کالمز

معتدل رویوں  کو فروغ دیجئے ، رحمت بھر ی آوازوں کو دبنے نہ دیجئے !

تحریر: محمد الکوہستانی

میں اپنے بیٹے محمد کی انگلیاں اپنی انگلیوں میں ڈال کر دبا دبا کر کھیل رہا تھا کہ ایک دفعہ غلطی سے ہاتھ زور سے دب گیا اور اس کی چیخ نکل گئی ، اس کی سوئی ہوئی ماں بھاگ بھاگ کر آئی کیا ہوا محمد کو؟ کچھ نہیں میں اور ابو کھیل رہے ہیں ، محمد کا جواب تھا، گھر والے لوٹ گئے لیکن ، میرے دماغ میں مرحوم مشعال کی ماں کے یہ الفاظ گونجنے لگے :

میں  نے جب اپنے بیٹے کا ہاتھ چومنا چاہا تو دیکھا کہ اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں؛

کاش میں یہ ویڈیو نہ دیکھتا ، کا ش مجھے پشتو سمجھ نہ آتی ہوتی ! !

  مشعال مرحوم کی ماں کی زبان سے  نکلنے والے یہ الفاظ نہیں شعلے تھے ، جو ابھی تک میرے کانوں کے راستے بدن کے نس نس میں آگ لگا رہے ہیں ، ظالم درندو تمہیں مارتے ہوئے اتنا بھی خیال نہیں آیا کہ جب اس کی ماں اس کا لاشہ دیکھے گی تو اس پہ کیا قیامت گزریگی ؟  توہین رسالت جیسا سنگین الزام اس کے سر تھوپا، 10 دس گولیاں بدن میں اتاریں ،لیکن پھر بھی حیوانیت کو سکون نہ آیا تو کپڑے پھاڑکر لاش کو بے پردہ کردیا ، اور مردہ ہڈیاں بھی توڑ ڈالیں !

یاد رکھو  اے درندہ صفت انسانو ، وہ رحمت للعالمین ، سید دو عالم ۔ فداہ ابی وامی -علیہ  الصلاة السلام ۔ جنہوں نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک  اونٹ کے آنسو صاف کئے تھے ، اور ایک پرندے کے بچے اٹھانے پہ جس کی رحمت تڑپ اٹھی تھی اور فرمایا تھا : من فجع ھذہ ؟ اس بیچاری کو کس نے تڑپایاہے؟

   تم سے ، تمہاری اس درندگی سے ، اس حیوانیت سے بری تھے ، ہیں اور رہیں گے!

دوسری طرف چترال والے واقعہ پر مولانا خلیق الزماں نے شاندار کردار ادا کیا ہر عالم کو ایسا ہی کرنا چاہئیے ، مجرم کو پکڑکے قانون کے حوالہ کیا ، جنونیوں کے سامنے کھڑے ہوگئے ، لیکن افسوس کہ وہی جنونی اب ان کے درپے  ہوگئے ، شیخ الحدیث مولانا زاھد نے سچ لکھاہے ، کہ مولانا حسن جان شہید سے خلیق الزمان تک ہر معتدل آواز اپنے آپ کو تنہا اور ناتواں محسوس کرتی ہے ، اس کے مقابلہ میں جس کی پشت پر سرگشتہ وبرگشتہ ہجوم ہو ، اس کی سب مانتے ہیں ، !  واقعتا یہ حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے ، ليكن لگتا ہے کہ ہمارے حکمران لاشوں کے سوداگر بن چکے ہیں ، انہیں بس خون اور لاش چاہئیے ، خواہ کسی کی بھی ہو،  یہاں عوام کے جذبات سے   غلط فائدہ اٹھانے والے جنونیوں سے اتنا ہی کہا جاسکتاہے کہ اگر تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سروردوعالم علیہ السلام کی ناموس والے قانون میں کوئی تبدیلی کی جاتی ہے ، تو یاد رکھئیے حکمران تو ذمہ دار ہوں گے ہی ، روز حشر تم بھی پیارے محمد کریم علیہ الصلاہ والسلام کو منہ دکھا نہ سکوگے !

بایں ہمہ میری ان تمام اھل علم سے گزار ش ہے جو ہر طرح کے صلہ و ستائش سے بے پرواہ ہوکر دین اسلام کی حقیقی ترجمانی کر رہے ہیں ، جن کے دل میں درد اور زبان پہ دعائیں ہیں ، رحمت ، نرمی اور اعتدال ہے ، وہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں ہمت سے کام لیں ، اپنے حصہ کا چراغ جلاتے رہیں ، سمجھاتے رہیں ، ان شاء اللہ

لمبی ہے رات غم کی مگر رات ہی تو ہے!

یاد رکھیں اگر آپ بھی جنونیوں سے گھبراجائیں گے ، جذباتیوں کے سامنے سپر ڈال دیں گے تو یقین جانئیے ، وطن عزیز سے ، جہاں سے محبت ، اعتدال اور رحمت کانام و نشان مٹ جائے گا،! اس لئے عوام سے بھی گزارش ہے کہ شدت ونفرت کی آتش نمردوی سے اپنے خرمن کو بچا لیجئے ، معتدل رویوں کو فروغ دیجئے ، نرم لہجوں کو دبنے نہ دیجئے !

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button