کالمز

غیر محفوظ بچے غیر محفوظ مستقبل

بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں مگر ان پھولوں کی آبیاری والدین اور معاشرے کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ بچوں کو اگر ان کی ضروریات میسر نہ آئیں تو یہی پھول مرجھا جاتے ہیں ۔غیر محفوظ اور مصائب کے شکار بچوں سے مراد وہ بچے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے زندگی کی ضروریات سے محروم رہتے ہیں،ان کی پرورش کرنے والے نہیں ہوتے یا ان کے پرورش کرنے والوں کے پاس وہ وسائل نہیں ہوتے جن کی مدد سے وہ اپنے بچوں کو اچھی زندگی گزارنے کی ترغیب دے سکیں ہیں یا وہ بچے جو کسی نہ کسی جسمانی یا جنسی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جسمانی ، ذہنی و نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ان کی تعلیم یا ہنر سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے جو کہ ان کے مستقبل کو تاریک کر دیتا ہے۔غیر محفوظ اور مصائب کے شکار بچوں میں سرفہرست وہ بچے ہیں جن کے والدین کی نشاندہی نہیں ہوتی یعنی وہ لاوارث ہوتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جو پیدا ہوتے ہی کسی وجہ سے پھینک دئیے جاتے ہیں یا کسی خفیہ جگہے میں مرنے کے لئے چھوڈ دئیے جاتے ہیں ۔ ایسے بچے کے حیاتیاتی والدین یا تو اپنا گناہ چھپانے کے لئے یا جنس کی وجہ سے یا کسی بیماری کی وجہ سے ان کو بوجھ سمجھ کر مرنے کے لئے پھینک دیتے ہیں ۔ لاوارث بچوں میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو کم عمری میں ہی گم جاتے ہیں یا گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔غیر محفوظ اورمصائب کے شکار بچوں میں دوسرے نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جن کی کفالت کرنے والے والدین میں سے کوئی ایک بیماری یا حادثے کا شکار ہوکر مر جاتاہے اور وہ یتیم کہلاتے ہیں۔تیسرے نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جن کے والدین زندہ تو ہوتے ہیں مگر وہ لاپتہ ہوتے ہیں، اغوا ہوتے ہیں، جبری گمشدگی کا شکار ہوتے ہیں،کسی مقدمے کی وجہ سے جیل میں ہوتے ہیں یا طویل عرصہ علیل ہوتے ہیں۔ چھوتے نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جن کے والدین کسی قدرتی یا انسانی آفت کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڈنے پر مجبور ہوتے ہیں جیسے سیلاب، زلزلہ، دھشت گردی، فرقہ واریت، لسانی یا قبائلی تنازعات اور جنگ وغیرہ کے دوران محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ پانچویں نمبرپر وہ بچے آتے ہیں جن کے والدین زندہ بھی ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں مگر وہ غریب، بے روزگار، معذور،ضروریات زندگی اور سہولیات تک رسائی سے محروم اور بے سہارا ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کی صحت، تعلیم ، مناسب دیکھ بھال ، مناسب گھر اورمناسب کھانا پینا وغیرہ فراہم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ چھٹے نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جو ایسے والدین کے گھر میں رہتے ہیں جہاں گھریلوتشدد، منشیات کے استعمال، والدین یا خاندانوں کے مابین تنازعات، طلاق ، لڑائی جھگڑے ، بے راہ روی، جسم فروشی، منشیات یا ہتھیاروں کا کاروبارجیسے مسائل پائے جاتے ہوں۔ ساتھویں نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جو خود کسی جنسی یا جسمانی تشدد ، منشیات کا استعمال، جبری مشقت، بھیک مانگنا،گھر سے بھاگنا، اغوا جیسے گھناونے افعال کے شکار ہوجاتے ہیں۔آٹھویں نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جو کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہوتے ہیں اور وہ کسی فردکی مدد کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔دسویں نمبر پر وہ بچے آتے ہیں جو کسی جرم کے ارتکاب کے الزام میں مقدمات سہتے ہیں، جیل میں ہوتے ہیں یا تھانہ، جیل اور مقدمات کا سامنا کر کے نکل چکے ہوتے ہیں۔غیر محفوظ اور مصائب کے شکار بچوں کی مزید اقسام بھی ہوسکتی ہیں مگر مذکورہ اقسام بڑی اور نمایا ں ہیں۔

پاکستان میں مصائب کے شکار بچو ں کا ایک مجموعی اور باضابطہ ڈیٹا نہیں ہے مگر ایک اندازے کے مطابق ان بچوں کی تعداد تین سے چار کروڑ کے درمیان ہوسکتی ہے ۔جیسے آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد ہی کو دیکھا جائے تو یہ ڈھائی کروڑ ہے ۔ ڈبیلو ایچ او کے مطابق پاکستان میں معذور بچوں کی تعدادتیس لاکھ سے زائد ہے۔ اسی طرح غربت قدرتی آفات، دھشت گردی سمیت مختلف مسائل کے شکار بچوں کی تعداد بھی شامل کی جائے تو یہ کروڑوں میں ہوسکتی ہے۔

یہ بچے مناسب دیکھ بھال ، شیلٹر ، صحت، تعلیم اور والدین کی تربیت سے محروم ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ان میں سے اکثریت بجائے کارآمد ہونے کے معاشرے کے لئے نقصاندہ ثابت ہوتے ہیں۔ سٹریٹ کرائم، دھشت گردی، منشیات کی سمگلنگ، خود کش حملوں، جنسی کاروبارجیسے دیگر غلط مقاصد کے لئے ان بچوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں کچھ ایسے سرکاری و غیر سرکاری ادارے موجود ہیں جو غیر محفوظ اور مصائب کے شکار بچوں کے بعض طبقات کے لئے کام کرتے ہیں مگر تمام غیر محفوظ اور مسائل کے شکار بچوں کے لئے کوئی باضابطہ کا م نہیں ہو رہا ہے۔ جو کام ہورہا ہے وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پورے ملک میں معذور افراد کے لئے محض چھ سو ادارے کام کرتے ہیں جو کہ معذور افراد کی نصف آبادی تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ یتیموں کے لئے کام کرنے والے اداروں میں پاکستان بیت المال کا ادارہ سر فہرست ہے جو کہ اب تک محض تین ہزار کے لگ بھگ معذور بچوں کو شیلٹر دے سکا ہے جبکہ لاکھوں یتیم بچوں کا اب بھی کوئی پر سان حال نہیں ہے۔ لاوارث بچوں کے لئے بھی کچھ ادارے کام کرتے ہیں جن کا خیال ہے کہ ان کا یہ کام ناکافی ہے۔ اسی طرح جنسی زیادتی ، گھریلو تشدد، بیماری، غربت اور دیگر مسائل کے شکار بچوں کی دیکھ بھال کے لئے بھی قابل ذکر کام نہیں ہورہا ہے۔

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان میں ایسے بچوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔گلگت بلتستان میں سینا ہیلتھ سیمت ایک ادھ ادارے ہیں جو یتیموں اور لاوارث بچوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ سرکاری سطح پر نہ تو کوئی قبل ذکر ادارہ ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کو ئی فنڈ ہے۔ حالیہ دنوں بچوں کے تحفظ کا جو بل گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے اس میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے چند سال قبل منظور کئے گئے بل کے کافی سارے اہم نقاط کو اٹھا کر باقی تقریبا وہی ہے جو قومی اسمبلی نے تین سال قبل منظور کیا تھا ۔بہر صورت یہ خوش آئند اقدام ہے مگر اس پر عملدرآمد کے لئے ضروری اقدامات اٹھا نا ابھی باقی ہے اگر اس کو دیگر قوانین کی طرح الماریوں کی نذر کیا گیا تو یہ انتہائی تشویس ناک بات ہوگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کی گلگت بلتستان سطح پر بچوں کے تحفظ کے قانون پر عملدرآمد کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک پالیسی اور ایکشن پلان بنا یا جائے جس کے تحت ان بچوں کے شیلٹر، بنیادی ضروریات ، تعلیم، صحت، دیکھ بھال، کونسلنگ اور تربیت کا اہتمام کیا جاسکے۔ نیز والدین، کمیونٹی اور معاشرہ سمیت زمہ دار اداروں کی اس ضمن میں تربیت کی جائے تاکہ وہ اس ضمن میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا کر دار ادا کر سکیں۔ بچوں کو قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے ۔ پاکستان اور گلگت بلتستان میں اتنی بڑی تعداد میں بچے غیر محفوظ اور مصائب کا شکار ہیں جن کو سنھبالا دئیے بغیرگلگت بلتستان کے مستقبل کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button