کالمز

ادبی میلہ او رمقامی زبانیں 

تحریر : فہیم اختر

گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کے ترویج و تحفظ کے لئے اقدامات کی ضرورت گزشتہ سال سے جتنی محسوس ہورہی ہے اس سے قبل اتنی نہیں تھی۔ گلگت بلتستان کے ارد گرد کے علاقوں نے اپنی زبانوں کے تحفظ اور تدوین کے لئے حکومتی سہارے سے ہٹ کرایسے اقدامات کئے کہ ان کی زبانیں سٹریم لائن ہوکر قومی ڈگر میں آگئی ۔ پاکستان کا شمالی علاقہ زبانوں اور ثقافت کے تنوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے گلگت بلتستان جو کہ ماضی میں شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا کے گرد بولے جانے والے زبانوں میں کھوار(چترال)،ہندکو( ہزارہ ریجن)،پشتو،رومانی ،سرائیکی،کوہستانی،گوجر سمیت دیگر چھوٹی بڑی زبانیں ہیں جبکہ گلگت بلتستا ن میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں شینا، بلتی،بروشسکی، کھوار،وخی شامل ہیں اور چھوٹی زبانوں میں گوجری،کشمیری ،ڈوماکی و دیگر زبانیں موجود ہیں۔بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں بولی جانے والی ان زبانوں کو تحریری شکل میں لانے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ تعلیم،کاروبار ،دفتری اور گھریلو امور کے لئے الگ الگ زبانیں بولتے ہیں جوخصوصی طور پر پرائمری کلاس کے بچوں کے لئے انتہائی ازیت کا سبب بنتا ہے جسے ماہرین تعلیم انتہائی منفی قرار دیتے ہیں۔

دیگر قریبی علاقوں نے زبان کو تحریری شکل میں محفوظ کرنے کی سوچ بہت عرصہ قبل ہی اپنائی تھی ،چترال کے اہل علم نے 1998کی مردم شماری میں ہی کھوار زبان کی عدم شمولیت پر کمی محسو س کی اور تحریک شروع کردی بالآخر 2017میں لاہور ہائیکورٹ کے زریعے مردم شماری میں اپنی زبان کو شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

گلگت بلتستان کے چند اور مخصوص حلقے بھی کافی عرصے سے زبان کو تحریری شکل میں لانے اور مردم شماری سمیت دیگر اہم فورمز میں مقامی زبانوں کی شمولیت کے لئے کوشاں رہے ہیں تاہم یہ تحریکیں کئی ایک وجوہات کی بناء پر سنجیدہ قرار نہیں پائے ۔2017کے اوائل میں جب یہ باتیں سامنے آئی تب پھر چند حلقوں کی جانب سے مقامی زبانوں کو شامل کرانے کے لئے کوششیں شروع ہوئیں، جس بنیاد پر اپوزیشن رکن کیپٹن(ر) شفیع نے اسمبلی میں قراردا د پیش کی جسے بعض علاقائی نمائندوں نے مسترد کرنے میں اپنا کردارا د اکیا ۔

بالآخر صوبائی حکومت نے ہی مقامی زبانوں کی ترویج اور تحفظ کے لئے اقدامات اٹھانا شروع کردئے حالانکہ یہ قدم سول سوسائٹی کی طرف سے اٹھنا چاہئے تھاتاہم ایسے الفاظ ہمارے معاشرے اور علاقے میں پائے ہی نہیں جاتے اس کا فقدان ہمیں اس جانب نہیں لے جا سکا ۔دیر آید درست آید کے مصداق صوبائی حکومت گلگت بلتستان کا یہ قدم انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے ۔ زبانوں کی ترویج و تدوین اور مقامی زبانوں پر مشتمل نصاب کے اجراء کے لئے قائم کمیٹی کی سربراہی صوبائی وزیر سیاحت فدا خان فدا کررہے ہیں ۔جس کے دیگر اراکین میں چند سیکریٹریز بھی شامل ہیں اس کمیٹی کے سیکریٹری کی زمہ داری معروف شاعر ظفر وقار تاج کے پاس ہے ۔کمیٹی نے ابتدائی طور پر مشاورت کے بعد گلگت بلتستان کی تاریخ کا پہلا ادبی میلے کا انعقاد کیا ۔جس میں ملک کے چاروں صوبوں سمیت مختلف لسانی ماہرین نے شرکت کرکے اپنی آراء پیش کی۔جس کے بارے راقم کا تفصیلی کالم مورخہ 15ستمبر کو روزنامہ اوصاف گلگت میں چھپا ہے ۔

دو روزہ ادبی میلہ دور رس نتائج کے امید کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا جس میں پہلی بات یہ تھی کہ تمام مندوبین گلگت بلتستان سے محبت بھرا پیغام لیکر واپس گئے ۔ کئی مہمانان نے اپنے دورہ گلگت کو یادگار اور صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کااظہار کرتے ہوئے خوش آئند قرار دیا۔ اور گلگت بلتستان کے مقامی زبانوں کی تحریری شکل میں نہ لائے جانے کے حوالے سے دکھ کو محسوس کیا اور اس حوالے سے اپنی سطح پر تعاون کی امید اور اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے منعقد کرائے گئے اس ادبی میلے اور مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے اکیڈیمی کے قیام کو مقامی ادبی حلقوں نے بھی سراہا ۔میرے حساب سے ماضی قریب میں سب سے زیادہ لکھا جانے والا موضوع بن گیا ہے جن کالم نگاروں نے اس موضوع پر اب تک قلم اٹھایا ان میں ایمان شاہ صاحب ، ڈاکٹر صغریٰ صدف( ڈائریکٹر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر)، امیر حیدر (فورم فار لینگویج انیشیٹیوز، صفدر علی صفدر، سخی اکبر ، فہیم اختر سمیت دیگر مقامی و قومی لکھاری شامل ہے جو کہ نیک شگون کی ایک جھلک ہے

دوروزہ ادبی میلہ بغیر کسی قرارداد کے ختم ہوا سوائے اس کے کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے اس سیاسی اعلان کے ساتھ کہ ’صوبائی حکومت گلگت بلتستان آئندہ سال مقامی زبانوں کو نصاب میں شامل کرے گی ‘۔ ادبی میلے کے تمام اقدامات قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اشتراک سے صوبائی حکومت کی قائم کمیٹی نے کی ۔ یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کمیٹی صرف صوبائی بجٹ سے 5کروڑ روپے خرچ کرنے کے لئے قائم ہوئی ہے یا واضح طور پر نتائج دیتے ہوئے مقامی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے علاوہ ان زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے سفارشات مرتب کرتی ہے ۔ یہ کمیٹی چند ایک لوگوں کے لئے روزگار کا سبب بنتی ہے یا علاقے میں لسانی امور پر کام کرنے والے ماہرین کی مدد کرتی ہے ۔ چونکہ یہ ابتدائی مرحلہ ہے اس لئے ایسی تجویز نہیں دی جاسکتی کہ یہ کمیٹی گلگت بلتستان میں لسانی امور پر کام کرنے والے لوگوں کو بیرون ملک ٹریننگ اور زہنی استعداد میں اضافے کے لئے بھیج دے ۔ اگر یہ کمیٹی کوئی سرکاری ادارے کی شکل اختیار کرتے ہوئے چند ایل ڈی سی ، یو ڈی سی کا چناؤ کرکے میرٹ کا نعرہ بلند کرتی ہے تو یہ ایک احمقانہ حرکت ہوگی ان خدشات کااظہار مذکورہ کمیٹی کے سیکریٹری ظفر وقار تاج نے بھی کیا تھا۔ ان سوالات کا جواب آئندہ چند دنوں میں اس کمیٹی کی فعالیت ، کام کرنے کے انداز اور لائحہ عمل سے مل جائیگا۔

مذکورہ کمیٹی کے سربراہ سے زاتی محنت کی توقع نہیں ہے کیونکہ سیاسی طور پر بھی وہ نووارد ہیں اور لسانی و ادبی امور کے حوالے سے بھی ان کا نام آج تک کہیں پر نہیں سنا گیا ان کی نسبت سینئر وزیر اکبر تابان جو صاحب سخن بھی ہیں یا پھر سپیکر فدا محمد ناشاد کو سربراہ بناتے تو نسبتاً تیز کام اور زاتی ان پٹ کی بھی امید کی جاسکتی تھی ۔ دیگر میں بھی گلگت بلتستان کے سرکاری آفیسران شامل ہیں اگر وہ بھی اسے معمول کا سرکاری کام سمجھ کر فائل بند کرلیں تو خدشات کی ہی شکل ابھر آتی ہے ۔تاہم اس کمیٹی کے سیکریٹری ظفر وقار تاج صاحب جو کہ شینا اور اردو زبان کے بہترین شاعر ہیں سے توقع ہے کہ وہ اس کمیٹی میں جمود آنے نہیں دینگے۔

لسانی امور کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کے پاس دو اہداف ہیں ۔پہلا ہدف مقامی زبانوں کے مختلف بولیوں ، اشکال اور فونٹس کی عدم دستیابی کے باوجود ان زبانوں کو تحریری شکل میں لانا اور پھر مقامی زبانوں پر مشتمل نصاب تعلیم قائم کرنا ہے ۔ دوسرا ہدف یہ کہ جو زبانیں اپنی پوری عظمت اور ایک پوری شکل کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہونے کے آخری مراحل میں ہے ان زبانوں کا تحفظ اور ان کے بولنے والے جن کی تعداد ہاتھ کی انگلی پر گنی جاسکتی ہے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔ اس ہدف میں جو چیلنج درپیش ہے وہ ڈوماکی اور دیگر زبانیں ہیں ۔ ڈوماکی زبان ظالم معاشرے کے ظلم کی بھینٹ چڑھتے ہوئے اپنے وجود کو کھورہی ہے ۔ ان زبانوں پر ابتدائی طور پر ریسرچ کی ضرورت ہے تاکہ اس زبان کی ہیئت اور حقیقی شکل میں معلومات اکھٹی ہوسکے ۔ یہ دو اہداف اس کمیٹی کے سامنے موجودد ہیں ان میں کامیابی کمیٹی کی کامیابی اور ناکامی کمیٹی کی طرف سے 5کروڑ کی رقم خرد برد کرنے کے مترادف ہے ۔

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

Back to top button