احمد سلیم سلیمی
یہ گزری سردیوں کی بات ہے ۔گلگت بلتستان کی تمام ادبی تنظیموں کے ممتاز اہل قلم کی وزیر اعلی حفیظ الرحمان صاحب سے ایک طویل نشست ہوئی تھی۔اس میٹنگ میں وزیر اعلا صاحب نے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ ،ستمبر اکتوبر میں قومی سطح کا ادبی میلہ منعقد کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔اس کے علاوہ مقامی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے لیے موثر اقدامات کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
ہمیشہ سے ہی اربابِ اقتدار اور ارباب قلم کے درمیان فاصلے رہے ہیں اس لیے اس محفل کا حصہ ہونے کے باوجود مجھے اس پر یقین کم ہی آیا تھا۔
وہ دن گزر گیا ۔اس نشست کی ساری تفصیلات اگلے دن اخبارات کی زینت بن گئیں ۔کہیں اسے سراہا گیا ۔کہیں اسے ایک سیاسی اعلان کی چاند ماری قرار دیا گیا ۔
وقت گزرتا گیا ۔سننے میں آیا ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔جس میں اربابِ قلم بھی ،اربابِ اقتدار بھی موجود ہیں ۔یہ کمیٹی پہلے جی بی کی مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے لیے قائم کی گئی تھی۔پھر یہاں کی سب سے بڑی مادری زبان ہونے کے ناتے ،پہلے مرحلے پہ شنا پر توجہ مبذول کی گئی ۔ابتدائی طور پر شنا کے متفقہ اور مسلّمہ حروف تہجّی کی تشکیل کا ،دقّت طلب اور نازک مسئلہ درپیش تھا۔شنید ہے یہ بنیادی اور نہایت اہم مرحلہ بہت حد تک تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ خوش کُن خبر بھی ہے کہ آئندہ سال سے شنا بولنے والے علاقوں میں پرائمری سطح تک، شنا کی تدریس کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
اس کمیٹی کے سربراہ معروف صاحبِ اسلوب شنا،اردو شاعر اور اعلی افسر ظفر تاج صاحب ہیں۔شِنا پڑھنے اور لکھنے کا چلن عام نہ ہونے سے ان کا شنا کلام زیادہ تر گلوکاروں کی زبانی دوسروں تک پہنچتا ہے ۔اس لیے شنا زبان کے تحفظ اور ارتقا کا احساس ان سے بڑھ کر کس کو ہو سکتاہے؟یہی وجہ ہے اس کمیٹی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ،ان کی فعالیت ،دلچسپی اور جذبہ غیر روایتی رہا ہے۔بہت کم عرصے میں حروفِ تہجی کی تشکیل اور قومی سطح کے ادبی و لسانی سیمینارکا کامیاب انعقاد اس کا بیّن ثبوت ہے۔
کالج کے میرے ساتھی اور شاعر اشتیاق یاد صاحب ابتد اسے ہی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔ان سے اکثر ان میٹنگز کی روداد پہ گفتگو ہوتی رہتی تھی۔انہی کی زبانی دو روزہ ادبی میلے کے انعقاد کی خوش گوار خبر سنی۔پھر جب اس ادبی و لسانی میلے کی تاریخ طے ہوئی تو ان کی مصروفیات بھی بڑھ گئی تھیں ۔کالج سے چھٹی کر کے ،سیمینار کی تیاریوں میں جُٹ گئے تھے۔ایک دن ان کا مسیج آیا کہ کل کی میٹنگ میں آپ بھی شریک ہوجائیں ۔آپ کو بھی سیمینار کے حوالے سے کچھ ذمہ داریاں دی جارہی ہیں ۔زہے نصیب ! مجھ حقیر کو بھی اس قابل سمجھا گیا تھا کہ قومی سطح کے اس ادبی میلے کا حصہ بن سکوں ۔
اگلے دن مقررہ وقت پر کے آئی یو کے عقب میں ظفر تاج صاحب کے دفتر میں حاضر ہوا۔بہت سے اہلِ قلم اور سرکاری اہل کار موجود تھے۔ جمشید دکھی صاحب،حفیظ شاکر صاحب ،نظیم دیا صاحب ،یونس سروش صاحب ،عبدالصبور کے علاوہ دو اعلی تعلیم یافتہ اورباصلاحیت خواتین شاعرات میمونہ عباس اور طاہرہ رضوی بھی موجو د تھیں ۔۔ظفر تاج صاحب خود صدار ت کر رہے تھے۔اپنے یادصاحب بڑے متحرک اور مصروف لگ رہے تھے۔سیمینار کی انتظامی تیاریوں اور جی بی سمیت پاکستان بھر سے اہلِ قلم کو بلا نے کی ذمہ داریوں پہ مامور تھے۔
اسی میٹنگ کے دوران دو روزہ سیمینار کی تفصیلات کا علم ہوا۔اس کے مطابق پہلے روز دو سیشن ہونے تھے۔افتتاحی نشست میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے آئے ہوئے مادری زبانوں کی اکیڈمیز کے سربراہ اور ماہرین ،جدید میڈیا کے ذریعے اپنے تجربات ،مشاہدات اور قابلِ عمل اقدامات بیان کرنے والے تھے۔
گلگت بلتستان میں مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے لیے حکومی سطح پر ایک اکیڈمی کا قیام زیر غور ہے۔اس کے علاوہ اردو زبان و ادب کی ترویج اور اہل قلم کی فلاح و بہبود کے لیے اکادمی ادبیات اسلام آباد کی ایک ذیلی شاخ کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے ۔اس پہلے سیشن سے ان اکیڈمیز کے قیام کے لیے موثراشارے مل سکتے تھے۔اس لیے اس سیشن کی اہمیت قابلِ قدر تھی۔اس سیشن میں نظامت کے فرائض KIU میں انگلش کے استاد ضیاء اللہ شاہ صاحب سرانجام دے رہے تھے۔
اسی دن دوسرے سیشن میں مادری زبانوں کا مشاعرہ تھا۔جس میں جی بی کی تمام زبانوں کے علاوہ پاکستان کی تمام بڑی مادری زبانوں کے شعرا ،مشاعرے کو چار چاند لگانے والے تھے۔اس سیشن میں میزبانی کے فرائض شنا کے مشہور شاعر نظیم دیا صاحب اور وخی زبان کی کمپیئر لیلیٰ غازی سرانجام دے رہے تھے۔
سیمینا رکے دوسرے دن ،ابتدائی سیشن میں جی بی کی تمام زبانوں کے علاوہ پاکستان بھر سے آئے ہوئے ماہرین لسانیات ،’’مادری زبانوں کا تحفظ اور ترویج ،بذریعہ تدریس ،تحریر اور تحقیق ‘‘کے موضوع پر مقالے پیش کرنے والے تھے۔اس نشست کی میزبانی کے فرائض ہمیں ملی تھی۔میرے ساتھ یونیورسٹی کی ایک لیکچرار مس صائمہ معاونت کر رہی تھیں۔دوسرے دن کے آخری سیشن میں قومی زبان کا بڑا مشاعرہ تھا۔جس میں پاکستان کے مقبول اور معروف شعراکے علاوہ جی بی کے ممتاز شعرا اپنے جوہرِ تخلیق کے رنگ بکھیرنے والے تھے۔اس اردو شعری نشست کی نظامت اچھے شاعر اور معروف علمی شخصیت یونس سروش صاحب اور یونی ورسٹی کی ایک طالبہ طاہر ہ رضوی صاحبہ (حسنِ اتفاق سے جو شاعرہ بھی ہیں ) کے ذمے تھی۔
اس میٹنگ کے بعد ہم سب اپنی اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں میں جُت گئے۔بالآخر سیمینار کی تاریخ آپہنچی ۔سات آٹھ مہینے پہلے وزیر اعلی صاحب نے اہلِ قلم سے جو وعدہ کیا تھا ،بالآخر وفا ہوگیا۔
قراقرم یونیورسٹی ،جی بی کا بڑا تعلیمی ادارہ ہے ۔بہت سارے علمی ،فکری اور ادبی پروگرام وہاں کے مشرف ہال میں منعقد کیے جاتے ہیں ۔کے آئی یو کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی دلچسپی اور شرکت کسی بھی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔
اس دو روزہ قومی ادبی و لسانی میلے کے لیے بھی قراقرم یونیورسٹی کا آڈیٹوریم منتخب کیا گیاتھا۔سندھ ،بلوچستان ،پنجاب ،کے پی کے اور اسلام آباد کے علاوہ پورے جی بی سے اہلِ قلم و اہلِ دانش نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی ۔کے آئی یو کے طلبہ وطالبات کی شرکت بھی بھرپور رہی تھی۔صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے بہترین نظم و نسق کے باعث یہ سیمینار بڑے منظم اور بھرپور طریقے سے منعقد ہوا تھا۔
وزیر اعلی حفیظ الرحمان صاحب ،چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز صاحب ،متعدد وزرا اور اعلی سرکاری افسران کی اس میں شرکت اور دل چسپی بھی قابلِ قدر تھی۔وزیر امور کشمیر برجیس طاہر صاحب ان دنوں گلگت کے دور ے پر تھے۔سیمینار کے دوسرے دن انہوں نے وزیر اعلی صاحب کے ساتھ خصوصی شرکت کی تھی۔اپنی تقریر میں انہوں نے بھی ،وزیر اعلی صاحب نے بھی معاشرتی رویوں کی اصلاح کے لیے ادب اور ادیب کی اہمیت کی بات کی تھی۔
ہمیشہ سے ہی حکومتیں، ادب اور ادیب سے بے نیاز رہی ہیں ۔گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا سیمینار ہو رہا تھا جس میں اربابِ اقتدار کی سرپرستی میں ہی اربابِ قلم اور ان کے فن کی قدر دانی کی جا رہی تھی۔
اب یہ اہلِ دانش اوراہلِ قلم کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومتی رویوں کو بدلنے نہ دیں ۔لوہا گرم ہے ۔ایک مربوط اور موثٗر اشتراکِ کار کے ذریعے ،اربابِ اقتدار کی زبان و اد ب نوازی کے سلسلے کو مضبوط کریں ۔ بڑی کر سی والوں کی ترجیحات بھی ،مصروفیات بھی ہزار رنگ ہوتی ہیں ۔ان سے مسلسل رابطے اور موثّر رویے سے ہی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے مراحل کو عملی شکل دی جاسکتی ہے۔
مادری زبان کسی قوم کی تہذیب و تمدن ،ثقافت اور عظمتِ رفتہ کی امین ہوتی ہے ۔یہ شعور کی ابتدائی مراحل سے ہی کسی بچے کی انگلی پکڑ کر چلاتی ہے۔اس کے لبوں پہ بول رکھ دیتی ہے۔ماں کے محسوسات اور جذبات سے ہم کلام کرا دیتی ہے۔یہ زبان ،سماج کے رویوں سے ابتدائی عمر میں ہی آشنا کرا دیتی ہے۔
اس ساری اہمیت کے باوجود ،جب جی بی کی مادری زبانوں کی افادیت اور فعالیت پر نظر ڈالیں تو شدید دکھ اور مایوسی ہوتی ہے۔یقینی طور پر گلگت بلتستان کی حکومت اور انتظامیہ ،شکریے کی بھی اور تحسین کی بھی مستحق ہے کہ اس موضوع کی اہمیت جان کر ،قومی سطح کا دو روزہ ادبی و لسانی سیمینار کا انعقاد کرایا ۔
یہ سیمینار ،سنگِ میل ہے ،منزل نہیں ۔اس سیمینار کے دوران پاکستان بھر کے اہلِ قلم اور ماہرینِ لسانیات نے مادری زبانوں کے تحفظ اور ارتقا کے لیے جس طرح اپنے تجربات اور مشاہدات پیش کیے ،اب اصل کام ان کو عملی شکل دینے کی ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک مایوسی اور بے عملی کی شدید دُھند تھی۔اب اس سیمینار کے بعد امید افزا موسم اتر آیا ہے۔
ہماری مادری زبانیں میڈیا کے سیلابِ بلا اور عالمگیریت کے عِفریت کے چنگل میں پھنسی ہیں ۔انہیں آزاد کرانا ہے۔انہیں زندگی کی تڑپ سے آشنا کرانا ہے۔ان کی افادیت اور فعالیت یقینی بنانا ہے۔اس کے لیے پہلے انہیں تعلیم و تدریس اور تحریر کی شکل میں لانا ہے ۔اس سیمینار کے بعد یہ مراحل بھی ا ب مکمل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں ادبی اور علمی رویوں کے پنپے کے لیے اس وقت بڑی سازگار فضا ہے۔اسے حسنِ اتفاق سمجھ لیں اس سیمینار کے مقاصد کو عملی شکل دینے کے لیے تین اہم شخصیات ہیں۔ان میں ادب شناسی بھی ہے ،زبان و ادب نوازی بھی ہے۔ان میں وزیر اعلیٰ حافظ ٖحفیظ الرحمان صاحب ،چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز صاحب اور اس کمیٹی کے سربراہ ظفر تاج صاحب شامل ہیں ۔مختلف مواقع پر پہلی دونوں شخصیات کی گفتگو ،ان کے رویوں اور اقدامات سے میں یہی سمجھا ہوں ۔اب ظفر تاج صاحب ،ان اعلیٰ ترین سرکا ری شخصیات کی ادب نوازی کا جذبہ ماند ہونے نہ دیں گے ۔اربابِ اقتدار اور اربابِ قلم کے درمیان موثر اور مفید رابطے کا ذریعہ بن جائیں گے۔تب اردو اور مادری زبان و ادب کے فروغ اور ترقی کا خوش کُن موسم اترے گا۔
گلگت بلتستان کی تمام ادبی تنظیموں میں مدبّر اور دانشمند اہلِ قلم موجود ہیں ۔یہاں لٹریری اکیڈمی کے قیام اور مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے لیے جو منصوبہ بندی زیرِ عمل ہے ان اہل قلم سے بھی مشاورت، اس کی افادیت اور اثر پزیری بڑھا دے گی ۔
ادب سے فکر کی اصلاح ہوتی ہے ،رویوں کی تہذیب ہوتی ہے ۔امید ہے آنے والے دنوں میں گلگت بلتستان میں اردو اور مادری زبانوں کے ادبی رویے پروان چڑھیں گے۔اس طرح سماج میں موجود فکری اور اخلاقی بیماریوں کے خاتمے کے لیے ادب اور ادیب کی اہمیت دوچند ہوگی ۔
آخر میں فیض صاحب کے دو شعر ۔۔۔
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اور یہ شعر اہلِ قلم کی طرف سے اہل اقتدار کے لیے ۔۔
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button