ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
خبر آئی ہے کہ نیکٹا نے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے مقدمات میں سول عدالتوں کے ذریعے سزاوں کے عمل کو تیز کرنے کے لئے موجودہ عدالتی نظام اور فوجداری قوانین سے متعلق متعدد تجاویز پر مشتمل 52صفحات کا مسودہ صوبوں کے ساتھ مشاورت کے لئے پیش کردیا ہے اس مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ گھناونے جرائم میں ملوث ملزمان کے مقدمات میں ٹرائل کی مدت مختصر رکھی جائے سزاوں میں ترمیم واضافہ کر کے موجودہ قوانین کو فوجی عدالتو ں کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے نیز دیوانی اور فوجداری مقدمات کے لئے الگ الگ عدالتیں قائم کی جائیں قانون شہادت میں ترمیم اور شک کا فائدہ ملزم کو دینے پر نظرثانی بھی کی جائیگی اس طرح ٹرائل کورٹ اور اپیل میں خطرناک مجرموں کو چھڑانے کے حیلے بہانے ختم ہو جائینگے فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی مقتولیں کے ورثا پستول اور بندوق لیکر عدالتوں کے باہرضمانت پر رہا ہونے اور جرم سے بری ہو کر آنے والے مجرموں کا انتظار نہیں کرینگے ملک کے عدالتی نظام پر مظلوم عوام کا اعتماد بحال ہو جائے گا لوگ ججوں کی فراست اور قانون کے لمبے ہاتھوں پر بھروسہ کرینگے عکسی مفتی کی کتاب’’کا غذ کا گھوڑا‘‘ چھوٹے چھوٹے واقعات اور تجربات پر مشتمل ہے ایک جگہ لکھا ہے کہ یورپ سے حصول تعلیم کے بعد واپس آیا تو جذبہ جوان تھا خون میں گرمی تھی ایک
ڈرائیور نے ٹریفک سگنل توڑ کر میری گاڑی کو ٹکر ماری ڈرائیور کا چالان ہوا میں نے ایف آئی آر کٹوائی گاڑی کے مالک نے 5ہزار روپے تاوان دے کر مک مکا کرنے کی پیشکش کی میں نے پیشکش ٹھکرادی سات سالوں تک مقدمہ چلا سات سالوں میں میر ے ڈھائی لاکھ روپے مقدمے پر خرچ ہوئے ڈرائیور اور گاڑی کے مالک کو بری کردیا گیا میں نے سوچا سات سال پہلے ملنے والے 5ہزار روپے غنیمت سے کم نہیں تھے پشاور کی کچہری میں گذشتہ 10سالوں کے اندر 4واقعات ایسے ہوئے جن میں مقتول کے کم سن بیٹے نے ضمانت پر رہا ہونے یا جرم سے بری ہونے والے قاتل کو عدالت کے احاطے میں گولی مارکر ہلاک کر دیا اور پولیس کو بیان دیا کہ اُس نے باہر آکر میرے گھر پر ایک اور حملے کی دھمکی دی تھی دسمبر 2014ء میںآرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے کے بعد نیکٹا کو فعال کر کے گھناونے جرائم میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ ہمارے موجودہ قانونی اور عدالتی نظام میں اس کی گنجائش نہیں 10سال یا 12سال سے کم مدت میں کسی مقدمے کا فیصلہ ہونا ممکن نہیں ہے اور کسی گھناونے جرم میں ملوث مجرم کو سزا دینا بہت مشکل ہے کیونکہ خودکش جیکٹ کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مجرمان بھی عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں اس لئے دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کئے گئے اور دو سالوں کے اندر 700مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی ان میں ایسے مجرم بھی تھے جو 16یا18سالوں سے مقدمات بھگت رہے تھے اور عنقریب بری ہونے والے تھے ایسے مجرمان بھی تھے جنکی رحم کی اپیلیں زیر غور تھیں اور ایسے مجرمان بھی تھے جن کو معاف کر نے کے لئے مقتولین کے ورثا کو اغوا کی دھمکیاں دی جارہی تھیں آرمی چیف نے سزاوں کی توثیق کر دی اور قانون پر عملدر آمد ہو ا دو سال بعد پھر وہی پرانا سلسلہ شروع ہوا اگرچہ فوجی عدالتوں کے قانون کی مدت میں توسیع کر دی گئی مگر مقدمات کو سول عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ ہوا نئے مقدمات فوجی عدالتوں کو نہیں بھیجے گئے سول عدالتوں میں چوہے اور بلی کا کھیل چلتا ہے سیشن جج پورے ثبوتوں کی روشنی میں دہشت گرد ،قاتل اغوا کار اور سمگلر کو سزا دیتاہے تو ہائی کورٹ سے و ہ بری ہو کر باہر آجاتا ہے کیونکہ قانون میں سقم موجود ہے قاتل،دہشت گرد،اغواکار یا سمگلر اکیلا آدمی نہیں ہوتا اُس کے پیچھے ملکی اور غیر ملکی ادارو ں کا پورا گینگ ہوتا ہے اس گینگ کے پاس بے پناہ دولت ہوتی ہے یہ لوگ نوٹوں کی گنتی نہیں کرتے نوٹ والے بوروں کی گنتی کرتے ہیں کسی مجرم کو چھڑانا ،ضمانت کرانا یا عدالت سے بری کرانا اُن کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کام ہوتا ہے ہمارے موجودہ قوانین میں گھناونے جرائم کی سزا اور جرمانے کی جو حدمقر ر ہے وہ مضحکہ خیز ہے چرس،ہیروئین،اسلحہ یا گولہ بارودکا ٹرک پکڑا جائے تو ملزم کو معمولی قید اورمعمولی جرمانے سے زیادہ سزا نہیں ہو سکتی اگر شہادتو ں میں معمولی شک بھی نظر آئے تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے اس لئے لوگ قانون کو مذاق کا درجہ یتے ہیں نیشنل کاونٹر ٹریرزم اتھارٹی NACTA) )نے اگرچہ بہت دیر کردی مگر اچھا قدم اُٹھایا ہے اب صوبوں کے ساتھ مشاورت کے عمل میں زیادہ دیر نہیں لگانی چاہیے تجویز مرتب کرنے میں نیکٹا نے 10 سال لگائے اگر مشاورت کے عمل میں 10 سال اور قانون سازی کے عمل میں مزید 10سال لگ گئے تو قوم کی مایوسی مزید بڑھے گی قدیم زمانے کا فارسی مقولہ ہے ’’تاتر یاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مر دہ شود‘‘عراق سے تر یاق لاتے لاتے اتنا عرصہ بیت جائے گا کہ سانپ کا ڈساہوا مریض مر چکاہوگا نیکٹا کی تجاویز خوش آئیند ہیں 52 صفحات کا مسودہ بھی اپنی جگہ درست ہے اب ان تجاویزکو ایک ماہ کے اندر قانون کی صورت دیکر ملک میں نافذ کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ سول عدالتوں پر عوام اعتماد بحال ہو جائے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button