کالمز

نئی نسل کا نصب العین 

لینن نے روسیوں سے کہا تھا ’’ اپنے بچے مجھے دیدو میں تمہیں روشن مستقبل کی ضمانت دونگا انہوں نے نئی نسل کے ذریعے زار روس کے ظالمانہ پنجوں میں گرفتار روسیوں کو دنیا کی عظیم قوم بنا دیا خلیل جبر ان نے کہا بچہ ہری شاخ کی طرح ہوتا ہے اُسے جس طرف موڑ دیا جائے اُس رُ خ پر مٹر جاتا ہے علامہ اقبال نے خطاب بہ جاوید یا سخنے بہ نثرادِ نو کے عنوان سے پوری نظم لکھ کر نئی نسل کے نام کردیا ہے جون ایلیا نے درخت زرد کے زیر عنوان پر نظم لکھ کر اپنے بیٹے زریون کو زندگی کا ڈھنگ سکھا یا ہے یہ سب فلسفیا نہ باتیں ہیں ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی میں فلسفہ کا م نہیں دیتا زمینی حقائق سے کام لیا جاتاہے اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی نئی نسل کے سامنے کوئی نصب العین نہیں ہے آپ ایک ماہ کے اخبارات کی فائلیں دیکھ لیں آپ کو نئی نسل کے حوالے سے چار قسم کی خبریں ملینگی امتحانی پرچہ آوٹ ہوا نقل کرتے ہوئے بے شمار طلبہ اور طالبات کو پکڑ ا گیا 12سال سے 16 سال کی عمر کے 20 خودکش حملہ آور شہر میں داخل ہو نے کے اطلاع پر ریڈالرٹ جاری کیا گیا طلبہ کے ایک گروہ دوسرے گروہ پر حملہ کر کے 18 طلبہ کو زخمی کر دیا یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی ہوئی سپاٹ فکسنگ میں پاکستان کے کھلاڑیوں کو پکڑ ا گیا پاکستان کی نو عمر ائیر ہوسٹس پیر س کے شاپنگ مال میں چوری کرتی ہوئی پکڑی گئی یہ محض چند نمونے ہیں اس طرح کی بے شمار خبریں ہر روز اخبارات میں آتی ہیں اور پاکستان کی نئی نسل کا چہر ہ دکھا تی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نئی نسل کے سامنے کوئی نصب العین نہیں ہے پاکستا نی قومیت کا افتخار نہیں ہے مسلمان اور پاکستانی ہونے کا قابل فخر احساس نہیں ہے نیک نامی اور بد نامی کا احساس نہیں بھی نا پید ہے نئی نسل ایک ہجوم میں گم ہوچکی ہے اپنی شناخت سے محروم ہوچکی ہے میرے دوستوں میں عالمگیربخاری ، مسعود الرحمن جہا نزیب او رعطا حسین اطہر کو اس کا شدید احساس ہے مگر یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھا نے کا 70 سالوں میں ہماری نئی نسل کو اس کا نصب العین کیوں نہیں ملا ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں سیاسی لیڈروں کے الگ الگ کھو کے لگے ہوئے ہیں ہر کھو کے پر یوتھ کابورڈ اویز ان ہے اور یہ بورڈ دکھانے کے لئے ہے لڑانے کے لئے ہے یوتھ آسانی سے استعمال ہوتا ہے سیاسی رہنماؤں کے کام آتا ہے سیاسی جماعتوں کا ہر اول دستہ بنتا ہے جھنڈا لیکر نعرہ لگاتا ہے اور یہ اس کی کل کائنات ہے آگے کہاں جانا ہے ؟ کسی کو اس کا علم نہیں اس پر اگند گی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کے سامنے کوئی نصب العین نہیں ہے سیاسی قیادت 11 ستمبر 1948 ؁ء سے اب تک افر اتفری اور پر اگند گی سے دوچار ہے دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام قومی وحدت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے میرے سامنے ایک انگریز کی لکھی ہوئی رپورٹ ہے انگریز کو انگلینڈ سے ایک پرائیویٹ سکول کا انتظام سنبھا لنے کے لئے بلایا گیا ہے رچرڈ ایلی سن (Richard Allison) دبنگ شخصیت کے مالک تھے وہ سٹیج پر بیٹھتے تو ایسا الگتا ہے کہ وائسر ائے ہند بیٹھا ہوا ہے وہ لیکچر دیتے تو ایسا لگتا ہے کہ برنا رڈشا یا چرچل کی آواز گونج رہی ہے انہوں نے سکول کے بارے میں رضا کاروں کے ٹرسٹ رپورٹ بھیجی اس کی تمہید میں پاکستان کے تعلیمی نظام کا تعارف لکھا اس میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان میں 8 قسم کے سکول ہیں ہر سکول کا رخ الگ ہے انہوں نے ریچی سن اور GSIS سے بات شروع کی پھر کا نونٹ اور بیکن ہاؤس سے ہوکر سرکاری سکول تک مختلف سکولوں کا تعارف کرایا پھر مدرسہ یا دارالعلوم کا تعارف کرایا اور لکھا کہ 2 کروڑ بچے ان سکولوں میں پڑھتے ہیں ایک کا رُخ الگ ہے کوئی مشرق کی طرف جا رہا ہے کوئی مغر ب کے رُخ پر گامز ن ہے کسی کا رخ شمال کی طرف ہے تو کوئی جنوب کی طرف جارہا ہے ہر سکول سے آنے والا بچہ الگ سوچ الگ فکر اور الگ تربیت لیکر آتا ہے شکر کا مقام یہ ہے کہ رچرڈ ایلی سن کو کسی نے مدارس اور دارالعلوم کے اندرونی حلقوں میں 6 متحا رب مکا تب فکر کے بارے میں نہیں بتا یا ورنہ وہ اس پر بھی پیراگراف لکھ دیتے کہ اسلامی مدارس کے چھ الگ الگ گروہ ہیں اُن کی آپس میں گہر ی دشمنی ہے اور وہ بچوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی تربیت دیکر باہر لاتے ہیں میں نے رچرڈ ایلی سن کی رپورٹ پڑھ کر اندا زہ لگا یا کہ مدارس کے اندرونی اختلافات کا پتہ ہوتا تو وہ 13 اقسام کے نظام ہا ئے تعلیم کا ذکر چھیڑ کر ہمیں مزید شرمند گی سے دوچار کرتے حقیقت میں ہماری نئی نسل کو 13 گروہوں کی طرف سے الگ الگ تعلیم دی جاتی ہے ان کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ سب ایک وسرے کی ضد ہیں مذہب وطن اور قومیت کے بارے میں ہرنظام تعلیم کا الگ نقطہ نظر اور الگ معیار ہے اس لئے فارغ التحصیل ہونے والی نئی نسل مختلف سمتوں میں رواں دواں نظر آتی ہے اسرائیل ، چین ، بھارت ، امریکہ اور کینیڈا کی طرح ان کا مشترکہ نصب العین نہیں ہے ان کی مشترک منزل نہیں ہے اسلا میات لازمی نے ان کو متحد نہیں کیامطالعہ پاکستان کے کو رس نے ان کو متاثر نہیں کیا قومی ترانہ سن کر اُ ن کے اندر کا پاکستانی جذبہ بیدار نہیں ہوا اس لئے پاکستان کی نئی نسل ہجو م میں گُم ہوگئی ہے اپنی شناخت کھو چکی ہے پاکستان تحریک انصاف نے ’’ یکساں نظام تعلیم ‘‘ کا نعرہ لگا یا تھا اگر اس پر عمل ہوتا تو نئی نسل کے سامنے ایک مشترک نصب العین رکھنے میں ضرور مدد ملتی مگر ایسا نہ ہوسکا کسی دوسری پارٹی کے پاس نئی نسل کے لئے مشترک نصب العین اور مشتر ک منزل کا کوئی وژن ہی نہیں ہے اس لئے نئی نسل کو وقت کے بے رحم لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے علامہ اقبال کا پورا کلام آج کی نئی نسل کو بے معنی نظر آتا ہے عقابی روح ، شاہین کی پر واز ،اور ستاروں پہ کمند کی باتیں اب کسی کو سمجھ نہیں آئیں

اے وائے نا کامی متا ع کا رواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button