کالمز

قراقرم یونیورسٹی دیامر کیمپس۔۔حقائق وخدشات

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی دیامر کیمپس کے قیام کے لیے راقم الحروف نے کئی بار لکھابلکہ بعض دفعہ تو بہت ہی سخت لکھا۔یونیورسٹی کے ابتدائی خاکے میں یہ بات طے تھی کہ مختلف اضلاع میں یونیورسٹی کے کیمپس بنائے جائیں گے ۔ اسی خاکے میں رنگ بھرتے ہوئی بلتستان میں یونیورسٹی کاکیمپس اوپن کیا گیا۔ پھر 2010 میں یونیورسٹی کے سینٹ نے دیامر کے کیمپس کی منظوری دی۔اس منظوری میں اس وقت کے سینٹ کے چیئرمین جناب افضل شگری صاحب کی خصوصی دلچسپی رہی۔دیامر کیمپس کے اجرا کے لیے مختلف اوقات میں اخباری بیانات بھی چلتے رہے ۔حقیقت میں سیاسی لیڈروں کی یہ بیانات یونیورسٹی قیام کی بجائی ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی تھی۔گزشتہ سال(2016) محکمہ ایجوکیشن (ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کالجز)کی طرف سے ڈگری کالج چلاس، انٹر کالج غذر اور انٹر گرلزکالج ہنزہ کو ایک خط بھیجا گیا۔ اس خط میں یہ وضاحت تھی کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ان تینوں علاقوں میں کے ائی یو کیمپس کے اجرا کا پلان کیا ہے۔لہذا ہائی اتھارٹیز کی طرف سے یہ ڈائریکشن ملی ہیں کہ ان کالجوں میں موجودہ سہولیات یعنی کور ایریا، کلاس رومز، لیبارٹریاں، ایڈمن آفس،ہاسٹل، پلے گراونڈ ، لائبریریاں اور ان میں موجودہ کتابیں، ٹائلٹس،فرنیچرز، کمپوٹرز، رجسٹرڈ طلبہ وطالبات کی تعداد اور پڑھائے جانے والے مضامین کی تمام تفصیلات سے ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کو آگاہ کیا جائے۔تاکہ یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ چلتا رہا اور ہنزہ کیمپس میں باقاعدہ تعلیمی سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں گورنرمیر غضنفر کی ذاتی دلچسپی بھی شامل رہی۔تاہم ضلع دیامر کا کیمپس ہچکولے کھاتا رہا۔اور دیامر کے ممبران اسمبلی کوئی مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے گورنر کے خلاف بیانات داغتے رہے۔ نہ معلوم کیوں یہ لوگ ایسا کررہے تھے۔کونسی مخفی طاقت تھی جو ان کو کیمپس کے قیام کے لیے لوکل اور فیڈرل سطح میں کوشش کرنے کی بجائے میرغضنفر کے خلاف بیانات دلوارہی تھی۔یہی بیانات یقیناًکیمپس کے قیام میں رکاوٹ تھی۔میرغضنفر صرف ہنزہ کے گورنر نہیں پورے جی بی کے گورنر ہیں لہذا ان کو دیامر کیمپس میں بھی دلچسپی لینی چاہیے۔

HEC کی طرف سے ہنزہ کیمپس اور دیامر کیمپس کے لیے برابر فنڈ ریلیز ہوا ہے۔ 28 ملین رقم دیامر کیمپس کے لیے منظور کی گئی ہے جس سے تین سال تک دیامر کیمپس چلانا ہے، اساتذہ کی تنخواہیں ،فرنیچر اور الیکٹریشن وغیرہ بھی اسی فنڈ سے منیج کرنے ہیں۔اس کے علاوہ 300 ملین رقم جی بی حکومت نے دیامر، ہنزہ اور غذر کیمپس کی زمین کے لیے مختص کیا ہے۔ یعنی 100 ملین سے دیامر کیمپس کی بلڈنگ بنانے کے لیے زمین خریدی جائے گی۔ دیامر کیمپس کے نصاب اور کن کن ڈیپارٹمنٹ کا اجرا کرنا ہے اس کے لیے بھی KIU میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے کنوینئر ڈاکٹر پروفیسررمضان صاحب ہیں۔ یہ کمیٹی بھی مکمل سست روی کا شکار ہے۔قانونی حوالے سے دیامر کیمپس کے اجرا کے لیے کوئی ہیچ باقی نہیں۔HEC نے منظوری اور فنڈ ریلز کردی ہے ۔ 12مئی 2017کو محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان اور کے آئی یو کے درمیان ایک ایگریمنٹ(MOU) ہوا جس کی روشنی میں ڈگری کالج چلاس کے پورا ڈگری پورشنKIUکیمپس کے اجرا کے لئے یونی ورسٹی کے حوالے کیاگیا۔ یہ عمارت نئی بنی ہے اور چار پانچ ڈیپارٹمنٹ کے لیے بالکل کافی و شافی ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دیامر کیمپس کے لئے بنائی گئی کمیٹی کو ہنگامی بنیادوں پر فعال ہونا ہوگا۔ دیامر چونکہ حساس ثقافتی علاقہ ہے۔ دیامر میں ہنزہ کی طرح فوری طورپر کیمپس کا آغاز کرنا مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں۔ہنزہ کے لوگ باشعور ہیں انہوں نے فنڈ ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہلچل مچاکر ، تمام کمیونٹی اور سیاسی و مذہبی عمائدین نے یک زبان ہوکر وقت سے پہلے کلاسوں کا آغاز کیا اور کامیابی سے کیمپس اسٹارٹ ہوا۔ 2017 میں ہنزہ کیمپس میں چار ڈیپارٹمنٹس میں ایڈمشن ہوئے ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ نیچرل سائنس، لائف اینڈٹیکنکل سائنس، ٹورازم اور ہوسپیٹلیٹی منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں زور و شروع سے کلاسوں کا اجرا ہوا ہے۔ایم فل میں بھی ایڈمیشن ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ منظور ہونے والے اور فنڈ ریلیز ہونے والے دیامر کیمپس کے کلاسوں کے آغاز کا دور دور تک آثار نہیں۔دیامر کیمپس کے لیے بننے والی کمیٹی کو چاہیے کہ فوری طور پر سلیبس اور شروع کیے جانے والے ڈیپارٹمنٹ کوفائنل کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن پر زیادہ ضرور دیا جائے۔ چونکہ دیامر ڈیم بھی بن رہا ہے اور ساتھ ہی واپڈ بھی بڑے پیمانے میں وہاں کام کررہا ہے۔اگر دیامر میں ٹورزم اور ٹیکنیکل سائنسز پر ضرور دیا جائے تو مستقبل میں ڈیم کے لیے ٹیکنیکل لوگوں کی کمی نہیں ہوگی اور ٹورزم سے دیامر میں ٹورزم کا سلسلہ عروج کو پہنچے گا۔ سردست ٹورزم کے حوالے سے دیامر کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ٹورزم کے حوالے سے عوام کے ساتھ خواص بھی بے شعوری کا شکار ہیں بلکہ ٹوزم کو ایک فعل لایعنی سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر Skill Development کے کورسز کو ترتیب دینا چاہیے۔ میڈیا کمیونیکیشن اور اکنامکس اور مائیکرو اکنامکس کے حوالے سے بھی دیامر کی دھرتی بانجھ ہے۔ انگلش بالخصوص چائنہ لینگویج سینٹر کھولنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ کام تو دو چار چھوٹے پروجیکٹ قائم کرنے سے بھی ہوتے ہیں۔

دیامر کیمپس کے اجرا کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو جو سب سے اہم کام کرنا ہے۔وہ عوامی سطح پر شعور پیدا کرنا ہے۔مخلوط ایجوکیشن کے حوا لے سے دیامر کے لوگ انتہائی حساس ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آغاز میں توبالکل ہی مخلوط کلاسیں نہ ہوں۔ ویسے خواتین کے لیے الگ انتظام ہونا چاہیے۔ شعور پیدا کرنے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو دیامر کے باشعور اہل علم کی ایک کمیٹی بنانی چاہیے جن میں پروفیسرز،وکلا، اساتذہ کرام، علما کرام،بیورکریٹ ، سوشل ایکٹوسٹ،سیاسی و مذہبی قیات کو شامل کرنا چاہیے۔ ان چیدہ لوگوں کا تعلق دیامر کے تمام اضلاع سے ہونا چاہیے۔ ابتدائی طور پر یونیورسٹی میں بلا کر انہیں بشکل سمینار، ورکشاپ یونیورسٹی کی اہمیت اور جدید دور میں جدید تقاضوں کی اہمیت و ضرورت سے مطلع کیا جانا چاہیے پھر اس طرح کے کچھ سیمینارز اور ورکشاپس چلاس اور دیگر مقامات میں بھی منعقد کرنے چاہیے جن میں ان خواص کے ساتھ طلبہ کو بھی دعوت دی جائے تاکہ شعور و فکر کا سلسلہ بہتر طریقے سے پورے دیامر میں پھیل جائے۔اس کے بڑے فوائد ہونگے۔ سب سے بڑا فائدہ دیامر کیمپس کے اجرا میں مشکلات کھڑی نہیں کی جائیں گی۔

چونکہ ہنزہ اور بلتستان کے سیاسی لیڈروں و مذہبی زعما کی طرح دیامر کے لیڈر اور مذہبی قیادت باشعور نہیں اور نہ ہی دیامر کے ممبران اسمبلی اس حوالے سے کوئی شعور رکھتے ہیں۔ دیامر کے ممبران اسمبلی زیادہ سے زیادہ کسی کے کہنے پر ایک اخباری بیان داغتے ہیں۔ اس سے صرف وہ چند آفیسران کو پریشر میں لانا چاہتے ہیں۔ عین وقت پر وہ نہ تو یونیورسٹی انتظامیہ سے کوئی ڈیمانڈ کرتے ہیں نہ ہی اسمبلی میں کوئی بات کرتے ہیں۔ تاہم دیامر کے طلبہ اور دیگر باشعور لوگوں کو ایک منظم مہم چلانی چاہیے۔ خدشہ یہ ہے کہ دیامر کیمپس کیاجرا نہ ہونے کی وجہ سےHEC کا منظور کردہ تین کروڈ بجٹ اور جی بی حکومت کا بجٹ میں رکھا ہوا 100 ملین رقم دیامر کی بجائے کہیں اور استعمال کی جاسکتی ہے۔یہ دیامر کے لیے خسارہ عظیم سے کم نہیں ہوگا۔اور اسی کو تعلیمی و معاشی قتل کہا جاسکتا ہے۔ دیامر کے ممبران اسمبلی کو ذاتی مفادات سے ایک قدم آگے بڑھ کر فوری طور پر مہم چلانی چاہیے اور 100 ملین رقم سے یونیورسٹی کیمپس کے لیے زمین خریدنے میں مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔’’KIU دیامر کیمپس کی زمین کی خریداری کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس میں چارممبران ہیں۔ ممبر اسمبلی حاجی جانباز خان، ڈسی دیامر، ایکسئن دیامر اور پرنسپل ڈگری کالج چلاس ہیں۔ ڈی سی دیامر اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یونیورسٹی کیمپس کے لیے سب سے بہترین جگہ ڈرنگ داس ہے۔ جہاں پہلے سے ایک ہزار کنال پر کیڈٹ کالج کا تعمیراتی کام ہورہا ہے۔ KKH بھی ہے اور ساتھ ہی دیامر ڈیژون کے تمام لوگوں کے لیے اپروچ ایبل بھی ہے۔یہاں زمین بھی سستی ہے۔دس کروڈ کی رقم سے کم از کم 500کنال زمین خرید ی جاسکتی ہے۔ 500 کنال میں بہت بڑا کیمپس تیار کیا جاسکتا ہے۔ اسے بھی زیادہ مناسب جگہ تھیلچی داس ہے۔ چونکہ یونیورسٹی کسی خاص ضلع کی نہیں ہوتی۔ تھیلچی داس دوضلعوں کا سنگم ہے۔ دیامر اور استور کے لوگ آسانی سے تھیلچی کے لیے اپروچ رکھتے ہیں۔تھلیچی میں دیگرسہولیات بھی ہیں۔میر ا خیال ہے کہ مستقبل میں دیامر کیمپس تعمیر ہونے کی بجائے ’’KIU دیامر ڈویژن کیمپس‘‘ ہونا چاہیے۔نام بھی یہی ہوتو زیادہ مناسب ہے۔ تاکہ ضلع استور کے تشنگان علوم کو بھی سہولت سے علمی پیاس بجھانے کا موقع ملے اور انہیں بھی کیمپس کے حوالے سے کسی قسم کی شکایت نہ ہوگی۔آنے والے دنوں میں کے آئی یو نے بورڈ کی برانچ بھی دیامر کیمپس اوپن کرنی ہوگی۔ ایسی صورت میں تھیلیچی پورے ڈویژن کے لیے بالکل مناسب ہے۔یونیورسٹی کے اور شعبے بھی کھلیں گے۔ استوریوں کے لیے بھی تھیلیچی ہی اپروچ ایبل ہے۔انصاف کی بات یہ ہے کہ استوریوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔بہر صورت جہاں بھی تعمیرکروایا جائے کوئی مضائقہ نہیں۔ چلاس سٹی میں اگر کیمپس کے لیے مناسب جگہ ملتی ہے تو بہت ہی اچھا ہے تاہم یہ ذہن میں رہے کہ دیامرکی آپس کی ناچاکیوں کی وجہ سے اور یونیورستی انتظامیہ کی سستی بلکہ غفلت کی وجہ سے دیامر کیمپس تاخیر یا تعطل کا شکار ہوتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی زیادتی ہوگی۔جس کا خمیازہ دیامر کے ساتھ دیگر اضلاع نے بھی مختلف شکلوں میں بھگتنا ہوگا۔بہتر یہی ہے کہ دیامر میں درست سماجی رویوں کی ترقی میں دیگر اضلاع دیامر کے معاون و ممد ہوں تاکہ سماجی انصاف کا پہیہ مسلسل چلتا رہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ سماجی انصاف کی عدم فراہمی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے معاشرے اور ریاستیں ہمیشہ تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں اور اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔

ضلع دیامر میں ترجیحی بنیادوں پریونیورسٹی کا کیمپس اوپن ہونا تھا مگر جس ذہن نے بھی اب تک کیمپس بننے نہیں دیا یہ اس کی ٹھوس غلطی ہے۔ضلع دیامر میں جب تک تعلیمی شعوراور یونیورسٹی کلچر کا فروغ نہیں دیاجائے گاتب تک وہاں غیر انسانی اور بدتہذیبی روایتیں راج کرتیں رہیں گی۔ حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہیے۔رقبے کے لحاظ سے دیامر گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور 2017کی مردم شماری کے مطابق آبادی کے لحاظ سے بھی دیامر تیسرا بڑا ضلع ہے جس کی آبادی 203000 ہے۔ قدرتی وسائل بالخصوص جنگلات اور بنجر اراضی کے حوالے سے بھی دیامر امیرترین ضلع ہے لیکن سرکارکی عدم دلچسپی اور ممبران اسمبلی کی ناہلی کی وجہ سے دیامر پستی کا شکار ہے۔ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم دیامر کی ترقی و ترویج میں اپنا حصہ ملائیں اور شمع سے شمع جلا کر روشنی کا اہتمام کریں۔یہی صاحبان عقل و صاحبان بصیرت کی نشانی ہوتی ہے اور دوسروں کے کام آکر انسان روحانی سکون محسوس کرتا ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button