کالمز

مجھے جینے دو – آخری حصہ

’’اس کا شوہر جسے سب ظالم کہتے تھے۔غور کریں تو وہ بھی اتنا ہی مظلوم تھا۔اس پر ظلم سسٹم نے کیا تھا۔ہمارے تعلیمی نظام نے کیا تھا۔ملک کی بھاگ ڈور چلانے والوں نے کیا تھا۔وہ پڑھا لکھا تو تھا،قابلیت اور مہارت نہیں تھی۔جہاں ہزاروں اس سے بھی بڑی ڈگری اور اہلیت کے نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں تو بھلا اسے کون پوچھتا؟ہمارے تعلیمی نظام نے اسے علمی اور فکری طور پر کم زور بنا دیا تھا۔ہمارے سسٹم نے اس کی آدھی ادھوری تعلیم اور قابلیت کے مطابق روزگار سے محروم رکھا تھا۔اور ہمارے سماج نے اس کی بدحالی اور پریشانی میں اسے سہارا نہیں دیا تھا۔ملک کا نظام چلانے والوں کے لیے ،باقی کروڑوں ایسے بے روزگار اور بے کار نوجوانوں کی طرح وہ بھی ایک عام فرد تھا۔جن کی آنکھوں میں خواب تو ہوتے ہیں ،ایک روشن اور خوش گوار مستقبل کے ارمان تو ہوتے ہیں ،مگر روزگار کے وسائل کا فقدان ہوتا ہے۔جس کا اثر آنگن کی دیواریں پھلانگ کر گھروں کو اجاڑ رہا ہے۔‘‘

میں نے کہا ۔’’تمہاری بات درست ہے۔ہماری سماجی زندگی جب تک بہتر نہیں ہو گی،لوگ اسی طرح محرومیوں کی آگ میں جلتے رہیں گے۔دکھوں کے بوجھ سے ٹوٹ پھوٹ کر خود کُشی کرتے رہیں گے۔مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ایسا کرنے والے حق پر ہیں۔ان کا یہ اقدام سراسر غلط ہے۔

’’اللہ پاک نے اس انسان کو بڑی صلاحیتیں دی ہیں ۔اس کے دل و دماغ کو بہت خاص بنا یا ہے۔اسی دل و دماغ کی ٹوٹ پھوٹ سے یہ بکھر بھی جاتا ہے،انہی کی بہ دولت یہ سر اٹھا کر وقار سے چلتا بھی ہے۔د ل و دماغ کا تندرست اور بیمار ہونا خود انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔انسان صحت مند زندگی گزارے ،بہتر تعلیم حاصل کرے ،اسلام کی روشن تعلیمات سے زندگی میں رہنمائی حاصل کرے ۔عاجزی ،قناعت اور محبت شعار بنالے۔انسانوں کی خدمت اور اللہ کی عبادت سے منہ نہ موڑے ،تب اس کا دل بھی اس کا دماغ بھی برائی اور بیماری سے بچا رہے گا۔ان کے بہتر استعمال سے اپنی ذات کو بھی اور معاشرے کو بھی خوش گوار موسموں سے بھر دے گا ۔پھر وہ زندگی کی ناہمواریوں سے ہمت ہا ر کر خودکُشی نہیں کرے گا۔اپنے مضبوط دل ودماغ کی بہ دولت اچھے دنوں کی امید میں جفاکشی کرے گا۔سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ میں اپنے لیے پُر مسرت زندگی کے راستے تراش لے گا۔

’’جے کے رولنگ برطانیہ کی مشہور مصنفہ ہیں۔جادوئی اور ماورائی واقعات پر مبنی ان کا ناول ’’ہیری پوٹر ‘‘ اور اس ناول کی بنیاد پر مشہورِ زمانہ ہیری پوٹر سیریز کی فلمیں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔جے کے رولنگ اسی لازوال ہیری پوٹر کی باکمال مصنفہ ہیں۔

’’جے کے رولنگ نے تیس سال کی عمر میں ازدواجی زندگی کی شدید ناکامی ،اپنے شوہر کے بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد سے تنگ آکر خودکُشی کی کوشش کی تھی۔اس کی قسمت اچھی تھی،اسے بچالیا گیا۔خودکشی کی ناکامی نے اسے اند رسے جھنجھوڑ دیا ۔اس نے اپنی موجودہ ذات کو مٹا دیا۔ایک نئی شخصیت کی تعمیر کی ۔اپنی زندگی کے نئے راستے تراش لیے۔اس نے سوچا وہ کیا کر سکتی ہے؟جواب ملا وہ لکھ سکتی ہے۔پھر اس نے اپنے جذبات کے بند دروازے کھول دئے ۔انہیں اظہار کے لیے قلم کی زبان دے دی۔یہ اس کے لیے catharsisتھی۔

’’ایک سال بعد ہی اس کا ناول منظرِ عام پرآیا۔جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔چار سال میں مسلسل چار کتابوں کی مصنفہ بن گئیں ۔۴۲ سال کی عمر میں اس کا ناول ہیری پوٹر اشاعت کے پہلے ہی دن گیارہ ملین کی تعداد میں فروخت ہوا۔اب تک ۴۰۰ ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں ۔اسے شہرت ،دولت اور محبت،سب کچھ مل گیا۔۳۰ سال کی عمر میں خودکشی سے وہ مر جاتی تو ان سب سے محروم رہ جاتی۔اس نے اپنے دل و دماغ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کی ۔اپنے دل و دماغ کو ایک نئے انداز میں استعمال کیا ۔اپنے عزم اور صلاحیتوں کی بہ دولت اپنے اندر کے مرے ہوئے انسان کو پھر سے زندہ کیا ۔پھر دنیا کی ہر نعمت اسے مل گئی۔۔۔

جے کے رولنگ کی زندگی ان خودکشی کرنے والوں کے لیے ایک آئینہ ہے۔یہ ٹوٹے پھوٹے لوگ ،انتہائی اقدام سے پہلے اک ذر اسوچیں ۔یہ زندگی ایک بار ہی ملنے والی ہے۔ یہ بہت خوبصورت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ زندگی ہمہ جہت ہے۔اس میں دکھ ،مسائل اور مایوسیاں بھی ہیں ۔سکھ ،امکانات اور حوصلے بھی ہیں۔یہ انسانی وقار کے منافی ہے کہ زندگی کے تاریک پہلو ہی کو سب کچھ سمجھ کر ،خود کو تباہ کر دیا جائے۔زندگی کے روشن پہلو بھی مسرت،کامیابی اور خوش حالی کے پھول ہاتھوں میں لیے راہ دیکھ رہے ہیں۔اس لیے اندر کے انسان کو مرنے نہ دیں ۔مایوسی سے نکل آئیں ۔بہت جلد یہ برے دن ختم ہوں گے۔‘‘

بسمل فکری نے بوجھل لہجے میں کہا ۔’’یہ دل و دماغ خوش گوار زندگی کے لیے اہم ہیں ۔یہ توانا ہوں گے تو زندگی خوشگوار ہو گی۔دل و دماغ کی توانائی کے لیے بہتر تعلیم ،مذہب سے لگاؤاور اچھی صُحبت شرط ہے۔ورنہ آگ اسی طرح جلتی رہے گی۔کچھ اس میں جل کر بھسم ہوں گے ۔کچھ ان کی موت پر آنسو بہاتے رہیں گے اور بہت سے لوگ تماشا دیکھتے رہیں گے۔۔۔‘‘

میں نے کہا۔’’میرے ہمزاد ! ہم بڑے جذباتی لوگ ہیں۔ہم سوچتے کم ہیں،کرتے زیادہ ہیں۔بغیر سوچے کوئی بھی کام کرنے سے تباہی مقدر بن جاتی ہے۔ہم میں سے اکثر لوگ برداشت ،حوصلہ اور سمجھ داری سے عاری ہیں۔جس کی وجہ سے اپنی جان تک کے بھی دشمن بن جاتے ہیں۔

’’بات غذر کے پسِ منظر میں ہو رہی ہے۔اب اس کے لیے انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے۔سب سے پہلے وہاں کے تعلیمی رویوں کو بہتر کرنا ہوگا۔سکولوں اور کالجوں میں صرف نمبروں کی دوڑ میں الجھانے کی بجائے ،اساتذہ شعوری جذبے کے ساتھ لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کریں ۔یہ عمل اختیاری نہ ہو بلکہ لازمی ہو۔یعنی ہر استاد طلبہ و طالبات کی ذہن سازی اور اخلاق سازی پر توجہ دے۔

’’ضلع غذر میں اسماعیلی کمیونٹی اکثریت میں ہے۔ان کے ہاں الواعظ ،موکھی اور خلیفہ کا سماجی اور مذہبی کردار بڑا اہم ہے۔مذہبی رسومات سے لے کر موت ،شادی تک ان کا عمل دخل رہتا ہے۔اہلِ سنت بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ان کے بھی علما،حفّاظ اورمسجدوں کے امام سماجی اور مذہبی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ان دونوں جماعتوں کی مذہبی شخصیات ،اپنے وعظ اور خطبوں میں خودکُشی کے دنیاوی اور اخروی نقصانات موثر پیرائے میں بیان کریں۔مسجدوں اور جماعت خانوں تک محدود نہ رہیں ،دور دور آبادیوں میں جا کر لوگوں سے بات کریں ۔صرف خودکشی کی برائی بیان نہ کریں ،ان رویوں اور رجحانات کی بھی اصلاح کریں جن سے خودکشی کی نوبت آتی ہے۔

’’حکومت ایسے اقدامات کرے جن سے روزگار کے امکانات پیدا ہوں ۔ہر کسی کو نوکری دینا حکومت کے بس کی بات نہیں ۔نوکری کے علاوہ بھی بے شمار ذرائع ہیں جن سے روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔سیاحت ،زراعت،باغ بانی اور ماہی پروری جیسے شعبوں کی کامیابی اور پھیلاؤ کے لیے ضلع غذر میں زبر دست امکانات ہیں ۔حکومت ان شعبوں کے فروغ کے لیے آسانیاں فراہم کرے ۔یہ محکمے اگرچہ وہاں قائم ہیں مگر ان کے افسر ہوں یا ماتحت عملہ ،مراعات ،تنخواہوں ،بے ایمانیوں اور کام چوریوں سے آگے کارکردگی دکھانے میں اکثر ناکام ہیں۔ان شعبوں کی سائنسی بنیادوں پر کارکر دگی یقینی بنائی جائے ۔ان کا دائرہ کار اس طرح پھیلایا جائے کہ عام پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔سیب خوبانی اور انگور کی وہاں بہتات ہے۔ان کی موافق نشو و نما ،پکنے کے بعد ان کے دیر پا حفاظتی اقدامات اور پھلوں کی منافع بخش خرید و فروخت کا جدید اور ماحول دوست نظام وضع کی جائے۔

’’تھانوں کا تفتیشی نظام موثر اور بھرپور بنایا جائے۔خودکشی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خودکُشی یا قتل کی نوعیت کا پتا چلا یا جائے۔اکثر واقعات دریا بُرد ہونے کے ہوتے ہیں ۔ایسی صورت میں لاش کی بازیابی ،پوسٹمارٹم اور تفتیش کے طریقوں کو سائنسی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

’’جس گھر میں خودکُشی کا واقعہ ہوا ہے اس کے افراد اکثر حقائق توڑ مروڑ کر بیان دیتے ہیں ۔تھانوں کا عملہ بھی مخصوص سماجی مجبوریوں کی وجہ سے ان کے بیان کو مصدقہ تسلیم کرتاہے۔یہ روش ختم ہونی چاہئے۔تھانوں کو پابند کیا جائے کہ اس گھر کے سارے مردوں اور عورتوں سے بے رحم پوچھ گچھ کی جائے۔کسی بھی حوالے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کا قصورثابت ہو جائے تو کڑی سزائیں دی جائیں اور یہ سب کو پتا چلے۔

’’اس علاقے کے مذہبی پیشواؤں کو بھی تفتیش میں گھسیٹا جائے۔ان کے اخلاقی اور سماجی کردار کا مواخذہ کیا جائے۔آئندہ ایسا ہونے کی صورت میں انہیں بھی قصور وار ٹھہرایا جائے۔

’’موبائل ،ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بدثرا ت سے کون ناواقف ہے۔گھر کے بڑے اپنے سکول کالج جاتے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ۔خاص کر بچیوں کے حوالے سے زیادہ محتاط رہیں۔۔۔

یہ سب ممکن ہے ۔بس اس کے لیے ایک احساسِ زیاں سے اور انسانی ہم دردی سے ادارے بھی ،افراد بھی عمل کریں ۔خودکُشی کے محر کات ہی معلوم کرنے پر ساری توانائیاں صَرف نہ کریں ،کچھ آگے قدم بڑھائیں ۔وہاں کے مردوں عورتوں کے ذہنوں پہ سوار خودکشی کے بھوت کو اتار دیں ۔معاملہ کس حد تک بگڑ چکا ہے اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں۔ گلگت کے ایک اچھی شہرت والے کالج کے استاد (غذر کا ہی)نے ایک ملاقات میں بتایا کہ کالج میں ڈسپلن کے حوالے سے طلبہ سے سختی کرتے ہیں تو غذر کے طلبہ اکثر صاف صاف کہتے ہیں زیادہ تنگ نہ کریں ورنہ دریا میں چھلانگ لگا دیں گے۔

’’انسانی حقوق کے علمبردار اور دانش و بینش کے ٹھیکیدار، طلبہ کی اس دھمکی کو wake up call سمجھیں ۔ذہنوں پہ سوار خودکُشی کے اس عِفریت کو اتارنے میں اپنا کردار واضح کریں ۔اب خودکشی کسی کا ذاتی فعل نہیں رہی ہے۔ایک سوچ بن گئی ہے ۔ایک رومانس کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔یہ سوچ ختم کرنی ہو گی ۔ان کے جذباتی رومانس کونئی راہ دکھانی ہو گی۔ورنہ اس آگ سے آپ کا گھر بھی جل سکتا ہے۔۔۔۔‘‘

آسمان پہ روشن ابتدائی دنوں کا چاند کب کا غروب ہو چکا تھا۔ہم دونوں چلتے ہوئے ،اپنی ہی آگ میں جلتے ہوئے بہت دور آگئے تھے۔ہر طرف اندھیرا تھا۔گہرا سناٹا تھا۔مگر مایوسی نہیں تھی۔رات طویل سہی ،ختم ہونے والی تھی۔ایک نئے دن کے مواقع اور مسرتوں کے ساتھ سحر طلوع ہو نے والی تھی۔

بس یہی فلسفہ زندگی کا بھی ہے۔اس کے دکھوں ،مایوسیوں اور ناکامیوں کو بھی ثبات نہیں ،یہ بھی فنا ہونے والی ہیں۔اس لیے اچھے دنوں کی امید میں ان برے حالات کا مقابلہ کرنا ہے ،اپنی خوب صورت زندگی کا خاتمہ نہیں ۔

موت برحق ہے۔لیکن جو موت زندگی سے فرارکے باعث ہو ،یعنی زندگی سے بے زار ہو کر جس موت کو گلے لگایا جائے وہ موت نہیں ہوتی ،بے قدری ٗ حیات ہوتی ہے۔جس کی سزا دنیا میں شرم ناک ہے،آخرت میں دردناک۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button