شعر و ادبکالمز

داستان علی میر

تحریر زاھد بلتی ستروغی یتو

بلتی ثقافت اور ادبِ بلتستان کے حوالے سے ہمارے نامور شعرا۶، ادیب حضرات نے جو کام کیا ھے وہ ہم صدیوں تک نہیں بھول سکتے، جانے والے جا چکے صدیاں گزر گئیں مگر ثقافت ابھی بھی زندہ ہے۔ لداخ کے صحراوں سے لے کر روندو رونگیول کے سنگلاخ پہاڑوں تک بسنے والے بلتی باسیوں کی کہانیوں کو دکھ بھری داستان رگیانگ خلو کا نام دے کر ابھی بھی زندہ رکھا گیا ہے۔ رگیانگ خلو موسیقیت بھری وہ داستان ھے جو اپنے اندر دل سے نکلی ہوئی ایک درد بھری کہانی بیان کرتی ہے۔ رگیانگ خلو بلتی زبان میں غزل کی ایک خاص قسم ہے،سمجھنے والے سن کر اپنے آنسو پر قابو نہیں پا سکتے،اور نہ سمجھنے والے بھی اس کی دُکھ بھری کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وادی خپلو بلتستان کا ثقافتی علاقہ تھا۔ یبگو خاندان  کی حکومت تھی۔ مگر وقت کی تبدیلی سمجھیں یا راجاوں کی غلطی کی وجہ سے آج محض نام کی حد تک رہ گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا لداخ سے تبت تک بلتی قوم کی ایک الگ پہچان تھی ،دی گریٹ تبت کے نام سے ایک الگ ریاست تھی ، ہر جگہ تعریفیں ہی تعریفیں کرتے تھے، خپلو میں یبگو خاندان کی حکومت تھی ،پھر آپس کی چپقلش نے سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا، آج خپلو میں یبگو خاندان کے چشم و چراغ سرینا ہوٹل یعنی خپلو فورٹ کے اطراف میں ایک دو خاندان ہی رہ گئے ہیں۔ وقت وقت کی بات ھے وقت دوبارہ لوٹ کر نہیں آتے۔وقت تیزی سے بدلتے گئے۔

خیر، کہانی شروع کرتے ہیں۔

خپلو میں یبگو خاندان کی راج کے عروج اور زوال کے حوالے سے ہر طرف راجہ خپلو کا چرچا تھا۔ بلتستان میں جس جگہ کوئی تہوار ہوتا، راجہ خپلو لازمی شرکت کرتے۔انہیں بادشاہوں جیسی عزت اور احترام بھی ملتا تھا۔ شہنائی نواز ہو یا یا ڈھول بجانے والا، راجا خپلو کیلئے خصوصی دھن تیار کرتا تھا۔

ان دنوں سرمو نامی بستی میں ایک بلتئ تہوار ہوتا تھا جو سنونپو ہلتانمو کے نام سے بہت مشہور تھا۔ یہ تہوار 5 دنوں تک جاری رہتا تھا۔ اس تہوار میں رالٹہ خونگبو کے راجا گوری تھم سلینگ کے راجا ابراھیم پلمبر چو اور شاہی خاندان خپلو کے راجا شرکت کرتے تھے۔ سرمو کی پہاڑی پر 2 محل تعمیر کیے گئے تھے، جو رگیالمو کھر اور رگیلفو کھر کے نام سے بہت مشہور تھے۔ رگیالمو کھر میں سوائے شہزادیوں کے کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ تہوار کے خاتمے تکراجا اور رانی الگ رہتے تھے۔

سرمو کھر کے نیچھے شمدو شغرن (پولو گراونڈ)واقع تھا جو بلتستان کا سب سے مشہور شغرن تھا۔ اسی میدان میں یہ تہوار منعقد کیے جاتے تھے۔ راجا اور رانی اپنے محل کی کھڑکی میں بیٹھ کر شمدو شغرن میں پولو کے مقابلے دیکھتے تھے۔ مقابلوں کے اختتام پر علی میر نامی خوش مزاج شخص کا رقص دیکھنے اور ان کے گیت سننے کے لئے راجا خود میدان میں تشریف لے جاتے۔ سازندے خصوصی دُھن بجاتے، اور علی میر راجہ کے اعزاز میں مخصوص رقص کرتا تھا۔

علی میر کا ڈانس دیکھ کر رگیالمو کھر میں بیٹھی شہزادیاں واہ واہ کیا کرتی تھیں۔ رقص اتنا شاندار ہوا کرتا تھا کہ دیکھنے والے داد دئیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ علی میر کو بہت سارےانعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا، اور تہوار کے خاتمے کے بعد علی میر علی معمول کی مصروفیات میں مشغول ہو جاتے۔

زندگی رنگ بدلتا ہے۔ کچھ عرصے بعد علی میر کی شادی ایک ترنگپہ یعنی نمبردار کی بیٹی سے ہوجاتی ہے۔ دونوں کی محبت پورے علاقے میں ایک مثال بن جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے چند لمحے بھی دور نہیں رہ پاتے۔ دونوں نے ہر وقت ساتھ رہنے اور نبھانےکی قسم جو کھائی تھی۔

ایسی محبت بھلا لوگوں سے برداشت ہوتی؟ حاسدوں کی سازشوں سے باتیں بننے لگیں، طنز اور طعنے کے نشتر چلنے لگے۔

علی میر کو طعنہ دیا جاتا ہے زن مریدی کا، کیونکہ وہ اپنے محبوب سے الگ نہیں رہ پاتا۔ دھیرے دھیرے لوگوںکی باتیں ناقابلِ برداشت بن جاتی ہیں۔

اس وقت بلتستان کے لوگ روزگار کیلیئے کھاچول، کشمیر اور لداخ کی طرف جاتے تھے۔  علی میر بھی لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر کھاچول جانے کا ارادہ کرتا ہے۔

علی میر کی بیوی اس کی جدائی میں بہت روئی،منت و سماجت کر کے اُسے روکنے کی کوشش کی، مگر علی میر نے اس کی بات نہ سنی، اور لداخ کی طرف چل پڑا۔ دو سال گزر گئے، بیوی مارے جدائی اور ہجر کے روتی رہی۔ دو سال تک علی میر نہ آیا۔

آخر کسی کے ہاتھوں علی میر نے پیغام بھیجا کہ اس سال سنونپو ہلتنمو تہوار کے دن پہنچ جاوں گا۔

بیوی بہت خوش ہوئی۔ سہیلیوں کو علی میر کے آنے کی نوید سنائی۔ گاوں کے چوپال میں جا کے لوگوں سے کہتی، میرا علی میر آرہا ھے۔ میرا علی میر ارہا ھے۔

علی میر کی بیوی اتنی خوش تھی کہ اُس کی خوشی اور جذبات سے سرشار محبت کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔

یہ خوشیاں وقتی ثابت ہوئیں۔ چرخ فلک ایسا چال چل گیا کہ خوشیاں ٹوٹ کر کرچیاں بن گئیں۔

ہوا یوں کہ علی میر واپس آتے ہوے کسی پہاڑ سے گر پڑا۔ مر گیا۔

جب یہ خبر اس کی بیوی نے سنی تو بے ہوش ہو گئی۔ ہوش میں آئی تو ذہنی توازن کھو چکی تھی۔ چوٹ دماغ پہ لگی تھی، صدمہ دل کو پہنچا تھا۔ دل اور دماغ کے زخموں نے اپنا اثر دکھا دیا۔

علی میر پہاڑ سے گر کر مرگیا، اور اس کی بیوی فرزانگی کا شکار ہو گئ۔ ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ روز علی میر کے دوستوں سے پوچھتی، "میرا علی میر آیا ہے؟ میرے علی میر کو دیکھا ہے؟ میر علی میر کہاں ہے؟”۔

جب بھی سنونپو لہتانمو تہوار کا وقت آتا شمدو شغرن میں جا کے بیٹھ جاتی۔ علی میر کا نام لے کر فریاد کرتی۔ آہ و بُکا کرتی۔ روتی۔

علی میر کی موت اور اس کی بیوی کی فریاد اب داستان بن کر رہ گئے ہیں۔ آج بھی بلتستان اور لداخ میں علی میر کے نام سے یہ رگیانگ خلو بہت مشہور ہے۔

اُن کی محبت بھری داستان آج بھی رگیانگ خلو کی شکل زبان زدِ عام ہے،پہاڑوں میں آج بھی اُن دونوں کی ہنسی گونجتی ہے،پہاڑ اور آبشاریں آج بھی اُن دونوں کی محبت کے امین ہیں،پرندے آج بھی ان کی یاد میں چہچہاتی ہیں!

شاید پرندے بھی یہی کہتے ہونگے کہ۔۔۔  ہاں!! ہم گواہ ہیں اُن کے محبت کے ،خلوص کے اور ان کی عشق کے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button