نیا شوشہ یہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ مارچ 2018 ء میں ایوان بالا کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کی کامیابی کی نوبت نہ آئے ایک من چلے نے اس تجویز کی حمایت میں بیان دیکر مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس تجویز پر زور دے کر قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کریں اگر اکتوبر میں اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کیا گیا تو صورت حال یوں بنے گی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سوا باقی تمام جماعتیں آسانی سے میدان میں آسکینگی سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن)کو ہوگا اس کی تیاری پنجاب سمیت تمام صوبون میں مکمل ہے پاکستان پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی،جمعیتہ العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے بھی اپنی تیاری مکمل کر لی ہے بعض جماعتون نے ٹکٹ تقسیم کر دیئے ہیں بعض جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں بعض جماعتوں کے اُمیدوار غیر اعلانیہ مہم چلا رہے ہیں نواز شریف کے پاس مظلومیت کا بہت کار آمد کارڈ ہے جو انتخابات میں کیش ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی نے بھٹو کارڈکیلئے بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں اتارا ہے یہ کارڈ پنجاب میں 2013 کے مقابلے میں بہتر نتائج دیگا اگلا وزیر اعظم نواز شریف اور زرداری میں سے کسی ایک کا اُمید وار ہوگا مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف کو برتری حاصل ہوگی اور اگلے 5 سالوں کیلئے ایوان بالا مسلم لیگ کے پاس ہوگا خیبر پختونخوا میں عوامی مسائل حل کرنے کیلئے حکومت کے پاس آخری 8 ماہ رہ گئے ہیں وہ ہاتھ سے نکل جائینگے میں نے یہ بات پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیر ’’انصافی لیڈر‘‘کے سامنے رکھتے ہوئے سوال کیا کہ اسمبلیان ٹوٹ گئیں تو پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کا کیا ہوگا ؟ انہوں نے بلا تامل کہا کہ صرف پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ ہی ادھورا نہیں ہوگا پختونخوا کا ہر کام ادھورا رہ جائے گا ووٹروں کے پاس جانا مشکل ہوگا پاکستان تحریک انصاف کی تین اہم ترجیحات تھیں بلدیات،صحت اور تعلیم ،تینوں میں افراتفری کا راج ہے پرانا نظام ختم کر دیا گیا ہے نیا نظام چارسالوں میں نہیں آیا پشاور کا میئریا ناظم صوبائی وزیر اعلیٰ کے برابر اختیارات رکھتاتھا اب اُس کی حیثیت اعظم خان افریدی ،ھاجی غلام علی اور سیدعلی شاہ کے دور میں آنے والے جنرل کونسلر کے برابر بھی نہیں ہے تمام ضلع ناظمین شکایت کرتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں ملے سب لوگ کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور کا بلدیاتی نظام موجودہ حکومت کے نظام سے بہتر تھا اب اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ضلع ناظم سے بڑا آدمی ہے تعلیم کے شعبے میں مانیٹر نگ سسٹم ڈانوں دول حالت میں ہے قانون سازی نہیں ہوئی این ٹی ایس اساتذہ کی مستقلی کا مسئلہ 4 سالوں سے لٹکا ہوا ہے ہائر ایجوکیشن میں نئے تجربات سب ناکام ہو چکے ہیں کالجوں کی نجکاری نہ ہوسکی بی ایس پروگرام کیلئے ایم فل اور پی ایچ ڈی سٹاف کی دستیابی ممکن نہ ہو سکی پوسٹ گریجویٹ کالجوں کو ڈگری ایوارڈ کرنے کا اختیار نہیں ملا اساتذہ سڑکوں پر آگئے ہیں صحت کے شعبے میں کٹیگری بی ہسپتالوں کو چار سالوں میں سپشلسٹ ڈاکٹر نہیں ملے بی ایچ یو ز اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں ڈاکٹر مقرر کرنے ،لیبارٹری اور ایکسرے سمیت دیگر سہولیات دینے کا پروگرام ادھورا رہ گیا ڈاکٹروں کے لئے ہسپتالوں میں کلینک کھول کر انسٹیٹوشنل پرائیویٹ پریکٹس کا سسٹم دو چار ہسپتالوں سے آگے نہیں بڑھا قومی تعمیر کے ادارے تباہ ہوچکے ہیں پاک فو ج کے تربیتی اداروں میں ایک اصطلاح رائج ہے توڑ کر جوڑنا یہی اصطلاح قومی اداروں کیلئے کام دیتی ہے مگر اس میں توڑنا آسان ہے دوبارہ جوڑنا مشکل ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف توڑنے پر اپنی توانائیاں صرف کی ہیں جوڑنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا اگر خدا نا خواستہ قبل از وقت انتخابات ہوئے تو جوڑنے کا کام مسلم لیگ (ن)یا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے حصے میں آئے گا اس لئے مصلحت اور حکمت و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی کی قیادت بھی اسمبلیون کی مدت پوری ہونے کی حمایت کرے بقیہ 8 مہینوں میں ا دھورے کام مکمل کرنے کی کوشش کرے اسمبلیوں کے ٹوٹنے سے دوسری پارٹیوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا پی ٹی آئی کیلئے اس میں فائدے کا کوئی امکان نہیں ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا دو آنے ‘‘والی بات ہے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button