کالمز

ٹوپی ڈے،مقامی زبانیں اور نایاب نسل کے پرندے

صفدر علی صفدر

اْردو زبان میں چند ایسے فقرے بھی ہیں جو بظاہربے معنی اورغیرشائستہ لگتے‘ مگران کا استعمال روزمرہ کی بول چال میں کثرت سے ہوتا ہے‘چاہے وہ دانستہ طور ہو یا نادانستہ طورپر۔جیسے ’دماغ کی دہی مت بناؤ‘،’میرا میٹر مت گھماؤ‘،اس کے سْکروْڈھیلے ہیں‘،وغیرہ۔ایسے ہی چند فقرے ٹوپی سے متعلق بھی ہیں، مثلاً ٹوپی اْتارنا، ٹوپی بدلنا،ٹوپی اْچھالنا،ٹوپی پہنانایاٹوپی کرنا‘ ٹوپی ڈرامہ وغیرہ ،وغیرہ۔

آپ سب نے بھی ٹوپی سے متعلق یہ فقرے سْنے اورغالباً استعمال کئے ہونگے‘مگر ’ٹوپی ڈے‘ منانے کے حوالے سے شائدکبھی نہیں سنا ہوگا۔اسی لئے ہم نے آج اپنے قارئین کو ’ٹوپی ڈے‘منانے والی قوم سے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹوپی ڈے منانے کا آئیڈیاکچھ یوں آیاکہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کسی سیاحتی میلے میں شرکت کے سلسلے میں جرمنی کا دورہ کیا۔ان کے ہمراہ گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت،کھیل وثقافت کا عملہ بھی موجود تھا ‘جس نے گلگت بلتستان کی منفرد ثقافت اور دلکش سیاحتی مقامات کی بین الاقوامی سطح پر تشہیر کرکے زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اس علاقے کی جانب راغب کرنے کا بیڑااْٹھایا تھا۔ وزیراعلیٰ صاحب کے بقول اس میلے شریک گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام افراد نے اپنی روایتی ٹوپی اْوپر شاٹی بھی لگاکر پہن رکھی تھی جو میلے کے شائقین و سیاحوں کی توجہ کا مرکزبن رہی تھی۔

دوران میلہ ایک دن کوئی پرْہجوم تقریب کااہتمام ہوا‘ جس میں بھی گلگت بلتستان کے مہمانوں نے بڑی ٹھاٹ سے اپنی روایتی ٹوپی پہن رکھی تھی‘مگرکسی کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان لوگوں نے آخر کیونکر عجیب وغریب قسم کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔پھر ان شرکاء میں سے چند ایک نے وزیراعلیٰ صاحب سے سفیدٹوپی کے اوپر پرنما چیز لگا کر پہننے کا راز پوچھ لینے کی ہمت کی۔جس پر وزیراعلیٰ صاحب نے انہیں اس ثقافتی ٹوپی کے پس منظر اور گلگت بلتستان کی ثقافت کے حوالے سے بریف کیا تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔یوں وزیراعلیٰ صاحب کو گلگت بلتستان کی انوکھی ثقافت کی اہمیت کا احساس ہوا اور انہوں نے جرمنی کے دورے سے واپسی پرگلگت پریس کلب میں منعقدہ ایک ثقافتی تقریب سے خطاب میں گلگت بلتستان میں ہرسال سرکاری سطح پر’ٹوپی ڈے‘ منانے کا اعلان کیا۔

ٹوپی ڈے منانے کے لئے وزیراعلیٰ صاحب نے اول تو یکم ستمبرکی تاریخ مقررکرلی پھر یکم ستمبرکو عین ٹوپی ڈے کے دن گلگت میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)کے حوالے سے منعقدہ دو روزہ کانفرنس آڑے آنے پر راتوں رات ٹوپی ڈے کو یکم اکتوبرکو منانے کا حکم نامہ جاری کیاگیا۔ شاید گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو سی پیک کانفرنس میں وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے کچھ زیادہ ہی ٹوپیاں پہنائی ہوگی تبھی انہوں نے اس تہوارکومنانے کی تاریخ بدل ڈالی!

بہرحال وزیراعلیٰ کے حکم کے تحت ہفتہ یعنی یکم اکتوبر کو گلگت بلتستان بھر میں ثقافتی ٹوپی اور شاٹی ڈے کو بڑے دھوم دھام سے منایا گیا۔ اس دن کا آغاز صبح ہینڈی کرافٹس کی دکانوں میں ثقافتی ٹوپی اور شاٹی کی خریداری سے ہوا جو شام کو ثقافتی شوپر اختتام پذیر ہوا۔ صوبائی دارالخلافہ میں اس دن کی مناسبت سے عوام الناس میں شعور اجاگر کرنے کی غرض سے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی قیادت میں ہیلی کاپٹرچوک جوٹیال سے ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا‘جو ریورویوروڈ سے ہوتی ہوئی سٹی پارک پہنچ کراختتام پذیر ہوئی۔ ریلی کے شرکاء نے سرپرسفید ٹوپی پر شاٹی سجائے رکھی تھیں اور ہاتھوں میں بینرز اٹھارکھے تھے۔اسی طرح تمام اضلاع میں بھی ٹوپی ڈے کے حوالے سے اچھے خاصے انتظامات کئے گئے تھے۔

چونکہ میں شاٹی کا لفظ بار بار استعمال کررہا ہوں تو قارئین شش وپنج میں مبتلا نہ ہوں کہ آخر یہ کونسا لفظ ہے،توجواب میں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہوگی ۔

لفظ ’’شاٹی یا شانٹی‘‘ آپ کو اْردو لغت میں ہرگز نہیں ملے گا‘کیونکہ یہ گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کا ایک لفظ ہے ۔گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار علی احمد جان صاحب کے بقول یہ ہمالیائی مرغ زرین کے ماتھے اور سائبیریا سے آنے والے بگلے کے پروں کے مجموعے کا نام ہے‘جسے شینا اور بروشاسکی زبان میں شاٹی یا شانٹی کہا جاتا ہے۔

سفید اونی ٹوپی کے اوپر شاٹی سجا کر پہناعام طور پر گلگت بلتستان میں شادیوں اور دیگرپرْمسرت آیام کی روایت تھی‘ تاہم وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اسے گلگت بلتستان کی ثقافت کا حصہ قراردیکر خطے میں آنے والے ملکی وغیرملکی مہمانوں کوبطور تحفہ پیش کرنا بھی معمول بن گیا۔یوں رواں سال سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کی غرض سے ہر سال یکم اکتوبرکوسرکاری سطح پر سفید ٹوپی اور شانٹی ڈے منانے کا اعلان کیا۔ جبکہ سفید ٹوپی اورشانٹی پاکستان آرمی کے ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ(این ایل آئی) اور گلگت بلتستان سکاوٹس کی یونیفارم کا حصہ بھی ہیں‘ جو اہم تقریبات میں استعمال کی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے ٹوپی اور شانٹی ڈے کو سرکاری سطح پر منائے جانے کے حوالے سے یہ یقیناًایک مستحسن اقدام ہے ‘جس سے خطے کے ثقافتی ورثے کو تحفظ دینے اور اسے عالمی سطح پر متعارف کرواکر سیاحت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کی ثقافت صرف سفید اونی ٹوپی کے اوپرپر شانٹی لگاکرپہنے کی حدتک محدودہوگئی؟ اگر نہیں تو ثقافتی ورثے کے دیگر اجزا کو اہمیت کیونکر نہیں دی جارہی ہے؟ جیسے زبان،ادب،لباس ،تہذیب وتمدن ، وغیرہ ۔ وغیرہ۔

بلا شبہ گلگت بلتستان اپنی منفردقدرتی حسن اورجغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے بلندوبالا پہاڑ،سرسبزوشاداب وادیاں،رنگ برنگ کے پھول،گنگناتی ندیاں اور حسین نظاروں کے علاوہ یہاں کی منفرد اورپرکشش ثقافت کا بھی سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ہے۔ یہاں پر بسنے والے مختلف نسل،مذاہب،تہذیب وتمدن،رسم ورواج،رہن سہن،بودوباش اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کی گونا گونی اس علاقے کی منفرد پہچان ہے۔لیکن حکومت کی عدم توجہی اور مخدوش ملکی حالات کے سبب یہاں کی سیاحت و ثقافت اس رفتار سے ترقی کے منازل طے نہیں کرپا رہی ہے جو ٹیکنالوجی کے اس جدید دورمیں ہونی چاہئے تھی۔

صوبائی سطح پر سیاحت و ثقافت کا محکمہ بھی قومی وبین الاقوامی سطح پر علاقے کی صیح تشہرمیں ناکام نظرآرہی ہے‘جبکہ خطے کا اپنا ٹکسٹ بک بورڈ نہ ہونے اور محدود ادبی سرگرمیوں کے باعث مقامی زبانیں بھی معدومیت کے حوالے سے خطرے سے دوچار ہیں۔ پھر حکومت کی جانب سے مقامی ثقافت کو ترویج دینے کی غرض سے سفید ٹوپی کے اوپر شاٹی سجا کر پہن رکھنے کے اعلان کے بعد اب تو گلگت بلتستان کا رخ کرنے والے ہمالیائی مرغ زرین اورسائبیرین بگلے کی نسل بھی خاتمے کے حوالے سے خطرے میں پڑگئی۔

اگر ہم نے حقیقی معنوں میں اپنے علاقے کی قدیم ثقافت کو زندہ رکھنا ہے تواولین ترجیحات کے تحت گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کی ترویج وتحفظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے‘کیونکہ زبان ہی سے بندے کی پہچان اورشنا خت ممکن ہے‘ بجائے سفید ٹوپی اور شاٹی پہن رکھنے کے۔دنیا میں آج اگرانگریزی اورچائنیز انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبانیں قراردی جارہی ہیں تو وہ صرف اور صرف ان زبانوں کی ترویج وتحفظ کے لئے موثر اقدامات ہی کی بدولت ہے۔ورنہ بچوں کوماں کی گود سے مادری زبان کی بجائے انگریزی اوراْردو سیکھانے اور شانٹی کے حصول کی خاطر نایاب پرندوں کی نسل کشی سے ثقافتی ورثے کا تحفظ ممکن نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button