شعر و ادبکالمز

گاہکوچ میں پہلا شنا مشاعرہ

احمد سلیم سلیمی

ادب میرا رومانس ہے۔اردو زبان میری محبوب۔محبوب کے سامنے زبان اکثر لڑکھڑا جاتی ہے۔اردو لکھتے اور بولتے ،میں بھی بہک جاتا ہوں ۔ایسے میں کبھی ناگفتنی بھی نوکِ قلم پہ آجاتی ہے ۔پھر کبھی مجالِ اظہار محال۔۔۔

شنا میرا عشق ہے ۔اس نے مجھے بولنا اور محسوس کرنا سکھایا ۔ مگر اسے لفظی صحت سے لکھنے سے قاصر ہوں اس لیے اردو میں سوچتا ،پڑھتا اور لکھتا ہوں ۔

شنا لکھنے کا چلن عام نہیں ۔شنا شاعری اکثر گلوکاروں کی زبانی یا پھر کسی مشاعرے کی مہربانی سے سننے کوملتی ہے۔چند کتابیں اگرچہ شائع ہوئی ہیں مگر شنا میں پڑھنے اور لکھنے کا رواج عام نہ ہونے سے ،شنا تحریر اور رسم الخط ،غیر مانوس لگتی ہے۔جس کی وجہ سے ان کتابوں کو پڑھنے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہے۔

غنیمت ہے اس کے باوجود شنا شعر و ادب زندہ ہے ۔شنا بولنے والے علاقوں میں اچھے شعرا موجود ہیں ۔مناسب اور ادب دوست رویے نہ ہو نے کے باوجود ،ان کا فن ،ذوقِ سخن کی تسکین کی مقدور بھر کوششوں میں مصروف ہے۔

ابھی چند دن قبل صوبائی حکومت کی سرپرستی میں قومی سطح کا دو روزہ ادبی اور لسانی سیمینار منعقد ہوا تھا ۔جس میں مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے نئے راستوں کو ،تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر تلاش کرنے کی نتیجہ خیز گفتگو کی گئی تھی۔اس سے امید بندھتی ہے بہت جلد شنا لکھنے اور پڑھنے کا خوش کُن موسم اترے گا۔(اس سیمینا ر کی روداد زیرِ ِ قلم ہے ۔جلد آپ کے سامنے ہوگی)

اتوار کے دن گاہکوچ میں ایک شنا مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔گلگت سے’’ حاذ‘‘کے احباب کے ساتھ وہاں جانا نصیب ہوا ۔ضیا صاحب ،تاج صاحب ،دکھی صاحب ،دیا صاحب ،نذیر حسین نذیر ،عباس صابر ،فاروق قیصر ،تہذیب برچہ ،صبور احمد ،جمیل امنگ اور یہ ناچیز دو گاڑیوں میں بھر کر گاہکوچ روانہ ہوئے ۔پتا چلا ظفر تاج صاحب بھی آرہے ہیں ۔مگر کسی سرکاری مصروفیت کے باعث ذرا دیر بعد گلگت سے روانہ ہونے والے تھے۔

ٍ ہمیشہ کی طرح گلگت سے غذر پہنچنے تک ،خوب صورت وادیوں ،کبھی دھوپ چھاؤں ،کبھی ہلکی ہلکی بارش ،کبھی پہاڑوں سے لپکتی دھوپ کی حدّت ،پھر کبھی موجیں مارتے دریا سے اٹھتی ہواؤں کی فرحت اور پھر ہم سفر ساتھیوں کی شعر و نغمے ،خوش دلی اور چٹکلوں سے بھر پور باتوں کی خوشبو میں بھیگتے ،گاہکوچ کب پہنچے ؟ پتا بھی نہ چلا ۔

وہاں ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں ،مقامی انتظامیہ کے تعاون سے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ہال میں سٹیج کی طرف دریا ں ،قالین اور گدیا ں بچھا کر ،گول تکیے رکھے گئے تھے۔جتنی جگہ مشاعرے کے لیے مختص کی گئی تھی اس کی مناسبت سے لوگوں کی تعداد نہایت کم تھی۔بلکہ مشاعرہ شروع ہوا تو سب سٹیج پر ہی شعرا کے سامنے بیٹھ گئے تھے۔حیرت سی ہوئی کہ غذر میں پہلا ادبی مشاعرہ ہورہا تھااور لوگوں کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ڈھنگ کے سامعین بھی موجود نہیں تھے۔وہاں موجود لوگوں میں سے چند ایک کو نا م اور چہرے سے جانتا تھا۔معروف صحافی اور سوشل ایکٹیوسٹ اسرار الدین اسرار صاحب بھی میزبانوں میں شامل تھے۔ممبر اسمبلی نواز ناجی صاحب بھی سٹیج پہ موجود تھے۔ان کے علاوہ معروف فنکار اختر حسین راجا اور جی بی فوکس کے جہانگیر بھی دکھائی د ے رہے تھے۔

مشاعرے کا آغاز ہونے والا تھا ظفر تاج صاحب بھی اپنے صاحب زادے کے ساتھ پہنچ گئے۔ شنا کے خوبصورت شاعر نذیر حسین نذیر نظامت کے فرائض سنبھال رہے تھے۔اس نے بتا یا کہ یہ مشاعرہ ظفر تاج صاحب کی تجویز اور ہدایت کے مطابق ہو رہی ہے۔

مشاعرے کے آغاز میں گاہکوچ کے شعرا نے اپنا کلام سنایا ۔ پہلی دفعہ وہاں کے شعرا سے شنا شاعری سننے کو مل رہی تھی ۔اچھا لگا ۔ بہت معیاری نہیں تو بازاری بھی نہیں تھی ان کی شاعری۔خوبصورت خیال بھی تھا ، اچھے الفاظ بھی تھے، بیان کا سلیقہ بھی تھا ۔ اس سے پہلے ان کا کلام گلوکاروں تک محدود تھا۔ اب مشاعرے کا ماحول مل رہا تھا ۔ اس کا جوش اور مسرت ان کے چہروں سے پھوٹ رہی تھی ۔ مشاعرے کے دوران اردو کے پروفیسر عامر بیگ صاحب بھی میرے کال کرنے پرتشریف لائے تھے ۔

ان کے بعد گلگت سے گئے ہوئے ’’حاذ ‘‘کے شعرا نے کلام سنایا ۔حاذکے شعراکو ماہانہ مشاعروں میں اکژ سننے کا موقع ملتا ہے۔ ۔۔۔ مشاعروں میں اکثر اردوطرحی غزلیں ہی پڑھتے ہیں ۔ ابھی کچھ عرصہ ہواشنا شاعری بھی مشاعرے کا ماحول گرما رہی ہے۔ ضیاء صاحب ، دکھی صاحب ، تاج صاحب اور دیا صاحب اور حفیظ شاکر صاحب شنا کے بھی اچھے اور پختہ کلام شاعر ہیں۔ان کے علاوہ نوجوان شعرا بھی شنا میں اچھا شعر کہتے ہیں ۔ مگر جدید دور میں ظفر تاج صاحب شنا شاعری کے سرتاج ہیں۔ کوئی خوبصورت بات ڈھنگ سے کہنے کا فن کوئی ان سے سیکھے ۔انہیں سن کر کوئی گدگداہٹ سی اندر ہونے لگتی ہے۔

مشاعرے کے اختتام پر نواز خان ناجی صاحب نے حسب روایت گفتگو کی ۔ پونیال والے شنا بولتے ہیں تو عام سی باتیں بھی لطفِ کلام کا سماں باندھ دیتی ہیں۔نواز ناجی صاحب نے بھی شنا کی خوشبو سے گُندھی ہوئی گفتگو کی ۔

مشاعرے کے بعد ضیافت کا اہتمام تھا ۔ ادھر سے فارغ ہو کر دکھی صاحب ، دیا صاحب ، عباس صابر اور برچہ، ضیا صاحب کے ساتھ گلگت روانہ ہو گئے۔ ظفر تاج صاحب بھی نکل گئے۔ اپنے بڑے تاج صاحب اور نذیر کے درمیان کچھ سرگوشیوں کا تبادلہ ہواپھر تاج صاحب بولے۔’’شیرقلعہ چلتے ہیں وہاں نذیر کی طرف سے کچھ خاص اہتمام ہے ۔اس کے بعد گلگت جائیں گے۔‘‘

کوئی لاکھ چھپائے ،مگر ہم سمجھ گئے ۔تاج صاحب کا ، مئے سخن سے جی نہیں بھرا تھا۔ اب مئے ناب کا شوق آڑے آیا تھا۔ شام کے سائے پھیل گئے تھے ۔تاج صاحب کی گاڑی میں فاروق قیصر، صبور ، جمیل اور میں بیٹھ گئے۔ نذیر اور اسراردوسری گاڑی میں ہمارے آگے چلنے لگے۔ نذیر کا گھر شیر قلعہ میں بہت فاصلے پرتھا ۔ تنگ سے راستے پہ چلتے ہوئے ایک جگہ گاڑی رک گئی ۔ وہا ں سے آگے پیدل چلنا تھا ۔ کھیتوں کے بیچ تنگ سی پگڈنڈی پہ ، موبائل اور لائٹر کی روشنی میں ہم چلتے ہوئے ایک بلند سی جگہ نذیر کے گھر پہنچ گئے۔

بیٹھتے ہی انار لاکر سامنے رکھے گئے۔بہت شیریں اور ذائقہ دار انار تھے۔پھر تاج صاحب کی مراد بھی بھر آئی۔اسی دوران ایک مقامی شاعر عیسیٰ بھی تاج صاحب کا سن کر آگیا۔وہ تاج صاحب کا مزاج آشنا لگتا تھا۔اس لیے خالی ہاتھ نہیں آیا تھا۔جنونِ شوق کا ساماں بھی ساتھ لیتے آیا تھا۔

شیر قلعہ کی بات ہو تو یورمس اور ملنگ کا ذکر بھی لازماََ آتا ہے۔اس محفل کے ہمارے ساتھی اسرار الدین اسرار صاحب اسی رحمت ملنگ کا پدر زادہ ہے۔۔گلگت بلتستان کی چند مقبول لوک کہانیوں کو جدید افسانوی شکل میں ترتیب دینے کی آج کل جسارت کر رہا ہوں۔ یورمس اور ملنگ کی کہانی بھی ان میں شامل ہے۔اسرار صاحب سے اکثر ملنگ کے حوالے سے بات ہوتی رہتی ہے۔اس کی رومانوی زندگی سے منسوب اکثر قصے اسی زمین سے پھوٹے ہیں ۔او یہ قصے زبان زد عام و خاص ہیں۔اس محفل میں بھی یہ قصہ چِھڑا تو ملنگ اور یورمس کی زندگی کے رومانوی واقعات نے ایک سماں باند ھ دیا ۔پھر تاج صاحب کی رگِ گائیکی بھی پھڑک اٹھی۔ملنگ کی لازوال شاعری ،تاج صاحب کی نغمہ ریز آواز میں گونج اٹھی تو پوری محفل جھوم جھوم کے ہم آواز ہوئی ۔

مقامی شاعر عیسیٰ ایسے عالمِ کیف میں تھاکہ تاج صاحب کی سنگت میں ملنگ کے بول ،اپنے وجود کی ساری کیفیات کے ساتھ گارہا تھا۔بے چارہ بے سُرا تھا۔مگر جذبوں میں کھرا تھا۔اس نہ گاسکنے کے باوجود اپنی بے ساختگی اور شوقِ گائیکی سے محفل میں رنگ بھر رہا تھا۔

بہت وقت گزرا ۔ہم سات بجے وہاں آئے تھے،اب دس بج گئے تھے۔وہ درمیانی سائز کا کمرہ ،شعر و نغمہ سے جیسے شبستانِ سرود بن گیا تھا۔ہم میں سے اکثر داد دے دے کر ،اور محض سُر سے سُر ملا کر تھک گئے تھے۔یہ نہ جانے بادہ ٗ ناب کا جادوتھا یا پھر دیارِ ملنگ کا اثر تھاکہ تاج صاحب اور عیسیٰ گا گا کر بھی ترو تازہ تھے۔

گلگت دور تھا ۔اس لیے آدابِ محفل کا لحاظ کیے بغیر ،ہم میں سے کچھ نے نشست بر خواست کرنے کی بات کی۔تاج صاحب ترنگ میں تھے۔ابھی مزید رنگینئی محفل کے موڑ میں تھے۔مگر ساتھیوں کا مان رکھا ۔ملنگ کی بستی میں ،اس کے مزار کے قریب ہی سجی یہ سرور و سرود کی محفل اختتام پزیر ہوئی۔رات کے اندھیرے کا سینہ چیرتے ہوئے ہم گا ڑیوں میں بیٹھ کر گلگت روانہ ہوئے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button