساتھ چلاسی ٹوپیاں کہ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آئے ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نے آپس میں بانٹ دیا کچھ بغل میں دبا کر واپس لے گئے۔ ایک آدھ نے تو میرے سامنے غصے میں ایسی خوبصورت دیسی شال کا وہ حشر کردیا کہ مجھے وہ لچک دار بھولی بالی شال دو دفعہ خواب میں نظر آئی ۔۔۔۔۔ اور یقین جانیے میں ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آسکا ۔۔۔۔۔  تھوڑی سی ہوشیاری کر لیتا تو آج اس خوبصورت کالی شال کا میں اکلوتا مالک ہوتا لیکن کاش قسمت اپنی اپنی۔۔۔

خیر شال سے ہاتھ دھونے کے بعد میری حالت اس قدر بگڑ گئی کہ میں اس غم کی گھڑی میں اپنے کسی لیگی دوست سے دو چار شب تعزیت تک نہیں کر سکا۔۔۔۔۔۔۔۔  اورعالم یہ تھا کہ ریسٹ ہاوس سے باہر اندرونی منظر کے آس میں بیٹھے ہوئے سینکڑوں کارکن شرف دیدار حاصل کرنے والے ضلعی پارٹی قائیدین کے تاک میں بیٹھے ہوئے تھے جو ہی یہ درجن بھرمتوالے باہر آئے پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے عوام کا سمندر جمع ہو گیا اور اس کے بعد کا احوال قلم و قرطاس کا نہیں ہے دو گھنٹہ مسلسل لیگی کارکنوں میں بحث و مبا حثہ جاری رہا اتنے میں حاجی حیدر خان کو کسی طرح سے خبر ہوئی کہ شہر کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے اپر پہنچ چکا ہے توموصوف فورً تشریف لائے اور لیگی کارکنوں کو سمجھانے میں تین گھنٹے لگا دیے اس موقع پر داریل سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے سوالات کے بو چھاڑ میں وہ انتخابی وعدے وعید یاد دلائے جس میں دودھ اور شہد کی نہروں کا خاص طور پر زکر تھا کچھ سادح لوح بزرگ تو داریل تانگیر ضلع کا اعلان سننے کیلے آئے تھے جس پر حاجی حیدر خان وزیر اکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے سمجھا یا کہ ضلع کا معا ملہ وزیر اعلی کے دایرہ کار کا نہیں ہے بلکہ یہ وزیر اعظم کی کارستانیوں میں شامل لا حاصل خواب ہے جس پر ابھی تک سوچا جا رہا ہے وزیر اعلی صرف سفارشات وزیر اعظم کو پیش کر سکتا ہے اور وزیر اعظم وزیر اعلی کے سفارشات پر ضلع کی منظوری دیتا ہے جیسا کہ شگر کھرمنگ ہنزہ نگر کو ان رتبوں پر فائز کیا گیا ہے ۔خیر بڑی محنت مشقت کے بعد حاجی حیدر خان مسلم لیگی متوالوں کو سمجھانے میں کا میاب ہو گئے مگر دیامر کے عام عوام وزیر اعلی کے اس دورے سے سخت ما یوس ہوئی چو نکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ وزیر اعلی اس دورے میں دیامر کے عوام سے کھل کر بات کرینگے اور جو مایوسی ہے وہ کم از کم ہو جائے گی مگر معاملہ اس کا بر عکس نکلا وہ آئے اور چلے گئے کے مصداق صرف سرکاری مشینری تک محدود رہے عوامی مسائل اور عوام سے کوئی تعلق نہیں رہا مختلف علاقوں کے وفود وزیر اعلی سے عوامی مسائل لیکر آئے ہوئے تھے ان کو انتظامیہ نے آس پاس بھٹکنے ہی نہیں دیا سب کو دھتکار کر واپس کردی حتی کہ دیامر یوتھ فورم جیسے عوامی مسائل کے حل میں ہمیشہ دستیاب رہنے والی تنظیم کے کار کنوں کو بھی وزیر اعلی سے دور رکھا گیا

دیامر گرینڈ جر گہ جو ہمیشہ حکومت کے ہاتھ بٹانے والے معززین پر مشتمل ایک پلیٹ فارم ہے ان کی رسائی بھی وزیر اعلی تک نہیں ہوئی ڈیم متا ثرین کے ایک وفد اپنے بے شمار تحفظات کے اظہار کیلے وزیر اعلی کے اس دورے کا شتدت سے انتظار میں تھے ان کو بھی پرے ہٹا دیا متا ثرین کے آبادکاری کے حوالے سے ایک وفد الگ سے ملاقات کیلے خواہا تھی وہ بھی خالی ہاتھ لو ٹے دیا مر کے ڈس ایبل افراد کے نما ئندے بھی شرف ملاقات سے محروم رہے علما ء کے وفود سے بھی ملاقات ممکن نہیں ہوا ۔تحفظ جنگلات جنگلی حیات کے ایک نما ئندہ وفد ایک ہفتے سے ملاقات کے تگ ودو میں تھے مگر ان کو بھی کاش کہنا پڑا ۔تعلیم پر کام کرنے والی ایک سوشل تنظیم جو تعلیمی حوالے سے بات کرنا چاہتے تھی وہ بھی ما یوسی کے شکار رہے دہی مسائل پر بات کرنے والے دہاتوں سے آئے ہوئے کئی وفود بھی خواہ مخوا کے چکر کھا گئے۔ترقیاتی کاموں پر سست رفتاری کے شکایت لیکر آنے والے بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ایک فلاحی تنظیم جو دیامر میں پیدا ہونے والے قبائلی جگڑوں کو ختم کرنا چاہتی ہے جس کو حکومتی تعاون درکار تھا مگر وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی۔عوام جو وزیر اعلی کی تقریر سننا چاہتی تھی وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا عوام تو دور کی بات ہے خد مسلم لیگی جیا لے جنھوں نے اپنے ادھی زندگی مسلم لیگ کیلے صرف کی ان سے مصا حفہ تک نہ ہو سکا انتظامیہ کی طرف سے چند لوگوں کو ریسٹ ہاوس کے اندرونی حصہ تک جانے کی اجازت تو دی گئی مگر وہاں ایک مخصوص ستون کے ارد گرد برے جمان رہنے پر مجبور کردیا اور لیے دیکر دو اہم تنظیمی رہنماؤں کو وزیر اعلی کے قریب قریب رہنے کا سعادت نصیب ہوا مگر وہ بھی منہ میں زیرہ لیکر واپس آگئے کسی کو کچھ کہنے کی اجازت ہی نہیں تھی مجھے پہلی دفعہ زبان کا روزہ دیکھنے کا موقع ملا جہاں صرف سننے کی اجازت تھی زبان و بیان پر قدغن لگا ہوا تھا جو مہمان آئے تھے ان کو نہ ہمارے خیالات ضروریات کا کچھ علم ہوا نہ ہمیں ان کی نیتوں کے با رے میں مستقبل کے حوالے سے کچھ ادراک ہوا کچھ انتظامی پہلوان ترقیاتی جادوئی شب میں اتنے آگے گئے کہ جناب وزیر اعلی کو خبر تک نہیں ہوا کہ کب وقت ختم ہو گیا ہے اب واپس بھی جانا ہے اس ترقیاتی کاموں کے زمہ دار آفیسر نے ماحول کو اس قدر سحر زدہ کر دیا تھا کہ مجھے خود ہی دو دفعہ جھٹکے لگے ایک دفعہ تو میں اتنا آگے جا چکا تھا کہ مجھے ایسا لگا کہ میں چلاس میں نہیں بلکہ جنت کے قریب قریب ہوں وہ بندہ بھی اتنی ڈھٹائی سے بات کر رہا تھا کہ جیسے یہاں کسی کو کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سارے اندھے بیٹھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لمحہ کیلے تو مذکورہ آفیسر یہ بھی بھول گئے کہ اب چند لمحے پہلے چلاس ایر پورٹ سے پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاوس کا محض دو کلو میٹر روڈ جس پر وزیر اعلی کی کانوائے رینگتے ہوئے پہنچی ہے ۔۔۔۔۔۔ دھول اڑاتی سڑک کے چشم دید گواہان کے سامنے زمین و آسمان کے ایسے قلابے کم از کم میں نے  نہیں دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔  سارے ادارے ایسے جھوٹ بول رہے تھے جیسا کہ ان سے بڑھ کر کوئی ایماندار ہے ہی نہیں اور یہ سب عوامی خدمت کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ان کے بریفنگ سے ایسا لگا کہ یہ فرشتے ابھی ابھی آسمان سے زمین پر اتر آئے ہیں بس تھوڑی دیر میں سب کچھ جنت بنانے والے ہیں اب وزیر اعلی کو کیا معلوم کہ یہ مہینے میں بے وجہ اور بغیر اطلاع کے کئی کئی ٹلے مارتے ہیں اور جب دفتر آتے ہیں تو دن آدھا ڈھل جاتا ہے یہ سب بتانے کیلے آئے ہوئے عوام کو تو باہر ہی انتظامی مشینری نے روک دی ہے ۔۔۔۔۔

وزیر اعلی کو تیسری دنیاں کے اس اچھوتے نظام کا احوال کون بتائے گا؟اب وزیر اعلی کو سب ٹھیک ہے کی گردان سنا کر واپس بھیج دیا گیا ہے اصل معاملے کا علم ہی نہیں ہوا اور یہ سلسلہ ان کے دور حکومت میں گزشتہ دو سالوں سے مسلسل چلتا آرہا ہے ہر بار وزیر اعلی کو عوام سے دور رکھنے کی اس کوشش میں انتظامیہ کا ہی فائدہ رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہی انتظامیہ اگلے تین سال بھی اپنے مشن میں کامیاب ہوگی لیکن وزیر اعلی اور اس کے جماعت کو جو نقصان ہو گا اس کا ازالہ نا ممکن ہی ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چو نکہ اس وقت لیگی کارکنوں اور ووٹروں میں جو غم و غصہ کا لہر ہے وہ تھمنے کا امکان بالکل بھی نہیں ہے حکومتی حوالے سے ہٹ کر اگر تنظیمی سطح پر دیکھا جائے تو سارے بغاوت کے اسباب موجود ہیں ایک عام ورکر توبہت دور کی بات ہے پارٹی کے ضلعی قائدین کی رسائی صوبائی قیادت تک نہیں ہے تحفظات جنم لیے رہے ہیں افرا تفریح کا ماحول ہے ایسے حالات کو دوبارہ معمول تک لانا کرشمہ ہی ہوسکتا ہے ظا ہری صورت میں دیامر میں مسلم لیگ کے نظریاتی وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button