کالمز

ہمارا قومی بیانیہ

قوموں کی ترقی میں وہاں کے بسنے والوں کی سوچ اوراس کے اظہار کا بنیادی کردار ہوتا ہے اجتماعی نکتے پر مجتمع معاشرتی رویہ سماجی ڈھانچے کی تعمیرمیں اپنا حصہ ڈالتا ہے ہمارے ملک کے دانشور ،سکالر ،سیاستدان اورٹی وی اینکرز اس طرز کے ایشوز کو اجاگرکرتے ہیں جن کے معاشرتی وبنیادی مسائل سے دور تک کا تعلق نہیں بنتا ہے ،جب غیر ضروری ایشوز کو اچھالا جاتا ہے تو قوم کا اجتماعی تاثر بھی وہی بنتا ہے جن کا اظہار ائیر کنڈیشن ٹی وی دفتر میں بیٹھ کر زمین حقائق کے برخلاف ٹی وی اینکرز کررہے ہوتے ہیں۔الیکٹرونک اورسوشل میڈیا نے ہمارے قومی معاملات کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے شعبہ صحافت بنیادی طورپر احتساب کا ادارہ ہے اس وجہ سے ریاست کاچوتھا ستون کہا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں’’ جیسا دیس ویسا بھینس‘‘ کے مصداق سیاست و صحافت سے لے کر مذہب اور مذہبی رسومات تک نابالغ رویوں کا اظہارجگہ جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے ہمارا قومی بیانیہ عدم تحقیق پر مبنی نابالغ معلومات کا نتیجہ ہوتا ہے اجتماعی سوچ کی کوکھ سے جنم لینے والا رویہ ہمارا قومی بیانیہ بن جاتاہے ہماری سیاست ذاتیات سے شروع ہو کر ذاتیات پر ختم ہوتی ہے اورصحافت میں بھی ذاتی مفادات کے خاطر قلم و قرطاس کی پائمالی اورٹی وی چینلوں پر دانشوروں و اینکرپرسن کا مخصوص گفتگو سے ان کے ذہنوں پر پسند ناپسند اور خاص قسم کی سیاسی ،مذہبی ،لسانی اورعلاقائی تصورات کی چھاپ عیاں ہو جاتی ہے ۔1947ء سے لے کر آج تک ہمارے سوچ تقسیم کرنے والے اداروں نے سماجی ڈھانچے کو کھل کرسوچنے اورتحقیق و جستجو کی تعاقب میں دوڑنے اورپھر اس کے اظہارکرنے پر قدغن لگا رکھی ہے بلکہ نظام حکومت پر اٹھنے والی انگلیوں کوکاٹنے کی روش کو برقرار رکھاگیا ہے دوسری جانب حقیقی دانشوروں ،سیاسی کارکنوں اور نقادوں کی طرف سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات مہیا کرنے کی بجائے طاقت کے مرکز میں براجمان عناصر نے سوال کی نوعیت پرپردہ ڈالنا ہی سب سے بڑی دلیری سمجھا ہے ہمارا قومی بیانیہ ترقی ،تعمیر، خوشحالی،امن اور انصاف کی بجائے کرپشن اوربد امنی بن کر رہ گیا ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح اورفاطمہ جناح کی پرسرار موت سے اس ملک کی خونی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے جبکہ خان لیاقت علی خان کے سرعام قتل سے بدامنی کا باقاعدہ افتتاح اور پسند ناپسند بدنیتی کی پہلی خشت رکھی جاتی ہے جنجو جیسے لیڈر پر کرپشن کے الزام سے سیاسی دکان کی تعمیر ہوتی ہے اوریوں ہمارا قومی بیانیہ اپنے ابتدائی سفر سے غلط سمتوں پر روں دواں ہوتاہے ستربرس بیتنے کے بعد بھی ہماری سوچ کا محور کرپشن ہے ہم مثبت باتوں کی بجائے منفی باتوں پر یقین رکھتے ہیں ہم نظریات ،منصوبوں اورشخصیات پرتبصرہ نہیں کرتے بلکہ ذاتیات پرسیاسی صدا کاری کو جمہوریت کا حسن سمجھتے ہیں ۔بدقسمتی یہ ہے کہ جس لیڈر نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا آغاز کیا اس لیڈر کے وارثوں نے اداروں کو نجکاری کے ذریعے ملکی نظام کو کھوکھلا کردیا ۔حد تو یہ ہے کہ آج اس لیڈر کی تصویر اور برسی کے پروگرام کے انعقاد محض ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے کیاجاتا ہے جس لیڈر نے اپنے اصولوں پرقائم ہوتے ہوئے پھانسی کا پھندہ چومامگر کسی کے سامنے نہ جھکا نہ کسی قسم کا سمجھوتہ کیا اس لیڈر کی سیاسی سوچ کی قیادت نابالغ کرداروں کے ہتھے چڑھ گئی ہے موجودہ ملکی نظام میں طرز حکومت سے لے کرعام آدمی تک سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے بری لذمہ نظر آرہے ہیں ایسے میں سب کا فرض بنتا ہے کہ وہ ترقی کواپنا نعرہ بناتے ہوئے نیا قومی بیانیہ ترتیب دیں ،ہربچے کی ذہین میں کرپشن کا لفظ ڈالنے کی بجائے ترقی کا خواب دیں اورہرشہری کے تصورات میں امن کی امید کو جوڑ دیں تاکہ قوم کا اجتماعی تاشر ترقی اور امن سے جڑ جائے ۔افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کئی عشروں سے اس ملک میں صرف ناامیدی اورمایوسیوں کی سوداگری ہورہی ہے ۔غریب آج تک نظام سے مطمئن نہیں ہے اورادارے اعتمادسازی کے ماحول کو پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اس کی خاص وجہ بھی یہی ہے کہ اداروں کو چلانے اور حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے پالیسی بھی وہی لوگ بناتے ہیں جن کی خمیر میں نفرت،تفرقہ ،علاقائیت اوراپنے اقتدار کو بچانے کیلئے مختلف نوعیت کے کارڈز شامل ہوتے ہیں ہمارے سماج میں ہرانسان اپنی تحفظ خود کرتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ تحفظ کے ادارے انہیں فوری انصاف مہیا نہیں کرتے ،ہاتھ میں ڈگری لیے ہوئے بے روزگار اپنی ڈگری سے اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک اس کے پاس تگڑی سفارش یا جیب میں پیسے نہ ہوں ایسے عالم میں میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریٹنگ کی چکروں میں غیرضروری ایشوزکو اجاگرکرنے کی بجائے اس طرز کے بنیادی مسائل کو اجاگر کریں۔المیہ یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے بم دھماکے کی بریکنگ نیوز سے شروع ہونے والا سفر چوبیس گھنٹے ٹی وی سکرین پر چلتی رہتی ہے جس سے اجتماعی ذہن بدامنی کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور قومی بیانیہ بدامنی بن جاتا ہے پھر عوام کے ذہنوں پر خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں اورپر امن فضاء کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔دوسری طرف کرپشن کے لفظ کو اتنا اچھالا جارہاہے کہ ملک کے ایک ایک فرد کا دماغ کرپشن کے لفظ سے بھرا ہے اوراجتماعی سوچ نے قومی بیانیہ کرپشن کوبنا رکھا ہے اس وجہ سے شفافیت کا تصور ان ذہنوں میں نہیں آسکتاہے وقت کاتقاضا ہے کہ ہم اپنا قومی بیانیہ امن اور ترقی سے جوڑ دیں اس عمل کو موثربنانے کیلئے ریاست کے چاروں ستونوں کو اپنا اپنا کرداراحسن انداز میں نبھانا پڑیگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button