کالمز

گلگت بلتستان ہاوس ۔۔۔۔ فرق صاف ظاہر ہے

رشید ارشد

گزشتہ دور حکومت میں گلگت بلتستان ہاوس میں آنا جانا کم ہی رہا لیکن جب بھی جانا ہوا حالت دیکھ کردل خون کے آنسو روتا تھا کہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق گلگت بلتستان کی قوم کے اثاثے کے ساتھ انتہائی بے رحمی والا سلوک روا رکھا گیا تھا ،اس خوبصورت قومی اثاثے کو بھوت بنگلہ بنا دیا گیا تھا۔پوری عمارت کی حالت غیر تھی نہ کمروں کی حالت درست تو نہ کچن کا انتظام درست ،پندرہ سے بیس کمروں پر حکومت کے منظور نظر غیر منتخب افراد کا قبضہ پورے پانچ برس تک برقرار رہا ،عوامی نمائندوں اور گلگت بلتستان کی اہم شخصیات کو کمرہ نہیں ملتا تھا لیکن حکومت کے منظور نظر افراد جب چاہیں جس وقت چاہیں مرضی کا کمرہ حاصل کر سکتے تھے ۔دوسری طرف وزیر اعلی گلگت بلتستان ہاوس کے نام پر اسلام آباد کے مہنگے سیکٹر میں کھوٹھی کرائے پر حاصل کی گئی جس کا کرایہ پاکستانی روپوں میں نہیں ڈالروں میں ادا ہوتا تھا اس سی ایم ہاوس کا کرایہ و بلات دس لاکھ سے زائد ماہانہ تھے کم سے کم دس لاکھ بھی سمجھیں تو یہ رقم پانچ سال تک چھ کروڑ بنتی ہے اسی طرح اک عجب تماشہ بھی دیکھنے کو ملا کہ پیپلز پارٹی کے گورنر پیر کرم علی شاہ اپنے زاتی گھر میں رہ رہے تھے لیکن اس کا کرایہ گلگت بلتستان کی عوام کا خون نچوڑ کر اپنی جیب کی نذر کر رہے تھے۔ ایسی بے رحمی کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے ،سابق وزیر اعلی اور سابق گورنر نے بہت ہی بے رحمی سے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کئے گورنر ہاوس اور وزیر اعلی ہاوس اسلام آباد کے موٹے موٹے اخراجات ماہانہ تیس لاکھ سے زائد تھے ،یہ رقم پانچ سال تک حساب کریں تواٹھارہ کروڑ بنتی تھی جو صرف کرائے کی مد میں خرچ کئی گئی حالانکہ بہت ہی آسانی سے قوم کی یہ رقم بچائی جا سکتی تھی ،پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے غریب قوم کے خزانے کو اپنا حق سمجھ کر بہت ہی بے دردی سے خرچ کیا دوسری طرف گلگت بلتستان ہاوس کی جو حالت تھی اللہ کی پناہ ، گلگت بلتستان ہاوس خزانے پر بوجھ بن گیا تھا ۔

کفایت شعاری اور سادگی کا تعلق انسان کی ابتدائی تربیت سے ہوتا ہے جن کی تربیت میں خدا خوفی شامل ہو ان کے سامنے خزانے کے انبار بھی رکھے جائیں تو وہ خوف خدا سے ہاتھ بھی نہیں لگاتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عوام کی عدالت سے تو شاید بچ جائیں لیکن اللہ کی عدالت سے بچنا مشکل ہے یہی وہ خوف ہے جو حکمرانوں کو کفایت شعاری اور سادگی کی طرف لے کر جاتا ہے اور ایک ایک پائی کو قوم کی امانت سمجھ کر خرچ کرتے ہیں ۔

موجودہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی تربیت ایک اچھے ماحول میں ہوئی ان کی کردار سازی میں بہت ہی شدو مد سے انسانیت سے محبت اور قوم کی امانت کی حفاظت کادرس شامل کیا گیا ،اور جب سیاسی تربیت کا مرحلہ آیا تو بھی کبھی بھی انہوں نے روایتی سیاست کر نے کی کوشش نہیں کی ہمیشہ اصولوں کی پاسداری کی ،ان کے شدید سیاسی مخالفین نے بھی اس بات کا برملا اظہار کیا کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن حافظ حفیظ الرحمن ایک خودار اور روشن کردار کی حامل شخصیت کا نام ہے ،اللہ نے انہی صفات کی بدولت ان کے سر پر اقتدار کا ہما رکھا تو ان کے کردار میں اقتدار کی چمک دیکھ کر کو ئی تبدیلی نہیں آئی ،کفایت شعاری اورسادگی کو اپنا شعار بنایا ۔حفیظ الرحمن چاہتے تو مہدی شاہ سے زیادہ مہنگی کوٹھی کو کرائے پر حاصل کر کے وزیر اعلی ہاوس بنا سکتے تھے کیونکہ مہدی شاہ سرکار نے روایت ڈال دی تھی انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنی سادگی کفایت شعاری اور بہترین کردار سازی کی تربیت کے عین کے مطابق قوم کی امانت میں خیانت نہیں اور قومی خزانے کو بچانے کے لئے وزیر اعلی ہاؤس الگ بنانے کے بجائے گلگت بلتستان ہاوس کے دو کمروں میں رہائش اختیار کر کے کفایت شعاری اور سادگی کی بہترین مثال قائم کی ۔ اب ہر ماہ قومی خزانے کو تیس لاکھ کی بچت ہوتی ہے ۔اس عمل سے نہ صرف سادگی کا عنصر جھلکتا ہے بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ ان کے دل میں یہ خوف موجزن ہے کہ اللہ کی عدالت میں جواب دہ ہونا ہے۔

وزیر اعلی نے ٹھاٹ بھاٹ اور شان شوکت بڑھانے کے بجائے اسلام آباد میں گلگت بلتستان کی قومی علامت گلگت بلتستان ہاؤس کو قبضہ مافیا سے واگزار کرا کر اسے سابقہ حکومت کے بھوت بنگلے سے ایک خوبصورت اور باوقار قومی علامت کا درجہ دیا۔ گلگت بلتستان ہاؤس کی تزئین آرائش کر کے اسے اس قابل بنا دیا کہ یہاں رہائش اختیار کی جا سکے ،ہاؤس کی تزئین آرائش میں بھی کفایت شعاری کا پورا خیال رکھا گیا ہے اور کمروں سے لے کر استقبالیہ تک بہت ہی خوبصورتی سے کام کیا گیا ہے ،اب گلگت بلتستان ہاؤس میں سابقہ حکومت کی طرح نہ تو حکومت کے منظور نظر افراد کا قبضہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نظام ہے کہ کوئی مفت رہ کر قومی خزانے کو ٹیکہ لگائے۔ سابقہ حکومت میں گلگت بلتستان ہاؤس خسارے میں تھا لیکن موجودہ حکومت کی پالیسی سے خسارے کے بجائے ایک اچھی خاصی رقم قومی خزانے میں جمع ہو رہی ہے ،وزیر اعلی کی سادگی اور کفایت شعاری کی اس سے بڑہ کر اور کیا مثال ہوگی کہ انہوں نے شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ کے ساتھ الگ رہائش اور وسیع و عریض الگ دفتر کرائے پر لینے کے بجائے گلگت بلتستان ہاؤس میں ہی دو کمروں کو الگ کر کے وزیر اعلی ہاوس قرار دیا اور ایک چھوٹے سے کمرے کو وزیر اعلی کا دفتر قرار دیا ،اسے کہتے ہیں عوامی حکمران ،جو اقتدار اختیار ہونے کے باوجود سادگی،قناعت ،کفایت شعاری اور قوم کی امانت کی حفاظت کریں نہ کہ اقتدار اختیار کے نشے میں شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ اختیار کر کے عوا م کو فراموش کریں ،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ایک ایسی بہترین مثال پیش کی ہے کہ آئندہ گلگت بلتستان میں آنے والے حکمرانوں کو بھی انہی کی تقلید کرنی ہوگی،موجودہ حکومت کی سادگی اور سابقہ حکومت کی شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ میں فرق صاف ظاہر ہے لیکن اس فرق کو دیکھنے کے لئے سیاسی انتہا پسندی اور بغض و تعصب کی عینک اتارنا ضروری ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button